تحریر۔عمران اللہ مشعل۔
جیو نیوز کے اینکر پرسن سہیل وڑائچ صاحب کا پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ آج یوٹیوب پے دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ سندہ کے ایک صحرہ میں عرب سے آئے ہوئے وزرا شہزادوں اور دیگر مہمانوں کی انٹریو کر رہا تھا اور ساتھ میں انکے طعام وقیام سے لیکر تلور کے شکار تک کے تمام مراحل بھی اپنے خوبصورت انداز کلام کے ساتھ کے کیمرے کی آنکھ سے عکس بندی کرکے دیکھایا۔ پورا پروگرام تفصیل سے سنا جس سے بہت ساری بدگمانیاں اور غلط فہمیاں دور ہوگئ۔یہ پروگرام سننے سے پہلے بہت سارے ایسی منفی باتیں سنی تھی جس کا تزکرہ دوران انٹریو بھی ہوا تاہم مزکورہ وزیر نے انتہائ اطمینان بخش جواب دیا۔اس سارے پروگرام میں جو چیزیں دیکھیں جو میرے لیے دلچپسی کا باعث بنی وہ بتاتا چلوں کہ وہاں صحرا میں ایک پوری بستی آباد تھی تقریبا 1 ہزار کے قریب لوگ تھے بستی ایسی تھی جیسا کہ کوئ صدارتی محل ہو ہر چیز سبزی پھل گوشت اور اشیائے خوردنوش سے لیکر ضروریات زندگی کی ہر چیز موجود تھی اور انتظام اتنا زبردست کہ عقل دھنگ رہ جائے۔انتہائ سادگی دیکھنے میں آئ لوگ زمین پے مٹی پے بیٹھ کر دوران شکار کھانا خود بنا رہے تھے جب واپس خیمہ بستی پہنچے تو وہاں بھی اجمتاعی دسترخوان تھا جس میں 200 اقسام کے کھانے موجود تھے پھر چائے کے مختلف اقسام غرض کے ہر چیز تیار تھی انتہائ زبردست نظم و ضبط کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔دوران انٹریو انہوں نے بتایا کہ ہم پاکستان کی خوشحالی میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہے سیاست پاکستان کا اندرونی مسلہ ہے اسلئے ہمارا سیاست سے لینا دینا نہیں ہے تمام سیاست دانوں سے اچھے تعلقات ہے مرحومہ بےنظیر سے تعلق 1976 اور 1977 کے دوران جب وہ آکسفوڑد سے ماسٹر ڈگری کر رہی تھی اسی وقت میں انڈرگریجویٹ تھا اس وقت سے تعلقات تھا۔پاکستان میں اپنا وسیع کاروبار بھی ہے لیکن تعلق کو کبھی کاروبار اور سیاست میں استعمال نہیں کیا۔
اس پورے انٹریوں کے دوران دو سوال بہت دلچسپ تھے
”ایک کیا امت مسلمہ ایک ہوسکتی ہے“؟ اور دوسرا انکی مطالعے کے حوالے سے تھا۔
پہلے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کے مسلم امہ کو ایک کرنے کے لیے سب سے پہلا اپنا ملک کو بہتر کرنا چاہیے جب ہم خود ٹھیک ہونگے تو پھر دوسروں کی بات کرسکتے ہے۔
دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مطالعہ بہت زیادہ ہے خاص کر کچھ کتابوں کا نام بھی بتایا جن میں
Clash of civilization
The Road lees Traveled
Power shift
وغیرہ یہ کتابیں زیادہ پڑھی ہے اور ان سے کافی کچھ دنیا اور سیاست کے حوالے سے سیکھنے کو ملا ہے۔یہ دونوں سوال میرے لیے دلچسپ اسلئے تھے کہ ایک ہم ہے جو اپنے ملک کا نہیں سوچتے ہے اور دنیا کو فتح کرنے کا کہتے ہے پہلے ہم خود اپنی درست سمت کا طعین کریں پھر ہم اسلامی دنیا کی قیادت اور مغرب کو فتح کرنے کا سوچئے۔دوسرا یہ کہ ہمارا مطالعہ بہت کم ہے سنی سنائ باتوں پر یقین کرکے بد گمانی کرتے ہے اور ہمارے سیاست دان بھی ایسے ہے جنکا تعلق جعلی اکاؤنئٹس آف شور کمپنیوں اور غیر قانونی جائیدادوں سے تو ہوتا ہے لیکن مطالعے سے کوسوں دور ہوتے ہے۔
پورے انٹریوں سے یہ بات سمجھ آئ ہے کہ ہم اپنے سرزمین کی بہت بے قدری کر رہے ہے ہمارے پاس ایسے صحرا اور سیاحتی مقام ہے جس پر تھوڑا سا کام کیا جائے تو پوری دنیا کو اپنی طرف راغب کر سکتے ہے اور اپنی آمدن میں اضافہ بھی کرسکتے ہے۔یہی وہ صحرہ ہے جہاں ہم خوشی سے نہیں جاتے ہے لیکن باہر سے لوگ آکر اس بیابان صحراؤں کو چار چاند لگا رہے اور کڑورں ڈالر کا معیشت میں اضافہ بھی کرکے بھی جا رہے ہے۔
ہمیں چاہیے کہ سنی سنائ باتوں پے بد گمان ہونے کی بجائے اپنے ملک کی ایک بہترین امیج پیش کریں اپنے قدرتی وسائل کے قدر کریں اور انکی حفاظت کریں تاکہ یہ ہماری معشیت کا حصہ بن جائے اور علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کریں۔
|
|
|