ہنزہ نیوز اردو

یونائیٹڈ اور جرنلسٹس پینل کا اتحاد صحافیوں کے مستقبل کی امید

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آج سے پندرہ سال قبل بھی جب میری بیٹھک پریس کلب میں کثرت سے ہوا کرتی تھی اور یوجیز کی سرگرمیوں میں بھی متحرک رہتا تھا مسائل و وسائل کا اس وقت بھی ذکر تنقید رہتا تھا سب کی زبان پر یہی شکوہ شکایت رہتی تھی کہ صحافیوں اور انکی فیملی کیلئے آئینِ کلب کی شقوں پر ذرا بھی دھیان اس طرح نہ دیا کہ جس کا حق تھا یوں سمجھئے کہ اپنی اپنی ذات اور مرتبے کی فکر لاحق رہی یہ سلسلہ تاوقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کئی ایسے ثبوت ہیں جن کو اگر پیش کردیا جائے تو سوائے سر جھکانے کے کچھ نہ رہیگا۔ خامیاں اور خوبیاں سب میں ہوتی ہیں مگر ہمیں ہمارے دین اور معاشرتی اخلاق نے یہی سیکھایا ہے کہ باہمی مشاورت اور خندہ پیشانی کیساتھ کیئے جانے والے فیصلے ہی اثر انداز اور سودمند ثابت ہوتے ہیں بلخصوص صحافیوں کے مسلے مسائل خود صحافی ہی اچھی طرح سمجھ سکتا اور سمجھا سکتا ہے۔ غیر صحافی عناصر کی ہدایات یا مداخلت نے ہی مسائل کو مزید پڑوان چڑھایا۔ مسلسل صحافیوں اور ان کے اہلِ خانہ پر درپیش شدید مسائل کو گھیرا تنگ کرلیا کئی صحافیوں انہی مسائل کے سبب بیماریوں کی زد میں آگئے اور کئی نےجان گنوادی۔ آپس کی چپکلش اور اختلافات برائے اختلافات نے صحافیوں کے حالات پر برا تاثر چھوڑا۔ گزرتے حالات کی سنگینی کو بھانتے ہوئے صحافیوں کی فلاح و بہبود کیلئے گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب کے یونائیٹڈ اور جرنلسٹس پینل نے اتحاد کا اعلان کیا۔۔۔۔معزز قارئین!! یونائیٹڈ جرنلسٹس پینل کے نام سے کراچی یریس کلب یعنی کے پی سی الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کے پی سی کو پارٹی پالیٹکس سے پاک کر کے صحافیوں کیلئے فلاحی ادارہ بنانے کا عزم کیا۔کراچی پریس کلب کے انتخابات سنہ دو ہزار اکیس بائیس میں ہم خیال ارکان نے یونائٹیڈ جرنلسٹس پینل کے نام سے الیکشن میں حصہ لینے حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ کراچی پریس کلب کے سینئر ارکان کے ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں کراچی پریس کلب کی موجودہ حالت اور ارکان کے دیرینہ مسائل کے حل میں بے پناہ تاخیر پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں گذشتہ کئی سالوں سے یونائیٹیڈ پینل کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لینے والے سینئر ارکان اور جرنلسٹ پینل کے سینئر ارکان نے شرکت کی اور طے کیا کہ کراچی پریس کلب کو “اسٹیٹس کو” سے نکالنے کیلئے ایک مشترکہ پینل سے الیکشن میں حصہ لیا جائے جسے یونائٹیڈ جرنلسٹس پینل کا نام دیا گیا ہے۔ اجلاس میں کراچی پریس کلب پر گذشتہ کئی سالوں سے برسرِ اقتدار افراد کے مکمل احتساب کا فیصلہ کیا گیا جن کی بدترین کارکردگی کی وجہ سے کراچی پریس کلب کا نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر تشخص خراب ہوا ہے۔ کراچی پریس کلب کی مختلف مدوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن، جملہ ارکان کیلئے آنے والی مراعات جس میں کووڈ کے دوران لاکھوں روپے کا ایجوکیشن فنڈ اور ہیلتھ کارڈ شامل ہیں کو من پسند ارکان میں تقسیم کیا گیا۔ ان مراعات سے کلب کے عام ممبرز کو بے خبر رکھا گیا اور ان کے نام پر لی جانے مراعات کو ان سے چھپایا گیا۔ کلب کے عہدیداروں کی جانب سے اختیارات کے نا جائز استعمال ممبرز کے مفاد کی آڑ میں کلب امریکہ معاہدے سے صرف عہدیداران کا مستفید ہونا اقربا پروری گرانٹس اور فنڈ کی بندر بانٹ اور غیر اخلاقی واقعات نے کلب کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جبکہ کلب ارکان کے پلاٹس کے معاملات بھی تاحال حل طلب ہیں کلب پر برسرِ اقتدار افراد ایک طرف ہاکس بے میں ملنے والے پلاٹس کی لیز کا مسئلہ حل کرنے میں نا کام ہیں تو دوسری طرف بلاک ٹو کے متاثرین کو بھی آئے روز نئے لالی پاپ دیئے جارہےہیں۔
اجلاس میں اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ کلب انتظامیہ بلاک ٹو کے متاثرین کیلئے بلاک اڑسٹھ میں متبادل جگہ کے حصول میں اب تک نا کام رہی ہے اور اب ایک ایسے بلاک اکیاون میں متبادل جگہ لینے پر آمادگی ظاہر کی جارہی ہے جو بہت زیادہ دور اور انڈر ڈیویلپمنٹ ایریا ہے۔
اجلاس میں ایم ڈی اے میں ملنے والے پلاٹس کی قیمتوں کے تعین میں کلب انتظامیہ کی کوتاہی پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا جس کے نتیجے میں دو سو گز کے پلاٹ کے مالک کو ہاکس بے میں چار سو گز کے پلاٹ کے مالک کے تقریباً برابر رقم ادا کرنا پڑرہی ہے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ کلب سے متعلق ان تمام معاملات پر وائٹ پیپر جاری کیا جائے گا۔
یونائٹیڈ جرنلسٹس پینل اس بات پر متفق ہے کہ کراچی پریس کلب کو ہر طرح کی پارٹی پالیٹکس سے پاک اور صرف صحافیوں کیلئے کام کرنے والا ایک فلاحی ادارہ ہونا چاہئیے۔ یونائٹیڈ جرنلسٹس پینل نے کراچی پریس کلب کے تمام اراکین سے درخواست کی ہے کہ وہ کلب میں ایک صاف ستھرے ماحول کے حصول کیلئے پہلے مرحلے میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کیلئے اپنے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنائیں اور پھر اگلے مرحلے میں یونائیٹیڈ جرنلسٹس پینل کو ووٹ دے کر کامیاب کریں تا کہ کلب کو قابض افراد سے واگزار کروا کے اسے واپس عامل صحافیوں کا فلاحی ادارہ بنایا جاسکے۔۔۔۔۔ معزز قارئین!! اس میں کوئی دو راہ نہیں کہ بیروزگار صحافیوں کیلئے نہ تو یوجیز کی جانب سے اور نہ ہی کلب کی سمت سے اس بابت عدل و انصاف کے اداروں کے دروازے کو دستک دی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سابقہ و موجودہ عہدیداران اس بابت سخت سرگنشت کرتے بلکہ مجرمانہ خاموشی اختیار کرکے میڈیا مالکان کا حوصلہ بڑھایا مجھے تو کئی صحافیوں نے یہ بھی بتایا کہ افسران کی خوشی اور اپنے منصب کے تحفظ کیلئے متاثرین