میر غضنفر علی خان کے گورنر بننے کے بعد خالی ہونے والی نشست، حلقہ جی بی ایل اے 06 ہنزہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات دلچسپی کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میر غضنفر علی کے گورنر بننے کے بعد خالی ہونے والی نشست کے ضمنی انتخابات میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کی خواہشات کے بر عکس پارٹی ٹکٹ میر غضنفر علی خان کے بیٹے پرنس سلیم خان کو دے دیا ہے۔ پرنس سلیم خان کی جیت کی صورت میں نہ صرف میر کے گھر کوتین اہم عہدے جاتے ہیں بلکہ مستقبل میں جی بی کی صوبائی حکومت میں کسی بڑی تبدیلی کا خدیشہ بھی پیدا ہوسکتاہے کیونکہ صوبائی حکومت اور مسلم لیگ ن گلگت بلتستان کی ہزار جتن کے با وجود اپنے لاہورسے قریبی تعلق کی بنیاد پر اگر میر غضنفر علی خان گورنر بن سکتا ہے ، اپنی بیگم کو صوبائی اسمبلی کی نشست اور بیٹے کو ضمنی انتخابات میں ٹکٹ دلا سکتا ہے تو مستقبل میں یہ خاندان تخت لاہور کی مددسے ا ور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے ۔
ایسی صورت حال میں اصل دلچسپی کا سوال یہ ہے کہ ہنزہ کا الیکشن کون جیتے گا؟اس الیکشن کے لئے ابتداء میں کل ۲۷ امیدوار میدان میں اترے تھے۔ جن میں سے جانچ پڑتال کے بعد اب آٹھ امید وار میدان میں رہ گئے ہیں جن کے درمیان آخری مقابلہ ہوگا۔
ہم ہنزہ کے کسی بھی سیاسی مسلے پر تجزیہ کرنے سے قبل اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک شیناکی ہنزہ، ایک سینٹر ہنزہ اور ایک اپر ہنزہ یعنی وادی گوجال۔ کیونکہ تینوں ایریاز کی اپنی الگ الگ dynamics political ہیں۔ جن آٹھ امیدوار وں نے اب اس الیکشن میں حصہ لینا ہے ان میں سے ایک کا تعلق شیناکی ہنزہ، ایک کا وادی گوجال اور باقی سب کا تعلق سینٹر ہنزہ سے ہے۔ ہنزہ کا مجموعی ووٹ 36424 ہے جس میں سے 18937 مرداور17470خواتین ہیں۔ ہر دفعہ مجموعی طور پر 50 سے55 فیصد ووٹ کاسٹ ہوجاتا ہے۔اس میں زیادہ ووٹ سینٹر ہنزہ کا کاسٹ ہوجاتا ہے ۔ماضی میں صورتحال یہ رہی ہے کہ سینٹر ہنزہ سے جس امیدوار نے زیادہ ووٹ لینے کے ساتھ گوجال اور شیناکی سے تھوڑا بہت ووٹ لیا اس نے الیکشن جیتا ہے۔اب کی بار سنٹر کا ووٹ چھ بڑے حصوں میں تقسیم ہوگا۔یعنی سینٹرہنزہ کا ووٹ مسلم لیگ ن کے امیدوارپرنس سلیم خان،آزاد امیدوارکرنل عبیداللہ بیگ ،پی پی پی کا امیدوار وزیر بیگ ، مسلم لیگ سے بغاوت کے بعد آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے والے امیدوار امین شیر، آزاد امیدوار نیک نام کریم اور عام آدمی پارٹی کا امیدوار دینار خان کے درمیان تقسیم ہوگا۔ ایسی صورتحال میں حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس دفعہ الیکشن کون جیتے گا؟ جو بھی جیتے گا وہ باقی امیدواروں کی نسبت بہت ہی کم ووٹ کے فرق سے جیتے گا۔
