ہنزہ نیوز اردو

اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، کسی قسم کا دباو نہیں تھا، کالاش لڑکی رینہ کی پریس کانفرنس

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، کسی قسم کا دباو نہیں تھا، نومسلم کالاش لڑکی رینہ کی پریس کانفرنس

 


اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے، کسی قسم کا دباو نہیں تھا، نومسلم کالاش لڑکی رینہ کی پریس کانفرنس

چترال ( بشیر حسین آزاد) کالاش ویلی بمبوریت کی نو مسلم لڑکی رینہ دختر غلام محمد کالاش نے میڈیا کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے ۔ اور اُن پر کسی نے بھی قبول اسلام کے سلسلے میں دباؤ نہیں ڈالا ۔

چترال پریس کلب میں اپنے والد اور دیگر رشتہ داروں کی موجودگی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتی ہوئی انہوں نے کہا کہ اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اُن کا اپنا ہے ۔ اور یہ کہ انہیں کسی مسلم مرد یا خاتون نے کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا ۔ لیکن غلطی سے بعض لوگوں نے میرے دوبارہ کالاش مذہب کی طرف واپس لوٹنے کی افواہ پھیلائی ۔ جس کے نتیجے میں علاقے کے مسلم اور کالاش برادری میں تنازعہ کھڑا ہوا ۔ تصادم پیدا کرنے سے پہلے مجھ سے میرے مسلمان ہونے کے بارے میں حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اور خود افواہ پھیلا کر انتشار کو ہوا دی ۔ تاہم رب کا شکر ہے ۔ کہ معاملہ اب سنبھل گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں بمبوریت کے مسلمان اور کالاش دونوں کمیونٹی سے میں معافی مانگتی ہوں کہ میری وجہ سے ایک تنازعہ کھڑ ہوا ۔ نو مسلم رینہ نے کہا کہ کلاش لڑکیوں کا مسلمان ہونا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے ۔ اور نہ کھبی دونوں کمیونٹیز کے درمیان اس حوالے سے پہلے کبھی تنازعہ ہوا ہے ۔ تاہم یہ واقعہ جس طریقے سے بھی رونما ہوا قابل مذمت ہے ۔ اس واقعے سے کالاش برادری خوفزدہ ہوئی ہے ۔ جو کہ میرے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ رینہ نے ایک کالاش گھر کو نقصان پہنچانے کی بھی بھر پور مذمت کی ۔ اور کہا ، کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔

انہوں نے کہا ، کہ وہ نویں جماعت کی سٹوڈنٹ ہے ، اور اسلام سے متاثر ہو کر کلمہ پڑھا ہے ۔ اس موقع کالاش قاضی شیر محمد اور بہرام شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ کالاش اور مسلمان ان وادیوں میں صدیوں سے رہ رہے ہیں ۔ اور اب تک ان کی باہمی اخوت اور بھائی چارہ پوری دنیا کیلئے ایک مثال ہے ۔ اُن کے خاندانوں سے درجنوں مردو خواتین اسلام قبول کر چکے ہیں اور ہم نے اُن کی رائے اور فیصلے کا احترام کیا ہے ۔ اس لئے رینہ کا قبول اسلام بھی کوئی انو کھا واقعہ نہیں ۔ ہم ایک ہی گھر کے لوگ ہیں ، لیکن بعض خودد غرض یا نا سمجھ لوگ ہماری مثالی امن و محبت کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تاہم وہ اپنے سازش میں ہر گز کامیاب نہیں ہوں گے ۔

لڑکی کے والد نے اس موقع پر مطالبہ کیا ۔ کہ آیندہ اگر کوئی کالاش مسلمان ہو نا چاہے  تو وہ عدالت کے سامنے مسلمان ہو تاکہ آیندہ کوئی تنازعہ جنم نہ لے ۔ پریس کانفرنس سے سابق ناظم یوسی بمبوریت عبد المجید قریشی ، کونسلر خلیل الرحمن نے بھی خطاب کی

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