کشمیر: آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کے ساتھ موجودہ حالات میں مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی گلگت بلتستان کی حیثیت میں ایسی کوئی تبدیلی لائی جائے گی جس سے تحریک آزادی پر کوئی آنچ آئے۔ بھارت اگر مذاکرات چاہتا ہے تو وہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں پانچ اگست 2019 کے بعد اٹھائے گئے تمام اقدامات واپس لے، مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن بند کر کے نو آباد کاری کا سلسلہ فی الفور روکے اور تمام سیاسی قیادت کو رہا کر کے مذاکرات کے لیے ضروری فضا کو ساز گار بنائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے 73 ویں یوم تاسیس کے موقع پر وزیراعظم سیکرٹریٹ کے سبزہ زار میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے بھی خطاب کیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات کی صدائے باز گشت ایک بار پھر سنائی دے رہی ہے لیکن ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات نہیں ہو سکتے کیونکہ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی دو طرفہ معاملہ نہیں بلکہ یہ وہ مسئلہ ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں گزشتہ ایک سال کے دوران تین بار زیر بحث آیا ہے اور ہم کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی فورم سے کھینچ کر دوبارہ دہلی میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تو وہ دو طرفہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں سہ طرفہ ہوں گے اور مذاکرات کی میز پر بھارت اور پاکستان کے ساتھ جموں و کشمیر کے عوام کے حقیقی نمائندے بھی بیٹھے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے دو طرفہ مذاکرات کی آڑ میں چالاکی اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں اور اقوام متحدہ کو اس عمل سے باہر رکھا لیکن اب کشمیر پر جب بھی مذاکرات ہوں وہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے چاہیے اور ان میں کشمیریوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ تقسیم کشمیر کے حوالے سے پھیلائے جانے والے خدشات کو مسترد کرتے ہوئے صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ تقسیم کشمیر بھارت کا ایجنڈہ ہے جس نے گزشتہ سال پانچ اگست کے بعد ریاست کو کشمیر اور لداخ دو حصوں میں تقسیم کر کے انہیں بھارتی یونین کا حصہ بنا دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے کشمیر کی تحریک آزادی کو یا پاکستان کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دیرینہ موقف کو نقصان پہنچے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت کے درمیان بات چیت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ دونوں خطوں کی قیادت مکالمہ اور گفت و شنید کے ذریعے کوئی متفقہ موقف اختیار کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
۔