ہنزہ نیوز اردو

ہم انتہاؤں میں الجھ گئے ہیں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ہم انتہاؤں میں الجھ گئے ہیں

ثناء غوری
شور ہر طرف سنائی دے رہا ہے کہیں آزادی کے حق میں نعرے لگائے جارہے ہیں کہیں آزادی پر قدغن لگانے کی بات ہو رہی ہے۔
سیکولرازم کو معاشرے اور ریاست کی سطح پر نافذ کرنے کے لیے لبرل ازم کے راستے کو اپنایا جاتا ہے۔ لبرل ازم میں شخصی آزادی کا پہلو سب سے زیادہ نمایاں ہے ۔ یہاں مذہب کے پیروکار یہ تصور کرتے ہیں (ہوشیار! مذہب سے مراد فقط مذہبِ اسلام نہیں ہے تمام مذاہب کی بات کی جارہی ہے، جن میں عیسائیت ہندوازم، بت مت، یہودیت سب شامل ہیں) کہ شخصی آزادی انسان کا انسانیت کی سطح سے گر کر جانور بن جانا ہے کہ شاید انسان لباس سے ناآشنا برہنہ ہمیں اپنے اطراف میں نظر آنے لگے۔ یہ تصور غلط ہے نظریہ کوئی بھی ہو انسان کے لیے اور اس کی فلاح کے لیے ہوتا ہے نہ کہ انسانیت کو تباہ کرنے کے لیے۔ دوسری طرف لبرل خاص طور میں پاکستان میں بسنے والے لبرل یہ تصور کرتے ہیں کہ سیکولرازم کا راستہ اسی صورت اختیار کیا جا سکتا ہے جب عورت کو آزاد ی دے دی جائے۔ یہ لوگ سینہ تان کر اور منہ پھاڑ کر عورت پر ہونے والے کسی بھی ظلم کو جو کہ ہمارے معاشرے کی گھٹن اور نفسیات کے نتیجے میں رونما ہوتا ہے، اسلام کی کم زوری گردانتے ہوئے لفظوں کے تیر برساتے ہیں۔ اسلام کو برا کہہ نہیں سکتے تو مولوی کو نشانہ بنا کر اپنی ساری بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
کسی کی ذاتی رائے اور حرکات کا نظریات سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسلامی نظریاتی ریاست ہو یا سیکولر ریاست ہو انتہاپسندی کہیں بھی قابلِ قبول نہیں۔ حافظ بننے کی غرض سے مدرسے جانے والے بچوں کو جاہل ہونے کا لقب دینا یا کوُایجوکیشن میں تعلیم حاصل کرنے والے کو بے حیا قرار دے دینا، ہمارے ہاں ایک عام سی بات ہے۔ داڑھی رکھنے والے کو ملا کا خطاب دے کر طنز کے تیر برسانا جب کہ بڑے بال رکھنے والے مردوں کو زنانہ کہنا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ برقعہ پہنے والی عورت ایک کی نظر میں جنتی اور دوسرے کی نظر میں جاہل ہوتی ہے، جب کہ بنا دوپٹے کی عورت ایک طبقہ کے لیے قابل احترام اور دوسرے کے لیے گندے لفظوں کی حق دار ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ میں یا آپ کون ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کریں کہ کون کیا ہے اور کیا کرسکتا ہے۔ اس معاملے میں ہم تمام حدود پار کرچکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ معاشرے کو بنانے والے صحت مند دماغ خود ہی شدید کنفیوژن کا شکار ہیں۔
لبرل ہونے کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ انسان حیوانیت کے راستے پر چل نکلے اور مذہب کا ساتھ دینے کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ کسی ایک صنف کے حقوق کو پامال کرنا ہم اپنا حق اور فرض تصور کریں کہ ہمیں خدا کی طرف سے جنت کی نوید اب ملی کہ تب ہوئی۔ ہم دو انتہاؤں میں الجھ رہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ جس تنزلی کا شکار ہے اس کی ایک وجہ ان اخلاقی شعار کا معاشرہ سے ناپید ہوجانا ہے جو مد مقابل کا احترام سکھاتے ہیں۔ مختلف نظریے سے تعلق رکھنے والے شخص کی رائے کو مکمل سیلف کنٹرول کے ساتھ سننا اور پھر علمی بنیادوں پر بحث کو کسی منطقی انجام تک پہنچانا ایک صحت مند معاشرے کی پہچان ہے۔ ہم بحث برائے بحث کے اصول کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اپنی سوچ کو خود ہی اپنی انا اور ذاتی رجحانات کی بنا پر کچل رہے ہیں۔ لمحہ بھر کے لیے سوچا جائے تو جو ماحول اس وقت ہمیں اپنے اردگرد نظر آرہا ہے اور جس ماحول کو بنانے کے، میں اور آپ سب ہی ذمے دار ہیں اور اس کے مزید بگاڑ میں اپنا اپنا حصہ شب و روز ادا کررہے ہیں، اس ماحول میں کیا ہم تصور کرسکتے ہیں کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جب ہم دن رات اذیت کا شکار ہیں تو آنے والی نسلوں کا کیا ہوگا۔ ہم خود ہی اس سارے ماحول کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔
