[author image=”http://urdu.hunzanews.com/wp-content/uploads/2015/04/11150176_852333084827693_5684341531789167618_n.jpg” ]ثناء غوری[/author]
ایک عرصے سے لوگوں کے لاپتا ہونے کی خبریں دل دہلاتی رہی ہیں، پھر بچوں کے اغوا کی تواتر سے ملنے والی اطلاعات نے غم زدہ کردیا اور اب یہ انکشاف حیران کرگیا ہے کہ ہمارے ملک کے آٹھ دس، دو سو تین سو، چار ہزار پانچ ہزار نہیں پورے سات کروڑ باشندے لاپتا ہیں …جی ہاں، پورے سات کروڑ پاکستانی گُم شدہ ہیں۔
میں گپ بازی کر رہی ہوں نہ کوئی افواہ پھیلانے کی مذموم سازش کر رہی ہوں۔ یہ اطلاع پاکستان کے معتبر ترین ایوان سے مجھ تک پہنچی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے برائے خزانہ کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کی 19کروڑ 60لاکھ آبادی میں سے سات کروڑ افراد کا ڈیٹا کسی بھی ادارے کے پاس موجود نہیں، جب کہ بارہ کروڑ ساٹھ لاکھ افراد کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس اجلاس میں کہا گیا کہ تارکین وطن اور مہاجرین کا تعین کرنے کے لیے مردم شماری کا انعقاد بہت ضروری ہے۔ فوج کے بغیر مردم شماری کرانے کا کوئی متبادل منصوبہ موجود نہیں ہے۔ چیف شماریات آصف باجوہ نے کمیٹی کو بتایا کہ سول سائیڈ کی جانب سے مردم شماری کروانے کے لیے ہر وقت تیار تھے۔ حکومت نے دو ارب روپے بھی جاری کردیے تھے مگر فوج کے ضرب عضب میں مصروف ہونے کے باعث سی سی آئی نے مردم شماری کے التواء کی ہدایت کی تھی انہوں نے کہا کہ مردم شماری میں ایک لاکھ 67 ہزار شمار کنندہ کی ضرورت ہے فوج کے جوان مصروف ہیں، اس لیے مسئلہ حل نہیں ہورہا ہے۔ چیف شماریات آصف باجوہ نے اس موقع پر بتایا کہ یہ سات کروڑ لوگ کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے، اس حوالے سے ہمیں کچھ معلوم نہیں۔
اب آپ ہی بتائیے جن لوگوں کے بارے میں پتا نہ ہو کہ وہ کیا کرتے ہیں، کہاں رہتے ہیں اور ان کا ذریعہ معاش کیا ہے، انھیں لاپتا اور گم شدہ افراد قرار نہ دیا جائے اور کیا کہا جائے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا ملک کیسے چلایا جارہا ہے۔ جب یہی نہیں پتا کہ اس ملک کے کروڑوں افراد کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں تو ان کی بہبود کا کوئی منصوبہ کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ سات کروڑ افراد کی بابت یہ لاعلمی کوئی مذاق نہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں بسنے والوں کی تعداد یا ان ممالک کی کُل آبادی اس تعداد سے کم ہے جو ہمارے ہاں لاپتا ہے۔ گویا پاکستان میں حکومتی ادارے ایک پورے ملک کی آبادی جتنی تعداد کے بارے میں بے خبر ہیں۔
اس صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں مردم شماری تسلسل کے ساتھ اور معیاری انداز میں نہیں ہوتی۔ مردم شماری ایک آئینی تقاضا ہے۔ جس طرح آئین کے تحت انتخابات کا انعقاد ضروری ہے، جمہوری ایوانوں کا قیام ضروری ہے، مختلف اداروں کا ہونا لازمی ہے، اداروں کے اختیارات کا تعین کیا گیا ہے، بالکل اسی طرح ہمارا آئین مردم شماری کو بھی ناگزیر قرار دیتا ہے۔ مگر یہاں آئین اور قانون کی سنتا کون ہے۔