مگر ایک صورت میں یہ الیکشن بڑے دلچسپ موڈ میں داخل ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سارا گوجال اور شینا کی ہنزہ اپنی سیاسی محرومیوں کے پیش نظر متحد ہوجائیں۔ کیونکہ ان دونوں ایریاز کے لوگ کہتے ہیں کہ سینٹر کا ووٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سینٹر کا امیدوار جیت جاتا ہے ۔ ہمیں گذشتہ ساٹھ سالوں میں نمائندگی کا موقع نہیں ملا ہے۔یہ محرومی شیناکی میں کم نظر آتی ہے گوجال میں زیادہ نظر آتی ہے جس کا وہ اکثر فورمز میں اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گوجال کے لوگ ہنزہ کے لئے قانون ساز اسمبلی میں اضافی نشست پر زور دیتے رہے ہیں۔مگر اس وقت گوجال سے تحریک انصاف کا امیدوار عزیز احمد اور شیناکی ہنزہ سے عوامی ورکرز پارٹی کے باباجان میں ذہنی ہم آہنگی ہونے کے باوجود ان دونوں کا ایک دوسرے کے حق میں دستبردار ہونے کا کو ئی چانس نہیں ہے۔ اس لئے یہ خیا ل درست نہیں ہے کہ گوجال اور شیناکی ہنزہ کسی ایک امیدوار کے حق میں متحد ہونگے۔ چنانچہ اب گوجال کا امیدوار گوجال میں اور شیناکی کا امیدوار شیناکی میں ہی زیادہ بااثر ہوگا۔ یہ دونوں امیدوارا اس لحاظ سے فائدے میں ہیں کیونکہ ان کو اب سینٹر سے خطرہ ماضی کی نسبت کم ہے ۔ ان میں سے جو امید وار اپنے ایریا سے زیادہ ووٹ لینے کے بعد باقی ایریاز سے تھوڑا بہت ووٹ لے گا وہ آسانی سے کامیا ب ہوسکتا ہے۔شیناکی ہنزہ میں سیاسی محرومی کم نظر آتی ہے اس لئے یہاں سے باباجان ووٹ زیادہ ضرور لے گا مگر باقی امیدوار بھی تھوڑا بہت ووٹ لیں گے۔ اسی طرح باباجان شیناکی کے علاوہ ، سینٹراور اپر ہنزہ سے بھی ووٹ لے گا۔ مگر شیناکی ہنزہ کا کسی ایک امیدوار کے حق میں متحد ہونے کے کوئی آثار دور دور تک بھی نظر نہیں آتے ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سابق ایم ڈی نیٹکو ظفر اقبال کی طرف سے بابا جان کی نااہلی کے لئے عدالت میں جو اپیل دائر کی گئی ہے اس کا فیصلہ بابا جان کے خلاف آنے کی صورت میں باقی امیدواروں کے لئے راستہ صاف ہوگا اور باباجان کے ووٹرز میں سے کچھ گھروں میں بیٹھے رہیں گے اور کچھ پی ٹی آئی کی طرف جائیں گے اور باقی دیگر امیدواروں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ مگر اس کا فیصلہ 25 مئی کوہوگا کہ باباجان گرؤانڈ میں ہوتے ہیں یا نہیں کیونکہ اُس دن اُس اپیل کی آخری سماعت ہے جس میں باباجان کو نااہل قراردینے کی درخواست کی گئی ہے۔باباجان الیکشن کے گرؤنڈ میں رہیں یا نہ رہیں ان کی ہنزہ کی سیاست میں اثر کو کم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یوتھ کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ سیاسی محرومی کا اظہارگوجال کی طرف سے زیادہ ہوتا رہا ہے ۔سانحہ عطا آباد کے بعد اہل گوجال کی طرف سے اس محرومی کا بڑھ چڑھ کر اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اس سانحے کی وجہ سے ان کو پانچ سالوں تک بڑے تکلیفات کا سامنا رہا جس کا ازالہ کرنے کی بجائے سیاسی نمائندے ان سے منہ موڈ تے رہے۔ ان کو سخت موسمی حالات میں چوبیس کلومیٹر طویل جھیل کے اُس پار قدرت کے رحم وکرم پر چھوڑا گیا۔ جہاں ان کو اپنی زندگی کے ایام گزارنے اور نقل وحمل کے لئے سخت ترین مشکلات کا سامنا رہا۔اگر حکومت چین ان کی بر وقت مدد نہیں کرتی تو وہاں فاقوں کی نوبت آجاتی ۔گوجال کے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ علاقہ دور افتادہ ہونے کے علاوہ یہاں کی الگ زبان ، الگ کلچر اور تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہمیشہ نظر انداز کئے جاتے رہے ہیں۔یعنی ماضی میں ان کو ہنزہ کے سیاسی منظر نامے میں اہمیت کم ملتی رہی ہے ۔
