ہنزہ نیوز اردو

گلگت بلتستان موسمیاتی تبدیلی کی زَد میں۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا میں اٹھار ویں صدی میں پہلی مرتبہ محسوس کیا گیا تھا کہ جب ایک سویڈیش سائنس دان(کیمسٹ) ”صوانتے ایریانوس“ نے 1896ء میں کہا تھا کہ جیواشم ایندھن کے استعمال سے فضاء میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے جس پر انہیں اپنے ہم پیشہ ساتھیوں سے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نظریے کے بعد 1958ء میں اس بات کا باقاعدہ اعتراف کیا گیا کہ فضاء میں کاربن ڈائی اکسائیڈ کا مقدار خطرناک حد تک بڑ ھ چکا ہے جو کہ قدرتی نہیں بلکہ اس میں انسانی عمل کے ذریعے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات واضع ہونے لگے تو عالمی سطح پر اس موضوع پر بحث چھڑ گئی اور 1975 ء میں امریکی سائنسدان”ویلیس برویکر“نے”گلوبل وارمنگ“کے اس اصطلاح کو دنیا کے سامنے متعارف کروایااور اس طرح 1988ء میں موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ بن کر سامنے آیا اور قومی و بین الاقوامی سطح پر مختلف اداروں نے (یونائٹیڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام) اس سنگین مسئلہ پر کام کرنا شروع کیا۔موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اگر آسان الفاظ میں سمجھا جائے تو موسم میں غیر معمولی تبدیلی ہے جیسا کہ گرمی کی شدت میں اضافہ جو ہمارے قدرتی ماحول پر اثر انداز ہوتی ہے اور بلا آخر انسانی ؎وجود کیلئے وارننگ ثابت ہوسکتی ہے۔ سائنسی لحاظ سے دیکھیں تو جیواشمایندھن اور پلاسٹک کا استعمال بنیادی وجہ ہے لیکن بدقسمتی کا یہ عالم ہے کہ اس کا ذمہ دار خود انسان ہے۔گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جسے عام فہم میں پہاڑوں کا گھرکہاجاتا ہے۔دنیا کے طویل ترین پہاڑی سلسلے جن میں حمالیہ، ہندوکش اور قراقرم شامل ہیں جبکہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو،پانچ ہزار سے زائدچھوٹے بڑے گلیشئرز اورچارسرحدوں (افغانستان، چائنہ،تاجکستان اورکارگل)یعنی چار سلطنتوں کو ملانے والا واحد خطہ ان وجوہات کی بنا پر اپنی جغرافیائی اہمیت دنیا کو منوا چکی ہے۔دوسری طرف پہاڑوں سے آنے والا پانی پینے اور آبپاشی کا واحد ذریعہ ہے جو نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ دریائے سندھ پنجاب کے بیشتر علاقے کو سیراب کرتی ہے مختصراً یہ کہ اگر گلگت بلتستان میں موسمیاتی تبدیلی برقرار رہی تو اس خطے میں انسانی زندگی ختم ہوجائے گی۔مجھے اپنی زندگی کے اس مرحلے تک جتنا سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ ہمیشہ اپنے ارد گرد کی قدرتی رونق جس میں دیوقامت بلند وبالا پہاڑ اور ان پر سفید چادر نمُابرف،بہتے دریا اور چار موسموں کے دلفریب نظاروں سے ہر بارمتاثر ہوا کرتی تھی لیکن جس تبدیلی کی میں چشم دید گواہ ہوں وہ انتہائی حولناک ثابت ہوتی جارہی ہے کیوں کہ میَں نے محسوس کی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے گرمی کی شدّت میں اضافہ ہوا ہے۔سالانہ گلیشئرز کے ؎پگھلاو میں تیزی، سیلاب کا آنا تو جیسے عام بات ہو، بہار کی آمد آمد کے ساتھ ساتھ ماہ مارچ کی پہلی یا دوسری ہفتے میں ہی برف پگھل کر پہاڑوں سے سیلاب آنا شروع ہوجاتی ہے اور زراعت میں بھی ایسی واضع تبدیلی کہ اب ہر پھل وقت سے پندرہ دن پہلے تیار ہوتے ہیں اور جلد کیڑہ لگ جانا یہ سب وہ حقیقت باتیں ہیں جسے کوئی بھی سن کر انکار نہیں کر سکتا ہے۔پہاڑی علاقے ویسے بھی قدرتی آفات کی زَد میں ہوتے ہیں اور سالانہ نالہ جات میں سیلابی ریلہ آنا معمول کی بات ہے کیوں کہ آبادی کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچاتی اور اپنے لئے پانی کی بہاؤ سے ایک خاص راستہ بنا لیتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند سالوں پر غور کیا جائے تو2017 ء میں ششپر گلیشر نے سر جنگ(سرکنا) شروع کر دی جس سے ہر سال حسن آباد نالے میں طوفانی سیلابی ریلہ آنے لگا اور سال بہ سال بڑے بڑے نقصانات کا متحمل ہونا شروع ہو گیا۔ زمین کے کٹاؤ سے لیکر2022ء کے مئی کے مہینے میں حسن آباد کے قراقرم ہائے وئے پر بناپُل اور رہائشی گھرانے سیلاب کی غیض و غضب کا نشانہ بن کر دریا بُرد ہو گئے جس کے باعث سینکڑوں بے گھر اور کھلے آسماں تلے وقت گزارنے پر مجبور ہوئے۔2020ء کے بعد بٹورا گلیشر جو کہ پھسو میں واقع ہے وہ بھی تیزی سے پگلھلنے لگا جس کی وجہ سے سینکڑوں کیوسک پانی کا اخراج ہونے لگا اور مقامی زمین کے لئے بنائی گئی نہری نظام آبپاشی درہم برہم ہو کر رہی گئی۔ 2022ء یہ وہ سال ہے جو سالانہ آنے والا سیلابی نقصانات کے مقابلے میں گزشتہ تباہ کاریوں سے سبقت لے گیا اور ایسے ایسے نالوں میں اچانک سیلاب آنے لگی جہاں سے شاید ہی ہم نے صرف نام سنا تھا جیسا کہ حال ہی میں گورو جگلوٹ کے مقام پر ایساطوفانی سیلاب آیا جس کے بارے میں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ گزشتہ نصف صدی سے پہلے بھی کبھی سیلاب نہیں آئی تھی۔ دوسری جانب گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع سیلاب کی نقصانات کی زَد میں آئے جس سے نہ صرف مالی بلکہ اس بار جانی نقصانات بھی ہوئیں۔ اب لگتا یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے پوری طرح گلگت بلتستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور آنے والے سالوں میں نقصانات میں بد سے بدتر حالات کا سامنا کرسکتے ہیں۔اب میَں گلوبل وارمنگ کے اسباب کی جانب غور کرنا چاہوں گی، ایندھن کا بے جااستعمال بنیادی وجہ تصوّر کی جاتی ہے۔جن ممالک خاص کر مغربی ملکوں میں عوام الناس،طلبہ اور ملازمت سے وابسطہ شہری یا تو پیدل چلنے اگر دور جا نا ہو تو سائیکل کے ذریعے اپنی منزل تک پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے جسمانی ورزش بھی ہوتی ہے اس کے بر عکس مشرقی ممالک میں پیدل چلنا اپنے لئے تذلیل اورسائیکل سواری بچگانہ حرکت تصوّر کرتے ہیں۔ہر شہری نان کسٹم پیڈ گاڑی بھی خرید کر اور موٹر سائیکل بھی لے کر فضاء کو آلودہ کرنے کی پرواہ نہیں کرتا حالانکہ ایک طرف پیٹرول کی شکل میں شہریوں کی خطیر رقم ضائع ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں گلگت بلتستان کی فضاوں میں اوپر ذکر شدہ سرحدیں ملنی والی ممالک کیلئے ائرٹریفک کی روٹس ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر جہازوں کی آمد و رفت برقرار رہتی ہے جس سے جی بی کی سر زمین کو صرف اور صرف جہازوں سے خارج شدہ ایندھن پوری فضاء کو آلودہ کر دیتی ہے۔گلگت بلتستان میں جوفضائی آلودگی گزشتہ دہائی سے بڑھ چکی ہے اسکی ایک اور اہم وجہ سیاحتی شعبے کا قلیل مدت میں فروغ پانا ہے جس سے ایک طرف ٹریفک سے فضائی آلودگی اور دوسری جانب پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کیلئے سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے اٹھائے گئے اقدامات کو ناکام کردینا شامل ہے لیکن یہاں میری اس سے مرادسیاحت میں رکاوٹ نہیں بلکہ متعلقہ محکمے کو ایسے اقدامات کی استدعا ہے کہ جن سے سیاحت کو بھی پروان چڑھنے میں مدد گار ثابت ہو ں اور ماحولیاتی تغیرو تبدیلی میں کمی ہو لیکن اس کے اثرات مضر ثابت نہ ہوں اور سیاحوں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان حدود میں جہاں وہ سیر و تفریح کر رہے ہیں ان علاقوں میں ممنوع باتوں سے گریز کریں مثلاً ان کے علم میں یہ بات لائی جائے کہ ہنزہ پلاسٹک کے استعمال سے پاک سر زمین ہے اور ساتھ ہی اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے آئندہ سال بھی آنا ہے اور ماحول صاف ستھرا رہے۔