پاکستان کے آئین کی رو سے ملک میں مردم شماری کا عمل ہر دس سال کے بعد ضروری ہے، تاہم پاکستان میں آخری مردم شماری 17 سال قبل 1998ء میں ہوئی تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے گذشتہ دور حکومت کے دوران خانہ شماری انعقاد تو کیا گیا، تاہم مردم شماری نہیں ہوسکی۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 13 کروڑ اسی لاکھ کے قریب تھی۔ تاہم حال ہی میں جاری ہونے والے ملک کے اقتصادی سروے کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی تقریباً 18 کروڑ 80 لاکھ ہے۔
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مردم شماری کے عمل کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے۔ کسی ملک میں قابل عمل منصوبہ بندی کے لیے مردم شماری ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی کی بنیاد اعداد و شمار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جب یہ ہی نہیں معلوم کہ ملک کی آبادی کتنی ہے، کس صوبے کی کتنی آبادی ہے کس ضلع میں کتنی آبادی ہے، کس شہر اور قصبے میں کتنے لوگ بستے ہیں، لوگوں کی تعلیم اور ان کا پیشہ کیا ہے، ان کی اوسط عمریں کیا ہیں، تو کوئی صحیح منصوبہ بندی کیسے ہوسکے گی؟ یہ سب کچھ مردم شماری کی بنیاد پر ہوتا ہے جو اصولی طور پر ہر دس سال بعد ہونا ضروری ہے۔
مردم شماری اور خانہ شماری صرف گننے ہی کا عمل نہیں، یعنی مردم شماری اور خانہ شماری میں صرف افراد ہی کو نہیں گنا جاتا بل کہ اس عمل میں آبادی کے علاوہ گھروں کی تفصیل فراہم کی جاتی ہے، جو ملک میں ترقی اور منصوبہ بندی کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح اس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ شمار کیے جانے والے لوگوں کی عمر کیا ہے ان کی تعلیم کیا ہے، ملک کے کس علاقے میں کتنے اسپتال، کتنے دفاتر، کتنے گھر ہیں۔ ان میں کتنے افراد رہتے ہیں۔ یہ سب معلومات ملک کی ترقی اور عوام کی بہبود کے منصوبے بنانے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
پاکستان میں 1998 کے بعد مردم شماری کا انعقاد نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں منصوبہ بندی آبادی کے ایک محتاط تخمینے کی بنیاد پر کی جاتی رہی ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں منصوبہ بندی بنیادی حقائق کے مطابق نہیں ہوتی۔
ہمارے ملک میں مردم شماری جیسا ناگزیر عمل تاخیر سے ہوتا ہے اور جب ہوتا ہے تو اختلافات اور تنازعات کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سیاسی، علاقائی اور لسانی گروہوں کے مفادات اور تعصبات ہیں، جن کی وجہ سے جعل سازی اور فریب کاری کے ذریعے مختلف طبقات کی تعداد بڑھانے یا گھٹانے کی افسوس ناک کوشش کی جاتی ہے۔ اسی لیے بعض حلقے مردم شماری کے التوا ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مردم شماری فوج ہی سے کیوں کرائی جائے؟ یہ فوج کا کام نہیں، اس کے لیے متعلقہ سویلین ادارے کے پاس باقاعدہ افرادی قوت ہونی چاہیے، لیکن مسئلہ ہے اعتماد اور اعتبار کا، ہمیں سوچنا ہوگا کہ الیکشن ہو یا مردم شماری یہ مطالبہ کیوں سامنے آتا ہے کہ یہ عمل فوج کرائے یا فوج کی نگرانی میں کرایا جائے۔ ہمیں سویلین اداروں کو لائق اعتبار اور قابل اعتماد بنانا ہوگا، ورنہ مردم شماری جیسا اہم معاملہ التوا کا شکار ہوتا رہے گا۔
ضروری ہے کہ مردم شماری کا عمل فوری طور پر کرایا جائے تاکہ ہم اندازوں کی دھند سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آسکیں اور یہ جان سکیں کہ ہمارے ملک کی آبادی درحقیقت کتنی ہے اور کتنے پاکستانی کس کس سہولت سے محروم ہیں۔