ہنزہ نیوز اردو

مسلمان باز نہیں آیا

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

مشہور سکالراشفاق احمدکہتے ہیں کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں صرف ایک کافر ہی ہیں جو ہمیں مسلمان کہتے ہیں۔ ہم نے ٹھیکہ جو لے رکھا ہے کہ سب کو کافر بنانے کا۔کوئی اور نہیں صرف مسلمان ہی ایک دوسرے کو بونکتے ہیں اس لئے کتا کہتا ہے کہ کتا میں ہوں اور دیکھو حرکتیں یہ کر رہا ہے۔ کسی بھی جگہ کسی بھی وقت کسی بھی لمحے کو مسلمانوں نے ضائع نہیں کیا ہے اپنی ان غلط حرکتوں کو بروئے کار لانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔ اس لئے مسلمان ہر جگہ زلیل ہو رہا ہے۔
ایک پاکستانی مسلمان کسی بیرون ملک ایک عیسائی کے ہاں گھریلو ملازم ہوا۔ جب مہینہ پورا ہوا تو اس عیسائی نے اس کی مہینے کی تنخواہ اس کے ہاتھ پر رکھ دی۔ اس مسلمان نے کہا کہ بھئی اب میں اس تنخواہ سے کیا کروں گا۔جب کہ میرا کھانا یہاں، بیٹھنا یہاں سب کچھ تو ملتا ہے۔اس لئے اس کو سنبھال کے رکھنا میں جب چھٹی جاؤں گا تو آپ سے لے لوں گا تاکہ میں گھر کے لئے کچھ لے جا سکوں گا۔مگر کچھ مہینے گزرے تھے کہ اس مسلمان نے اس عیسائی سے کہا کہ میری تنخواہ دیجئے اس عیسائی نے اس کی جتنے مہینے بنتے تھے اتنی تنخواہ اس کے ہاتھ میں رکھ دی اور اس نے وصول کیا اور چپ چاپ اپنے کام میں مگن رہا پھر ہر ماہ اپنی تنخواہ وصول کرتا رہا۔ کچھ عرصہ درمیان میں گزرا تھا کہ اس مسلمان نے کہا کہ میری سابقہ مہینوں کی تنخواہ بھی دیدو تاکہ میں اپنے گھر سے ہو کر آجاؤں اس عیسائی نے کہا کہ بھئی وہ تو تم نے اس سے پہلے وصول کیا ہے۔ یہ سن کر مسلمان چپ رہا کچھ نہیں کہا دوسرے دن وہ ان کے پادری کے پاس گیا اور اپنی درخواست اس کے سامنے پیش کی۔ پادری نے کہا تم آرام سے جاؤ پریشان نہ ہوں تیری تنخواہ مل جائے گی۔ وہ واپس آیا دوسرے دن وہ پادری اس عیسائی کے گھر حاضر ہوا اس نے پادری کو دیکھا اور اس کے آداب بجا لایا اور اسے بٹھایا۔ پھر تشریف آوری کی وجہ پوچھی اور کہا کہ مجھے حکم دیا ہوتا میں حاضر ہوتا۔ پادری نے کہا کہ بات ہی ایسی تھی کہ مجھے تیرے پاس آنا پڑا۔ اب مسلمان ہاتھ باندھے سامنے کھڑا ہے اور دونوں کی باتیں سن رہا ہے۔ پادری نے کہا کہ بھئی میں صرف یہ پوچھنے آیا تھا کہ سنا ہے تو مسلمان ہوا ہے۔ تو میرا پوچھنا تھا کہ مسلمان کیوں ہوئے ہو یہ کہتے ہوئے پادری نے اس مسلمان کی طرف دیکھا۔ یہ سننا تھا کہ وہ عیسائی معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا اور اٹھ کر اندرون خانہ گیا اور اس کے سابقہ چھ مہینوں کی جتنی تنخواہ بنتی تھی وہ دوبارہ اٹھا کر لایا ور اس مسلمان کے ہاتھ میں رکھ دیا اور ملازمت سے برخاست کر دیا۔
اتنی تمہید باندھنے کا مطلب یہ تھا کہ کرونا ایک کمیونسٹ ملک سے شروع ہوا نہ وہ مسلمان تھے نہ ہی کوئی اور مذہب کے پیرو کار پھر بڑھتے بڑھتے اس نے پوری دنیا اپنی لپیٹ میں لیا اور اس موزی مرض سے اب تک دنیا میں کم و بیش ڈھائی لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ ایسا ہی اس قسم کی وبائی امراض اس سے پہلے بھی پھیل گئی ہیں اور دنیا میں تباہی مچائی ہے۔ مگر زندگی رے زندگی وہ چلتی رہی ہے کہتے ہیں کہ 1347 ء سے50 کے درمیان تین سال میں یورپ اور افریقہ میں جوؤں اور پسوں کے کاٹنے اور چوہوں کے حملے میں 5کروڑ انسان جان سے گئے یعنی اتنے پسو حملہ آوار ہوئے کہ ان کو راہ نجات نہ ملی اور اموات ہو گئیں۔ اسی طرح 1917 ء اور18 دوسالوں میں لاطینی امریکہ اور گرد ونواح میں انفلانزا نامی وبا سے ڈھائی کروڑ انسان مر گئے۔ مگر انسانی زندگی چلتی رہی۔ اس طرح 1876 ء میں سخت قحط سالی سے چین میں 90لاکھ انسان لقمہ اجل بنے۔ بھارت کے مشرقی صوبے پنجاب میں 1889 ء میں قحط سالی سے9 لاکھ انسان جان بحق ہو گئے پھر اسی طرح ہی یوکرائن میں 1932 ء میں سخت قحط سالی سے 70 لاکھ افراد نے موت کو گلے لگایا۔ 1977 ء میں چیچک کی وبا سے دنیا میں 40 لاکھ سے زیادہ افراد مر گئے۔