کیلئے صرف سیاسی بیان اور خطاب پر مکمل کیا جبکہ اس بابت ٹھوس اقدامات کی ضرورت تھی ایک نے یہ بھی بتایا کہ صحافیوں کا معاشی قاتل کو ایک سے زائد ذمہداروں نے دعوت طعام دی اور اسے اچھے القابات سے نوازا گیا کہنے کو تو اس افسر کا قد چھوٹا اور سر گنجا ہے مگر ذہن بڑا دجالی ہے یہ تو ایک ثبوت ہے جو میری ذات سے منسلک ہے ممکن ہے ایسے اور بھی ہوں یہ سابق منتخب ذمہدار عہدیداراپنی ذات اور ہستی سے باہر آتے تو کچھ اوروں کیلئے کرتے معزز قارئین۔۔!! بات یہاں ختم نہیں ہوتی آپ جانتے ہیں کہ صوبائی و وفاق حکومتیں سالانہ بنیاد پر صحافیوں اور انکی اہلِ خانہ کیلئے کروڑوں روپے کی مد میں گرانٹس جاری کرتی چلی آرہی ہیں یہی نہیں بلکہ صنعت و تجارت کے مالکان بھی گاہے بگاہے اپنا مثبت کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں انکے ساتھ ساتھ این جی اوز بھی موثر کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں گوکہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی اچھا مفید عمل ملتا رہا ہے الحمدللہ صحافیوں اور انکے اہلِ خانہ کیلئے ہر جانب سے نرم گوشہ ملتا ہے مگر ہمارے منتخب شدہ عہدیداران کی یقینی طور پر سست روی کہہ لیجئے یا خودسری کہ بھاری گرانٹس و وسائل کے باوجود بہتر نتائخ اخذ نہیں کرپارہے یہ بتائیں کہ بلخصوص متاثرینِ صحافیوں اور موجودہ صحافیوں کیلئے کیا موثر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ عمارات چاٹی نہیں جاتی تعمیرات کیلئے بچوں کی بہتر تعلیم بنائی جاتی ہے جو اب ناممکن بن گئی ہے بیروزگار صحافیوں کیلئے۔ کیفے میں ڈش بڑھانے سے ذائقہ میں اضافہ ممکن نہیں ذائقہ کیلئے صحافیوں کی صحت کی جانب اقدامات ضروری ہیں۔ بڑے بڑے چینلز انشورنس ہیلتھ کارڈ فراہم کررہے ہیں ملازمین کو جس میں لاکھوں رقم کی سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ میں اپنے سابقہ ادارے سے ان کارڈ کے ذریعے آپریشن کراچکا ہوں بڑا مفید اور مستند کارڈ ہوتا ہے۔ایسے ہیلتھ کارڈ کراچی پریس کلب اپنے ملازمین کو فراہم کرے اور کم تنخواہ دار و بیروزگار صحافیوں کےبچوں کی تعلیم کیلئے ایجوکیشن فنڈ فوری اور ہنگامی بنیادوں پر قائم کردینا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ یاد دلاتا چلوں کہ گزشتہ ماہ کے اوائل میں وزیرِ بلدیات اور وزیراعلیٰ سندھ کا کراچی پریس کلب آنا ہوا وزیر بلدیات نے میڈیا رپورٹرز کو بآور کرایا تھا کہ فوری درخواست پیش کردیں نئے ممبران کے پلاٹس کی حصولی کے لیئے تاکہ محکمہ بلدیات سمری بناکر وزیراعلیٰ سندھ کو روانہ کرسکیں تا حال عہدیداران کی جانب سے اس بابت وضاحت سامنے نہیں آئی۔ میرا موقف ہے کہ سچ و حق عدل و انصاف کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے مگر افسوس ہم صحافی اپنے لیئے اپنے عہدیداران سے سچ و حق عدل و انصاف لینے سے محروم رہے یقیناً بہتے پانی سے وضو ٹھہرے پانی سے بہتر ہے

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