عمران اللہ مشعل
عمران خان پاکستان کے بارے میں اگر ایک کا چیز سب سے زکر رہا ہے تو وہ ہے سیاحت ہر وقت دنیا کو پاکستان کی سیاحت کے حوالے دعوت دیتا ہے۔
یقینا یہ بات درست بھی پاکستان کے موسم اور سیاحتی مقامات بہت ہی منفرد ہے مگر آج تک اس شعبے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے گئیں ہیں ورنہ پاکستان صرف سیاحت کے شعبے سے بہت کچھ کما سکتا ہے۔
پاکستان میں جہاں سیاحت کے حوالے سے بات ہوگی تو وہ گلگت بلتستان کے بغیر نامکمل ہوگی کیونکہ سب سے زیادہ سیاحتی مقامات گلگت بلتستان میں ہے اور بیرون ملک سے آئے ہوئے سیاح بھی شمالی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
گلگت بلتستان کے ہر جگہ سیاحت کے لیے اپنی مثال آپ ہیں ان میں چند ایک کی زکر یہاں کر رہا ہوں۔
گلگت بلتستان پاکستان کے شمال کے میں واقع ہے جغرافیائ لحاظ سے انتہائ اہمیت کا حامل یہ خطہ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں جس میں گھنے جنگلات، بلند و بالا سرسبز میدان، ہر قسم کے پھل، جڑی بوٹیوں سمیت بہت ساری اقسام کے قیمتی معدنیات بھی جگہ جگہ پائ جاتی ہے۔
اسی طرح آسمان کو چھوتے ہوئے بلند چوٹیاں بلندی سے گرتی سبز رنگ کی آبشاریں اور جھیلیں دنیا جہاں کو اپنی سحر میں جکڑ لیتی ہے اور جنت نظیر وادی کا نظارہ پیش کرتی ہیں۔
ہر انسان جسے گلگت بلتستان کے بارے میں معلوم ہو تو وہ زندگی میں ایک بار گلگت بلتستان جانے کے لیے ضرور خواہشمند ہوتا ہیں۔
گلگت بلتستان کے چوٹیوں میں کے ٹو جو کہ دنیا کی دوسری بلند چوٹی ہیں، نانگا پربت راکاپوشی اور دیگر 9 بڑی ایسی چوٹیاں پائ جاتی ہے جنہیں سر کرنے کے لیے دنیا بھر سے کوہ پیما اور سیاح تشریف لاتے ہیں۔
سرسبز اور بلند بالا میدانوں میں ضلع استور اور سکردو کے درمیان دیوسائ جہاں جھیلیں بھی ہے وسیع و عریض رقبے پر پھیلی سبزہ زار بھی ہیں ہر قسم کے پھول بھی پائے جاتے ہیں اور انتہائ بلندی کی وجہ سے دنیا کا چھت بھی کہا جاتا ہیں۔
کے ٹو کے بیس کیمپ کے پاس سال میں ایک بار سرمائ صحرائ ریلی کا میلہ لگتا ہے جہاں شدید سردی کے موسم میں بھی صحرائ کار ریلی کا میلہ لگتا ہے جس میں دنیا بڑ سے سیاح شریک ہوتے ہیں۔
نانگا پربت جو کہ ضلع دیامر میں واقع ہے جسے قاتل چوٹی بھی کہا جاتا ہے آج تک صرف دو کوہ پیماؤں نے سر کیا ہیں باقیوں میں زیادہ ناکام لوٹے یا زندگی ہار بیٹھے مگر نانگا پربت کو سر نہ کرسکیں وہاں بیس کیمپ کے ساتھ فیری میڈوز کا علاقہ ہے جو کہ پریوں کے مسکن سے بھی مشہور ہے وہاں بھی دنیا بھر سے سیاح سالوں سے تشریف لارہے ہیں۔
بابوسر ٹاپ ضلع دیامر میں واقع ہے چلا سسے تیس منٹ کی مسافت پے ہیں اور خیبر پختونخواہ اار گلگت بلتستان کو ناران کاغان روٹ کے لیے ملاتا ہے جسے درہ بابوسر بھی کہتے ہیں جو سطح سمندر سے 14 ہزار فٹ بلندی ہے واقع ہے وہاں کے مناظر بھی سحر انگیز ہے برف سے دھکا بلندی پر واقع ٹاپ سیاحوں کو اپنے سحر انگیزی میں جکڑ لیتا ہے جو سیاح ناران کاغان آتے ہیں وہ بابوسر ٹاپ تک نہیں آئیں تو اپنی سیر و تفریح کو نامکمل سمجھتے ہیں۔