اسلام کے خلاف نعرے لگانا کسی کے لبرل ہونے کی دلیل نہیں۔ یہ ایک غلط سوچ ہے کہ اسلام نے عورت کو آزادی نہیں دی۔ دراصل ہم دو انتہاؤں میں گھر چکے ہیں۔ اسلام نے عورت کو ہر طرح سے آزادی دی ہے۔ اسے اپنے طور سے زندگی کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا ہے۔ حضرت بی بی خدیجہؓ تجارت کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ آج کی لغت کو استعمال کرکے کہا جائے تو وہ ایک بزنس وومن تھیں۔ حضرت عائشہؓ اپنے اونٹ کی خود سواری کرتی تھیں اور لوگوں کی راہ نمائی کرتی تھیں۔ آپؓ نہایت اعلیٰ ذہن کی مالک تھیں طب کے شعبے میں آپ کو مہارت حاصل تھی۔ نبی کریم ﷺ کی کتنی ہی احادیث آپ سے روایت ہیں، کیوں کہ نہایت ذہن تھیں لہٰذا آپ کو واقعات اور حضورؐ کے کہے ہوئے الفاظ لفط بہ لفظ یاد تھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی صحابیاتؓ کا ذکر ہے جنھوں نے اسلام کے پرچم تلے ہی اپنے آپ کو منوایا۔ اور ہاں، یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ میں عورت پر بات کیوں کر رہی ہوں۔ دراصل ہم نظریات پر کم اور عورت پر زیادہ بحث کرتے ہیں۔ تو یہ بتانا ضروری تھا کہ اسلام میں عورت کیا ہے۔ اس موضوع پر طویل مضمون مستقبل میں آپ کے سامنے ضرور لاؤں گی، لیکن اس وقت اس موضوع پر چیدہ چیدہ نکات کو زیرِبحث لانے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے ہاں لبرل ہونا ایک فیشن بن گیا ہے۔ اسلام کو بر ا کہو اور خود ہر اخلاقی قدر کو پیچھے چھوڑ اور دھکیل کر لبرل ہونے کی ڈگڈگی بچاتے رہو۔ حد ہوگئی صاحب! یہ لبرل ہے کس بلا کا نام کبھی سوچا بھی ہے ہم نے۔
ایک دوسرے کو نازیبا کلمات سے نوازنا اور چھوٹی سی بات پر پھٹ پڑنا ہمارا مزاج بن گیا ہے۔لبرل ازم شخصی آزادی دیتا ہے، تو اسلام دین فطرت ہے اور خدا نے اپنے دین میں بے پناہ آسانیاں رکھی ہیں۔ وقت پڑنے پر تو سور بھی حلال ہوجاتا ہے اور مُردار کا گوشت بھی۔ تو اسلام کے پیچھے ہاتھ دھو کر بلکہ نہا دھوکر پڑنے کی کیا تُک ہے۔ یہاں وہاں کے مفروضے پیش کرنے سے بہتر ہے کہ دوسرے نظریات کے لوگوں کی باتوں کو غور سے سنیے اور بحث کو کسی منطقی انجام تک پہنچائیے۔
جہاں لبرل ازم، سیکولر ازم اور اسلام کی بات ہورہی ہے وہاں اقلیتوں کے حوالے سے بات کرنا بھی نہایت ضروری ہے، کیوں کہ پچھلے چند دنو ں سے اس بات کو بھی حد سے زیادہ ایشو بنایا جا رہا ہے کہ چوں کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے تو یہاں اقلیتوں کے حوالے سے تحفظ فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ ہم کس بات کا رونا رو رہے ہیں، انڈیا، برما، چین اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن ان ممالک میں اقلیتوں کے حالات پر لبرل طبقہ ہمیشہ خاموش رہا۔ پاکستان میں اقلیتوں کے لیے حالات تسلی بخش نہیں تو ایسا بھی نہیں ہے کہ بہت بری صورت حال ہو۔ پاکستان میں تو اکثریت بھی خوف کا شکار ہے تو اقلیت کو لے کر اتنا واویلا کیوں؟ ہم تو خطے میں سیاسی نفسیاتی جنگ کا شکار ہیں۔ لہٰذا لبرل حضرات کا یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ پاکستان میں حالات
اقلیتوں کے لیے انتہائی ناسازگار ہیں۔
کتنے ہی ایسے ترقی یافتہ ممالک ہیں جہاں حجاب کو برا تصور کیا جاتا ہے، بلکہ کچھ ممالک نے تو اس بات پر پابندی بھی عاید کررکھی ہے کہ حجاب مخصوص مقامات پر نہیں پہنا جا سکتا۔ تو بتائیے صاحب کہ یہ کون سی آزادی ہے۔ لباس قطعی طور پر انسان کا ذاتی حق ہے۔ ایسے معاملات پر لبرلز کیوں خاموش ہوجاتے ہیں؟ جب کہ وہ ریاستیں سیکولر ریاستیں ہیں جہاں حجاب کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس کالم کو تحریر کرنے کا سبب کچھ حالیہ واقعات بنے ہیں، جن میں قومی اسمبلی میں ایک خاتون رکن کو برے نام سے پکارنا، میڈیا پر دو اوپنین لیڈرز مرد اور خاتون کا انسانیت کی سطح سے گر کر لفظوں کا استعمال کرنا، میڈیا پر دکھائے جانے والے انٹرٹینمنٹ کے پروگرامز کو مذہب کا نام دے کر پیش کرنا اور مخصوص اقلیت کے حوالے سے ایک نئی بحث کو منظرعام پر لانا شامل ہیں۔ یہ سب عام فرد کی سوچ کو کس طرف لے جارہا ہے۔ اس اندیشے کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سب کسی خاص مقصد کے تحت کیا جا رہا ہے، تاکہ فرد ان باتوں پر بحث کرنے سے نہ کترائے جن پر آج تک بحث نہیں جاسکی اور اپنی مرضی کے نتائج برآمد کیے جائیں۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