1551 ء میں انگلینڈ اور دیگر قریبی ممالک میں پسینے کی وبا سے تقریباً35لاکھ انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔1970 ے میں بنگلہ دیش میں آنے والے طوفان سے10لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس طرح ایڈز کی موزی مرض سے1970ء سے اب تک ڈھائی کروڑ انسان موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔1988 ء میں ایتھوپیا میں سخت قحط سالی سے80لاکھ انسان جان سے گئے۔2003 ء میں عراق امریکہ کی جنگ میں کم از کم2لاکھ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔ 2004 ء میں سمندری طوفان سونامی سے انڈیا بنگلہ دیش سری لنکا وغیرہ میں ڈھائی کروڑ انسان جان سے گئے۔ اسی طرح 2005 ء میں شدید زلزلے سے پاکستان کشمیر اور بھارت میں 90لاکھ انسان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان میں کئی سالوں کی دہشت گردی کی وجہ سے 70 ہزارسے زیادہ بے گناہ انسان موت کے منہ میں چلے گئے۔اس کے علاوہ روزانہ مختلف حادثات اور دیگر واقعات میں سینکڑوں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں مگر ذندگی ہے کہ چلتی رہتی ہے۔اب سوچاجائے تو ان پچھلے ادوار میں میڈیکل سائنس میں اتنی ترقی بھی نہیں ہوئی تھی۔ جیسے آج کل ہر چیز آسانی سے مل جاتی ہے۔ مگر اس وقت کے انسان نے ایسے وبائی امراض کا کسی کے سر تھونپنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
دنیا کے مسلمان خصوصاً پاکستان میں تو یہ سب سے خطرناک مرض سب کے اندر موجود ہے اسے کوئی سوچتا ہی نہیں۔ جب یہ مرض چین سے نکل کر ایران پہنچا اور وہاں سے آئے ہوئے زائرین کے ساتھ پاکستان آیا تو کہا گیا کہ وہاں سے زائرین نے اپنے ساتھ لایا اور اس مسلک کی وجہ سے ہوا یہ ان کی کارستانی ہے اب ایک مسلک کو اس میں مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ جب کچھ مدت بعد یہی مرض ایک تبلیغی جماعت کے زریعے علاقے میں پھیل گیا تو اب دوسرے مسلک کے لوگوں کو موقع ملا اور انہوں نے بھی وقت ضائع کئے بغیر الزام لگانا شروع کیا کیوں کہ پہلے دوسرے مسلک نے ان پر الزام لگایا تھا۔ صرف یہی نہیں۔ اس سے بھی مسلمان آگے نکلنے لگے اور ہر اسی لمحے سے دنیاوی فائدہ لینے کے لئے درپے ہیں ایک دم سے دو نمبر دوائی اور دو نمبر ماسک بنانا شروع کیا اور لوگوں میں تقسیم کیا گیا۔ ادھر سے زخیرہ اندوز بھی سامنے آگئے اور اشیاء ضروریہ کو چھپا کر ملک میں قحط کی حالت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب کہ کہاجاتا ہے کہ اٹلی میں لوگوں نے اپنے گھروں سے کھانے پینے کی ایشیا اور نقدی کو باہر لاکر سڑک پر پھیلا دئے کہ جب جان نہیں تو ان جیسی چیزیں ہماری کس کام کی۔
ادھر جب حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ غریبوں کو فی گھرانہ 12ہزار روپے دئے جائیں گے۔ اب تقسیم کار مسلمان ہونے کے ناطے اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان امداد کے پیسوں سے بھی کٹوتی کرکے اپنی جیپ گرم کرنے لگے۔ اور یہ بھی سنا گیا کہ سادہ اور انپڑھ لوگ خصوصاً خواتین کا انگوٹھا لگوانے کے بعد کہا گیا کہ تیرے نام کے پیسے نہیں آئے ہیں بعد میں خبر دی جائے گی اب واپس جائیں یہ کہہ کر ان کو مطمعین کرکے بھیجا گیا اور رقم کود اٹھائی ہے۔ پو؛یس نے بھاری رشوت لیکر دکانوں کو کھولنے کی اجازت دی جس نے ان کی نہیں مانی اس کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔کہیں آنے جانے کی مجبوری ہوئی تو این اہ سیکے نام پرپاس بناکر فیس کی ادائیگی کانام دیکر وہاں بھی پیسے بٹورنے کی کوشش کی گئی۔جو کھانے پینے کی ایشیا ء دی گئیں وہ بھی لوٹ کھسوٹ کرنے کے ساتھ اپنوں کو نوازنے کی کوشش کی گئی۔ معلوم نہیں کہ یہ مسلمان کب باز آئے گا۔ ایک انگریز نے کہا تھا کہ کھانے کے لئے پاکستان جیسا میٹھا ملک کہیں بھی نہیں۔ اسے جتنا بھی کھا لیں وہ ختم ہونے والا نہیں اور وہ مذید مذیدار بنتا جا رہا ہے۔
اگر یہی حالت رہی تو اس سے بھی سخت وبا ان مسلمانوں پر حملہ آوار ہو سکتی ہے۔ اس لئے خود کو اس وبا سے بچانے کے لئے اللہ کے قہر سے ڈرتے ہوئے خود کو سیدھا کرنے اور دوسروں کا بھی راہ راست پر لانے کی تلقین کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین۔

مزید دریافت کریں۔