مگر گوجال کے لوگوں کے ساتھ اصل مسلہ یہ ہے کہ وہ سیاسی تاریخ میں کبھی متحد نہیں ہو سکے ہیں۔ وہ ایک طرف اپنی محرومی کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف سیاسی اتحاد کا فقدان ہونے کی وجہ سے ان کا ووٹ سینٹر ہنزہ کے امیدوار کو جتانے میں ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔گذشتہ انتخابا ت میں پی پی پی کا امید وار ظفر اقبال نے گوجال کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام ہوئے۔ اس دفعہ تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ گوجال متحد ہو جائے اور ان کے امیدوار عزیز احمد کو ووٹ دیکر کامیاب کرائیں،کیونکہ تحریک انصاف کے علاوہ کسی جماعت نے گوجال کو ٹکٹ نہیں دیا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ گوجال کے لوگ زرا سی عقلمندی سے کام لیں تو وہ اپنے مجموعی ووٹ کا ایک بڑاحصہ کسی ایک امید وار کے حق میں ڈال کر اس کو جیتا نے کے بعد اپنے مطالبا ت منواسکتے ہیں۔ جس سے ان کی سیاسی محرومی کا ازالہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کو اضافی نشست کے مطالبے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔کیونکہ وہ اضافی نشست کامطالبہ کرتے ہی اس لئے ہیں تاکہ گوجال سے بھی کسی کو نمائندگی کا حق ملے۔ یہی صورتحا ل گذشتہ انتخابا ت میں ضلع غذر میں پیش آئی تھی جہاں حلقہ 1 غذر میں اشکومن کے عوام نے اپنی محرومی کی وجہ سے اتحاد کیا تھا اور حلقہ 2غذر میں گوپس کے لوگوں نے بھی ایک امیدوار کے لئے اتحاد کیا تھا۔ کیونکہ دونوں حلقو ں میں پونیا ل کا ووٹ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ پونیا ل کا امیدوار کامیا ب ہوجا تاتھا۔ اس سیاسی سمجھ داری کی وجہ سے گوپس سے فداخان نے الیکشن جیت لیا کیونکہ پونیا ل سے زیا دہ امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوا تھا۔ اشکومن میں بھی زبردست اتحادکا مظاہر ہ کیا گیاتھا مگر بہت کم فرق سے وہاں کا امیدوار ظفر شادم خیل ،نواز خان ناجی کے مقابلے میں ہا ر گیا۔یہی صورتحال ہنزہ گوجال میں بھی پیدا ہوسکتی ہے۔ جس کے لئے سیاسی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سیاسی سمجھدار ی کا موقع ہر روز نہیں ملتا ہے ۔ ایسے مواقعے ہر الیکشن کے بعد دوسرے الیکشن میں ملتے ہیں۔مگر ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ گوجال کبھی متحد نہیں ہوگا ۔
گوجال کے متحد نہ ہونے کی صورت میں یہاں کا ووٹ بھی سینٹر ہنزہ اور شیناکی ہنزہ کی طرح تقسیم ہوگا ۔ جس کے نتیجے میں مذکورہ آٹھ امیدواروں میں سے و ہ امیدوار جیتے گا جو اپنے ہو م سٹیشن سے زیادہ ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ باقی ہر ایریا زسے بھی تھوڑا تھوڑا ووٹ جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔اب تک کی صورتحال کے مطابق خیال یہ ہے کہ کرنل عبیداللہ بیگ، باباجان ،عزیز احمد اور وزیر بیگ میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔مگر آخری وقت میں کوئی بھی ڈرامائی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ امیدواروں کے علاوہ کوئی پانچواں امیدوار بھی جیت سکتا ہے۔جس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔انتظا رکیجئے گا دن بہت کم رہ گئے ہیں28 مئی کی شام کو لگ پتہ جائے گا۔
ختم شد
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