میں پاکستان کی سرحد پر کھڑا تھا۔ ارد گرد ویرانی تھی، دور تک خاموشی تھی، اور آسمان سے برف گر رہی تھی۔ نومبر کے دوسرے ہفتے کا آغاز تھا۔ ایسا سفید دن تھا کہ میری سرخ جیپ اور سرمئی رنگ کی جیکٹ کے علاوہ منظر میں کوئی رنگ نہ تھا۔ جو رنگ تھے، ان کو برف ڈھانپ چکی تھی یا ڈھانپے جا رہی تھی۔ کوئی سرحدی فوجی چوکی تھی آس پاس، نہ ہی کسی بشر کا نشان۔ یہ دوست ملک چین کی سرحد تھی۔ درہ خنجراب پر کھڑے ہوئے میرا رُخ چین کی طرف تھا۔
شاہراہ قراقرم کا پاکستان کی حدود میں اختتام تھا اس سے آگے یہ شاہرہ کراکل جھیل کے نیلے پانیوں کے کناروں سے ہوتی، خانہ بدوشوں اور دو کوہان والے جنگلی پہاڑی اونٹوں کی ہمسفری میں کاشغر تک چلی جاتی ہے، اور وہیں سے یارقند کو راستے نکلتے ہیں تو ایک راہ تکلمکان صحرا کو مڑتی ہے، جو ریتیلے ٹیلوں کا دنیا کا دوسرا بڑا صحرا ہے۔
اردگرد سرحد پر باڑ لگی تھی۔ اچانک سفید منظر میں چند بھیڑوں کا ایک ریوڑ آس پاس کہیں سے آ نکلا، اور سڑک پر چلتے میرے قریب سے گزرتا چین کی حدود میں داخل ہو کر کناروں پر خشک گھاس کی ڈھلوانوں پر پھیلنے لگا۔ گندمی مائل گھاس کے تنکوں پر برف کے گولے پھل کی طرح سجے تھے۔ بھیڑیں انہیں سونگھتیں، منمناتیں، اور پھر آگے بڑھ جاتیں۔ شمالی علاقوں کے معمول کے مطابق چرواہا غائب تھا۔ پرندوں اور جانوروں کی کوئی سرحد نہیں تھی، مگر میری سرحد یہی تھی جہاں میں برف بھرے دن میں کھڑا تھا۔
اس جھیل کے وقوع پذیر ہونے سے قراقرم ہائی وے کا 18 کلومیٹر سے زائد حصہ پانی کی نذر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ذرائع آمد و رفت ساکت ہو گئے ہیں۔ اب واحد طریقہ کشتی کے ذریعے اس جھیل کو پار کر کے حسینی گاؤں تک پہنچنا ہے، جہاں سے پھر قراقرم ہائی وے کا دوسرا سِرا مسافر سے آن ملتا ہے۔
جھیل کی ایک الگ ہی دہشت ہے۔ جہاں اس جھیل کے پانیوں نے کئی بستیوں اور انسانوں کو ڈبو دیا، وہیں برادر ملک چین سے تجارت بھی شدید متاثر ہوئی۔ اب جھیل میں کشتیاں چلتی ہیں جن کے ذریعے مال برداری سے لے کر انسانوں کی نقل و حمل عمل میں آ رہی ہے۔ جھیل کی بھی اپنی ہی ٹریفک ہے۔ کناروں پر رونق لگی ہوئی ہے۔ ملاحوں کے چہرے خوش باش ہیں اور جیبیں بھاری۔ ایک الگ ہی دنیا جھیل کے دونوں اطراف قائم ہو چکی ہے۔ کہیں سکھ ہیں تو کہیں دکھ۔
چار مرغابیوں کا غول اڑا اور دور برفپوش پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ ان کے اڑنے کے ساتھ خوشی بھی رخصت ہوئی۔ ہوٹل واپس پہنچے تک بھوک ستا رہی تھی۔ بوڑھے شخص نے بڑھ کر استقبال کیا اور بولا “حالات کے پیشِ نظر سیاحت کے متاثر ہونے کے بعد یہاں اب کبھی کبھار ہی کوئی بھولا بھٹکا آ جاتا ہے، تو میری بھی گزر اوقات کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ تم اس جھیل کی اچھی تصویریں لینا، اور دنیا کو دکھانا تا کہ سیاحت کو پھر سے فروغ مل سکے اور میرے بچوں کی روزی روٹی بھی لگی رہے، میں تمہیں مزیدار کھانا کھلاتا ہوں۔” بوڑھے کی اس رشوت پر آنکھ میں نمی اور لبوں پر مسکراہٹ پھیل آئی۔
