ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد ہر بار کی طرح یہی خوف تھا کہ اب شہرِقائد کی سڑکوں پر سناٹے کا راج ہو گا، کہیں گولیوں کی آوازیں سنائی دیں گی تو کہیں سڑکوں پر گاڑیاں نذرِآتش کی جارہی ہوں گی۔ کراچی میں ووٹوں اور نشستوں کی اکثریت حاصل کرکے کام یاب ہونے والی سیاسی جماعت جو اَسّی کی دہائی سے کراچی کے لوگوں کے دلوں پر حکومت کر رہی ہے کے قائد اور کراچی میں بسنے والوں کی نوے فی صد پر مشتمل مہاجر آبادی جو مہذب اقدار اور تہذیب کے علم بردار ہیں کے ہر دل عزیز راہ نما کے لبوں کی ایک جنبش کراچی کو تہس نہس کردے گی۔ ماضی میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی رہی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ایسا نہ ہوا۔ تقریر کے بعد ہنگامہ آرائی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد نے نے انتہائی غیرذمہ داری کا ثبوت دیتے اور معصوم عوام کو بغاوت پر اکساتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کے ناپاک نعرے بلند کیے اور مختلف میڈیا چینلز کے دفاتر پر حملے کا حکم دے دیا۔ کارکنوں نے اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حکم کی تعمیل کی۔ خدشہ اسی بات کا تھا کہ اب کراچی میں زندگی کچھ دن تک مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نہ دکانیں بند ہوئی نہ ہی ٹریفک کی روانی میں کوئی کمی آئی، نہ نعرے لگے نہ جلاؤ گھیراؤ ہوا۔ زندگی اپنے معمول پر یوں رواں دواں تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ دیکھ کر سکون ہوا اور حیرت بھی۔ شکر ادا کیا کہ آخر میرے شہر کے لوگوں کو اپنے مفاد کی سمجھ آہی گئی۔
یعنی جس تبدیلی لانے کے لیے ہمارے ملک کے سیاست داں کئی کئی دن تک راستے بلاک کرکے شہر کی زندگی نہیں بل کہ پورے ملک کی زندگی مفلوج کر دیتے ہیں، جس تبدیلی کا نعرہ لگاتے لگاتے ان کے گلے خشک ہوجاتے ہیں، جو تبدیلی وہ ہمارے پاکستان کے سیاست دانوں کی نظر میں راتوں رات آجائے گی، انہیں اگر دیکھنا ہو کہ تبدیلی کہتے کسے ہیں تو کراچی میں آکر ذرا حالات کا جائزہ لیں اور جانیں کہ تبدیلی اِسے کہتے ہیں جو رفتہ رفتہ آتی ہے۔ انقلاب کے بیج دلوں کی زمیں پر خود ہی اپنی جگہ بنالیتے ہیں اور یوں کہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اور کن حالات میں ان کی آبیاری ہوئی۔ ذہن، آنکھ اور دل کی گواہیاں اس بیج کو پنپنے میں مدد دیتی ہیں، یہی کچھ کراچی میں ہوا۔ آخر کراچی کی عوام نے اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لینے کا فیصلہ کر ہی لیا جس کے مزید نتائج ابھی سامنے آئیں گے۔
صورت حال یہ ہے کہ بہت کچھ ہونے کے بعد بھی کچھ نہ ہونا بتا رہا ہے کہ تبدیلی آچکی ہے۔ کراچی اور اندرون سندھ ایم کیو ایم کے غیرقانونی طور پر قائم دفاتر کا مسمار ہونا، تصاویر اور پوسٹر کا ہٹایا جانا، بل بورڈز کا اتارا جانا، کچھ عرصہ پہلے تک ناممکنات میں سے تھا جو کہ آخر ہو کر رہا۔ ایک وقت تھا کہ سارا شہر بند ہوتا تھا لیکن متحدہ قومی موومنٹ کا ہیڈ آفس نائن زیرو کھلا ہوتا تھا۔ آج بھی وہی کراچی ہے، وہی لوگ ہیں لیکن شہر میں زندگی رواں دواں ہے جب کہ نائن زیرو پر سناٹا چھایا ہے۔ کسی منتخب سیاسی جماعت پر یہ وقت آجانا خوشی کی بات نہیں، افسوس ناک ہے، لیکن عبرت کا مقام ہے۔ بہ ہر حال جو ہونا تھا ہوکر رہا، تو جناب اسے کہتے ہیں تبدیلی، جو عوام لاتے ہیں۔ کراچی کی نمائندہ جماعت کے قائد کی تصاویر اتارنے پر بھی کوئی ردِعمل عوام کی طرف سے نہ آنا عوام کا ان سے لاتعلقی کا اظہار ہے، کیوں کہ انھوں نے پاکستان کے خلاف بات کرکے اس شہر کے محب وطن عوام کے دلوں کو زخمی کردیا۔
یہ ایک المیہ ہے، جو سیاسی جماعت کراچی اور سندھ کے لیے بہت کچھ کر سکتی تھی وہ فقط اپنے جذباتی رویوں کی وجہ سے عملی طور پر آج پابندی کا شکار ہے۔ قیادت ایک بہت ذمہ داری اور تدبر کا کام ہے، کسی راہ نما کی غلطی پوری جماعت اور اس قیادت کی راہ نمائی میں چلنے والوں کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتی ہیں۔ اب یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ کراچی کے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنی پسندیدہ جماعت کو ووٹ دینے کے لیے تو تیار ہیں لیکن ملک دشمن نعرے اور امن دشمن اقدامات کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اب کراچی کی نمایندہ جماعت کو اپنی پالیسی بدلنی ہوگی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کو اپنے عمل کے ذریعہ غلط ثابت کرنا ہوگا اور عوام کے مسائل پر توجہ دیتے ہوئے خود کو حقیقی معنوں میں ملک کی وفاقی جماعت ثابت کرنا ہوگا۔ متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان میں مقیم قیادت کے پاس اپنی بقاء کو یقینی بنانے کا یہ آخری موقع ہے۔ وہ چاہے تو کراچی کی تقدیر کا رخ موڑتے ہوئے اپنی پارٹی کو نئی زندگی دے سکتی ہے۔ ان سارے مسائل پر قابو پانے کے لیے کسی حد تک متحدہ قومی موومنٹ کے سنیئر راہ نما فاروق ستار کی پالیسی قابل تعریف ہے کہ انھوں اپنی پارٹی اور اس پارٹی سے جڑے کراچی کے عوام کو اندھیری گلی سے نکلنے کا راستہ دکھایا ہے اور یوں کراچی کی سیاست ایک نئے موڑ پر آگئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ نئی سیاست کراچی کو مستقبل میں عوام کی فلاح کی صورت میں کوئی تحفہ دے گی یا فقط چہرے بدلے جانے کی حقیقت آشکار ہوگی۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کراچی کی یہ تبدیلی تمام سیاست دانوں کے لیے سبق ہیں کہ وہ عوام کو بھیڑ بکریاں نہ سمجھیں کہ وہ انھیں جب اور جس طرح چاہے استعمال کرلیں گے۔ یہ تبدیلی اسٹیبلیشمنٹ کے لیے سبق ہے کہ حقیقی بدلاؤ عوام اور سیاسی جماعتوں میں اندر سے آتا ہے، باہر سے فیصلے اور قیادتیں مسلط کرنے کا عمل ناکام ثابت ہوتا ہے۔ اب ہر ایک کو تجزیہ کرنا چاہیے کہ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ یہ عوام کے مسائل ہیں جنھوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچادیا ہے، اگر کراچی کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حل کیا جائے تو اس شہر میں تعصب اور نفرت کا کوئی نعرہ کبھی کام یاب نہیں ہوسکے گا۔ لیکن اگر مسائل برقرار ہے تو شاید ہٹائی جانے والی تصویریں اور گرائے جانے والی عمارتیں ایک بار پھر اس شہر کا مقدر ہوں گی۔