گلگت بلتستان میں گزشتہ چند سالوں میں کینسر یا سرطان کی بیماری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے. پانی، روزمرہ کی کھانے پینے کی اشیاء اور مشروبات کی کبھی لیبارٹری ٹیسٹنگ نہیں کی گئی. فوڈ کوالٹی کنٹرول کا کوئی نظام موجود نہیں. حکومتی سطح پر اس بیماری میں اچانک اس قدر اضافے کی وجوہات جاننے کے لئے ریسیرچ کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی. گلگت میں بننے والی کینسر ہسپتال کو پچھلے سال اکتوبر میں فنکشنل کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر اس پر بھی تا حال کوئی عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے. مقامی سطح پر بیماری کی علاج تو دور کی بات تشخیص کی بھی سہولت موجود نہیں. یوں یہ بیماری آسانی سے کئی اہم زندگیوں کو نگلتی جا رہی ہے.
استاد محترم محمد نزیر(ریٹائرڈ اے ڈی آئی) سے بھی اس ظالم بیماری نے کل شام شفاء ہسپتال اسلام آباد میں آخری سانس بھی چھین لی. اس بیماری نے استاد کے جگر پر حملہ کیا اور تشخیص کے ایک سال سے کم عرصے میں ہی زندگی کی کشتی کو پار لگا دی. استاد کا تعلق گاؤں داماس پونیال سے اور علاقے کے انتہائی شریف النفس اور مخلص انسان تھے. عمر بہتر سال تھی. بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کی اور محکمہ تعلیم سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد فیملی کے ساتھ خوش و خرم اپنی زندگی گزار رہے تھے. ان کا نماز جنازہ آج بعد نماز عصر آبائی قبرستان کے ساتھ ادا کیا جائے گا. مولا پاک استاد محترم کا سفر آخرت آسان فرمائے.امین.
کینسر کی 12 اہم علامات میں پیشاب کرنے میں مشکل، جلد میں نمایاں تبدیلیاں، منہ میں چھالے یا درد، مسلسل کھانسی، فضلے میں خون، معدے میں درد یا متلی، اکثر بخار یا انفیکشن کا شکار رہنا، نگلنے میں مشکل، بہت زیادہ خارش، بغیر کسی وجہ کے وزن کم ہونا، مسلسل تھکاوٹ اور شدید سردرد شامل ہیں. تحقیق کے مطابق 70 سے 80 فیصد افراد کینسر کا خطرہ ظاہر کرتی اہم علامات کو نظرانداز کردیتے ہیں. کینسر اب لاعلاج مرض نہیں مگر ایک مخصوص اسٹیج پر کوئی دوا کارآمد ثابت نہیں ہوتی۔
انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 2018 میں دنیا بھر میں ایک اندازے کے مطابق ایک کروڑ 81 لاکھ کینسر کے نئے کیسز سامنے آئے جبکہ 96 لاکھ مریضوں کی موت کا امکان ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیماری کس حد تک خطرناک ہے اور احتیاط کس حد تک ضروری ہے.
ماہرین کے مطابق لوگ جب تک ورزش نہیں کریں گے تب تک پیچیدہ بیماریوں سے نجات نہیں ملے گی۔ سائیکل چلانے اور روز چہل قدمی کرنے سے بھی انسانی کی صحت کافی اچھی ہو سکتی ہے۔ سگریٹ نوشی ہر پانچویں ٹیومر کی ذمہ دار ہے. بڑا گوشت زیادہ نقصان دہ ہے۔ دوسری جانب مچھلی کا استعمال صحت کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں پر مشتمل غذا سرطان سے بچا سکتی ہے۔ شراب نوشی سے پرہیز، خوراک پر توجہ اور وزن کم رکھنے جیسی تدابیر بھی اس مرض سے بچا سکتی ہیں۔ بچاؤ کیلئے آگاہی مہم موثر ثابت ہو سکتی ہے.
ہیلتھ ٹی وی کے مطابق کینسر سے بچاؤ کے لئے ۹ اہم غذاؤں میں چکوترا، بیریز، کروسیفرس سبزیاں، لہسن، انگور، سبز چائے، پتے والی ہری سبزیاں، ٹماٹر اور ہلدی شامل ہیں.
اس بیماری سے استاد محمّد نذیر کی طرح کئی پیارے ہم سے جدا ہوئے ہیں اور آئندہ بھی یہ بیماری کئی جانیں نگل سکتی ہے. مگر سب سے اہم احتیاط اور وقت پر بیماری کی تشخیص کرانا ہے.