سائنسی تحقیق کے مطابق گلوبل وارمنگ کی ایک اور اہم وجہ اولاً جی بی میں جنگلات کی پہلے سے کمی ہے دوسری جانب اگر کچھ بچا کچا ہے تو تعمیرات کی خاطر اس کا بے دریخ کٹاؤ ہے لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر ایک درخت کو زمین سے اکھاڑتے ہیں تو دوسرا لگانے کو ترجیح دینا چاہئے حلانکہ ارشادِ نبوی ؐبھی ہے کہ”درخت یا پودہ لگانا صدقہ جاریہ ہے“۔ اگر اس موضوع پر کسی مقامی زمین دارسے بحث کریں گے تو سب سے پہلے یہ شکایت لگائیں گے کہ جب پودوں کیلئے پانی میئسر نہیں تو درخت لگا نے کا کوئی فائدہ نہیں لیکن در حقیقت پورا گلگت بلتستان کی سر زمین آبی وسائل سے مالامال ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان آبی وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھانے کیلئے عوام الناس اپنی مدد آپ کے تحت نہری نظام کی بر وقت بحالی جیسے اقدامات کی وساطت سے زمین کو پانی مہیاء کریں مثلاً اس وقت مرکزی ہنزہ کے بالائی حصےّ میں صرف ایک مرتبہ زمین کو پانی نصیب ہوئی ہے جو کہ ایک المیہ ہے جبکہ یہی پانی کوہلوں کی بر وقت مرمت نہ ہونے کے سبب جی بی کی تمام نالہ جات کی پانی ضائع ہو کر پنجاب کی سر زمین کو سیراب کر رہی ہے جو کہ ہمارے سیاسی نمائندوں کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور یہی عوامی نمائندے یومِ شجرکاری کے دن یادگاری طور پر ایک درخت لگا کر تصویر کشی کر کے چلے جاتے ہیں جو کہ بعد ازاں آبی قلت اور عدم دلچسپی کے سبب سوکھ جاتے ہیں بالکل ایسے ہی اب وقت کے ساتھ لوگوں کی ترجیحات بھی بدل گئے ہیں جیسے پہلے زراعت ذریعہ معاش تھا نیز اب تعلیمی میدان کو عبور کرنے کے بعد ملازمتوں کا رجحان آیا ہے خواہ اس سے آپ کو اچھی اجرت ملے یا نہ ملے اس کے بر عکس میں سمجھتی ہوں کہ زراعت کے شعبے کوجدید طرز کے مشینوں سے اتنا فروغ دیا جائے کہ اس سے آمدن کا مظبوط ذریعہ بنے جس کے فوائد لاتعداد ہیں مثلاً جسمانی ورزش، تازہ اور ملاوٹ سے پاک پھل اور خاص کر ماحولیاتی آلودگی سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے مگر اب ہمارے گلگت بلتستان میں مشہور ہے کہ تازہ پھل اور سبزیاں بیچ کر ملاوٹ سے بھر پور غذا کا استعمال کرتے ہیں جیسے کہ عام طور پر خوبانی جو انسانی صحت کے لئے انتہائی مفید ہے اس سے صلفر کے ذریعے سکھا کر بیچتے ہیں جو انسانی صحت کے ساتھ ساتھ ماحول کے لئے بھی بے حد خطرناک ہے۔گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات و اسباب ایک حقیقی امر ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ ہمارے اسلاف جنہوں نے اپنی سر زمین کی حفاظت کی خاطرجنگ و جدل کے ذریعے جان کا نذرانہ پیش کیالیکن کسی دشمن کو ہماری سرزمین پر قدم رکھنے سے باز رکھا اور زمین کی حفاظت کی ان کا نصب العین یہ تھا کہ یہ سر زمین ہماری اگلی نسل کیلئے محفوظ رہے اور سکھ بھری سانس لیں کر زندگی بسر کریں اب دور عصر میں جنگ و جدل کا زمانہ نہیں رہا اب قوّت بازوکا تقاضہ یہ ہے کہ زیادہ سنجیدہ، محنت کش اور دور اندیش وہ ہے جو اپنی آئندہ نسل کے لئے اپنی ذہنی اور عقلی صلاحیتوں کا استعمال کرنا جانتا ہو۔ نئی نسل کیلئے دوراندیشی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ شجرکاری پر توجہ دیں اس کے علاوہ غیر ضروری تعمیرات کے بجائے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت اپنے لئے مکانات تعمیر کریں اور اس دوران اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ قدرتی ماحول کو کہیں نقصان نہ پہنچے۔
ہمارے تجاویز سے ماحول پاک صاف نہیں ہوگا البتہ ماحولیاتی آلودگی میں کمی بیشی ضرور ہوگی اور عوام اور حکومت دونوں مل کر ہمارے ارد گرد کی قدرتی ماحول کو صاف و شفاف رکھنے کیلئے اقدامات پر ضرور غور کرے گی اور یہ سب کچھ اجتماعی اور انفرادی طور پر ممکن ہے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