وادی نلتر ضلع گلگت کا ایک گاؤں ہے وہاں سالانک آئس سکیز چمپئن شب کا مقابلہ ہوتا دنیا بھر سے سکیز کے کھلاڑی مقابلے میں شریک ہوتے ہیں۔
اسی طری وادی ہنزہ ،غذر،شگر اور سکردو میں ایسی بہت ساری مقامات ہے جہاں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
سال 2018 میں ایک امدزاے کے مطابق بیس لاکھ سے زائد سیاح صرف گلگت بلتستان آئے ہیں اب پاکستان کے دیگر حصوں کا بھی سوچئے تو یہ تعداد کتنی ہوگی؟۔
علاقے کا حسن سے توسب واقف ہے مگر سیاحت کے شعبے پر مزید توجہ دی گئی تو نا صرف آمدن میں اضافہ ہوگا بلکہ دنیا بھر سے زیادہ سے زیادہ لوگ تشریف لائینگے۔
گلگت بلتستان میں سیاحت کی بہتری کے چند تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔
گلگت بلتستان کے جتنے بھی سرکاری گیسٹ ہاؤسز ہے سیاحت کا موسم شروع ہوتے ہی ہی وہاں بیوروکریٹس اور آرمی آفیسروں کے رشتہ داروں کا قبضہ ہوتا ہے۔
جبکہ باہر سے آئیں ہوئے مہمان پرائیویٹ ہوٹلوں میں ٹہرتے ہے جہاں ان سے کرایہ سمیت ہر چیز مہنگا دیا جاتا ہے
اگر سرکاری گیست ہاؤسز باہر سے آنے والے مہمانوں کو دی جائے تو وہاں سے خزانے میں بہت بڑی رقم آئیگی اس قبضے کو ختم کیا جائے۔
گلگت بلتستان کے سڑکوں کو بہتر کیا جائے خاص کر ان جگہوں کا جہاں سیاحتی مقامات ہے۔
سیاحتی مقامات پر موجود ہوٹل مالکان کو اس بات کا پاپند کیا جائے وہ باہر سے آنے والے مہمانانوں سے بہترین مہمان نوازی کے ساتھ بہترین سلوک سے پیش آئیں اور ریٹس میں بے جا اضافہ نہ کریں۔
راستے میں جہاں پڑاؤ ہوتا ہے وہاں کھانے کا بہترین انتظام ہو سب سے زیادہ شکایات راستے میں مضر صحت کھانے کے حوالے سے ہوتا ہیں۔
گلگت بلتستان میں ابھی تک کہیں بھی انٹرنیٹ سہولیات نہیں ہے حکومت کو چاہیے فی الفور تمام کمپنیوں کو فور جی اور تھری جی کے لائنس جاری کریں تاکے سیاحوں کو مشکلات نہ ہو اور بروقت سیاحتی مقامات کی تشہیر بھی آسانی سے ہوگی۔
پرائیوئت ٹور آپریٹرز کے جگہ حکومت ایک ایسا ادارہ قائم کریں جو کہ سیاحوں کو لے آئیں اسطرح سیاح بھی زیادہ آئینگے اور قومی خزانے میں آمدنی بھی زیادہ ہوگی۔
سیاحتی سیزن میں ریائتی کرایوں کے ساتھ خصوصی بس سروس کا آغاز کی جائے تاکے زیادہ سے زیادہ لوگ آجائیں۔
سیاحوں کی سکیوریٹی کا خاص خیال رکھا جائے انکی جان مال کی بھر پور حفاظت کیجائے اور واپس اپنے گھر پہنچے تک کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ ہو۔
اگر ان تجاویز پر عمل کیا گیا تو نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گی بلکہ یہ پاکستان کی منافع بخش انڈسٹری میں تبدیل ہوگی۔