وہیں ایک ڈینش لڑکی ملنے چلی آئی۔ بات چیت شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ پی ایچ ڈی کی طالبعلم ہے اور پاکستان میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر مقالہ لکھ رہی ہے۔ کہنے لگی کہ تین ماہ سے بورت جھیل پر ہوں۔ یہ جگہ اور جھیل اتنی پسند آئیں کہ ابھی تک واپس جانے کا دل نہیں کیا، اور یہں ایک کمرے میں پڑی اپنا گزر بسر خود کر رہی ہوں۔ پھر بولی “کیا تم نے پورے چاند کی رات میں اس جھیل کو دیکھا ہے؟ اگر نہیں تو تم یہاں رک جاؤ آج رات دیکھ کر جانا۔ مجھے یقین ہے کہ تمہیں ایسی تصویر پھر نہیں ملے گی۔”
میں نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ مجھے جانا ہے اور میرے پروگرام میں یہاں رکنا نہیں۔ وہ بولتی ہی چلی جا رہی تھی۔ شاید تین مہینوں کا اسے ایک ساتھ بولنا تھا۔ میں اور جیپ ڈرائیور کھانا کھاتے اس کی باتیں سنتے رہے۔ چلنے لگے تو بولی “تمہارا ملک خوبصورت ہے، پَسو گاؤں جاؤ تو بتورا گلیشیئر ضرور جانا۔ میں نے وہاں سفید برفوں پر سفید رنگ کے راج ہَنس اُترتے دیکھے ہیں۔” میں نے اثبات میں سر ہلایا اور چل دیا۔
صبح کے منظر میں زرق برق لباس تھے۔ عید کا سماں تھا۔ چہروں پر خوشیاں تھیں۔ ہاتھوں میں کھلونے تھے۔ بزرگوں کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں۔ بالکل عید الفطر جیسا سماں تھا۔ پَسو کی خزاں رنگی صبح خوبصورت تھی۔ لوگ خوبصورت تھے۔ میرا کیمرا اپنے بیگ میں بند پڑا تھا۔ مقامی تہواروں پر اور خاص کر مذہبی تہواروں پر تصویر لینے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ آپ اس جگہ ان لوگوں کے بیچ اجنبی ہوتے ہیں، اور لوگ اپنی دُھن میں اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں خوش خوش مصروف ہوتے ہیں، تو کیا ضرورت کسی کے لیے موجبِ اعتراض بننا؟
شمشال کی ایک اہم وجہ شہرت یہاں پر جنم لینے والی کم عمر کوہ پیما ثمینہ بیگ ہیں، جنہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کر کے یہ کارنامہ سرانجام دینے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کے علاوہ وادی شمشال سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما رجب شاہ اور مہربان شاہ نے پاکستان کی بلند ترین چوٹی سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ کوہ پیمائی سے منسلک نامور اور تجربہ کار افراد کی ایک بہت بڑی تعداد شمشال سے تعلق رکھتی ہے۔
شاہراہ قراقرم پر سوست سے آگے پاکستان کا آخری مقام خنجراب ہے۔ خنژراف مقامی زبان میں “خن” یعنی خون اور “ژراف” یعنی گلیشیائی ندی، سے مل کر بننے والا ایک مرکب لفظ ہے جس کا مطلب ہے “خون کی ندی”۔ کہا جاتا ہے کہ اس وادی کے بارے میں کسی قدیم کاہن نے کہا تھا کہ یہاں ایک بہت بڑی جنگ لڑی جائے گی، اور اس جنگ میں اتنا خون بہے گا کہ گھڑ سوار کے رکاب اس میں ڈوب جائیں گے۔ اس نسبت سے اس علاقے کا نام خنژراف، یعنی “خون کی ندی” پڑا۔ مقامی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے غیر مقامی افراد نے اس علاقے کا نام خنژراف کی بجائے “خنجراب” رکھ دیا۔ یہ علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے ساتھ انتہائی نایاب جانوروں، برفانی چیتا، برفانی ریچھ اور گولڈن ایگل کا مسکن بھی ہے۔