میرا ضمیرمطمئن ہے کہ مجھے مظلوموں کی آواز بننے پر گرفتار کیا گیا، 15گھنٹے حبس بے جا میں رکھا گیا اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے میری غیر قانونی گرفتاری پر صحافتی تنظیموں،سول سوسائٹی، سیاسی،سماجی،مذہبی قوم پرست جماعتوں کے باضمیر ،غیرت مند اور جرات مند افراد میرے حق میں نکلے اور سوشل میڈیا پر بھی میرے حق میں آواز بلند کی گئی ۔جس پر میں آپ سب کا شکرگزار ہوں
اس سے قبل کہ میں واقعے کی طرف آﺅں میں قارئین کو اپنے صحافتی کیرئیر کے حوالے سے مختصراً آگاہ کروں کہ میں 2001میں ڈگری کالج گلگت(موجودہ قراقرم یونیورسٹی ) میں گریجویشن کا طالب علم تھا اور جرنلزم میں میرا مضمون تھا تب میں نے کالج کے مسائل کے حوالے سے ایک خبر لکھی جو ہفت روزہ وادی میں شائع ہو گئی بعد ازاں ہفت روزہ وادی میں بطور تعلیمی رپورٹر کام کا آغاز کیا۔ کئی عرصے وادی سے وابستہ رہنے کے بعد وادی سمیت کے پی این میں شامل ہوگیا گریجویشن کے بعد راولپنڈی منتقل ہو گیا اور دو سال روزنامہ صدائے گلگت میں بطور سب ایڈیٹر پھر نیوز ایڈیٹر کام کرتا رہا 2010میں روزنامہ اوصاف کا گلگت بلتستان ایڈیشن شروع ہوا تو ہنزہ سے بیوروچیف اور 2014میں گلگت آفس میں بطور چیف رپورٹر ذمہ داریاں سنبھال لیں اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی عدم موجودگی میں ان کا کام بھی بخوبی انجام دیتا ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ ضرورت پڑنے پر آفس بوائے کا کام بھی کرتا ہوں اور آئی ٹی انچارج کا بھی ۔۔۔۔۔۔
یہ گزشتہ روز مورخہ 12ستمبر شام کے وقت کی بات ہے کہ ایک دوست، سماجی ورکر نے کال کیا اور پی آر ٹی سی میں مختلف نوعیت کے مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ کرکے اخبار میں خبر لگانے اور سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کی استدعا کی تو میں نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے عرض کیا کہ کوئی متاثرہ شخص مجھ سے رابطہ کرے تاکہ میں کچھ پوچھ بھی لوں اور حقائق جاننے کے بعد کوئی قدم اٹھاسکوں جس پر اس سماجی وورکر نے رضا مندی ظاہر کی .تھوڑی دیر بعد ایک کال آئی سلام دعا کے بعد کال کرنے والے نے اس سماجی ورکر کا ریفرنس دیکر اپنی بات کا اغاز کیا اور کہا کہ ڈی آئی جی رینج اس وقت بھی پی آر ٹی سی میں آتے ہیں جب ان کی ڈیوٹی نہیں ہوتی اور وہ خواتین کے سامنے شارٹس پہن کر آتے ہیں جو ہماری روایات اور ثقافت کا حصہ نہیں اس کے علاوہ رول کال میں ایک دفعہ خواتین ریکروٹس کے ساتھ جو سلوک (سختی)کیا وہ کسی بھی طور پر انسانی سلوک نہیں تھا جبکہ گالم گلوچ بھی کی گئی اور کافی مرتبہ ہمیں اس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا ۔۔۔۔ اس کی آواز میں درد تھا ۔۔۔ خوف بھی تھا۔۔۔۔اور غصہ بھی میں نے اس درد کومحسوس کیا اور نیک نیتی سے انتہائی محتاط الفاظ کے ساتھ ایک ہی جملے میں بیان کرکے فیس بک اور اپنے ٹویٹر اکاﺅنٹ پر پوسٹ شیئرکیاجس کے الفاظ یہ تھے کہ ” ڈی آئی جی رینج کا خواتین اہلکاروں سے بد تمیزی،سر عام تذلیل اور دباﺅ کا شکار کرنے کی شکایتیں، متاثرہ خواتین کا آئی جی سے نوٹس لینے کا مطالبہ” فیس بک اور ٹویٹر پر پوسٹ لگانے کے آدھے گھنٹے بعد ڈی آئی جی موصوف جس کے ساتھ میرا کسی قسم کا رابطہ یا تعلق نہیں تھا نے واٹس ایپ پر مسیج کیا کہ آپ نے میر اموقف لئے بغیر یہ پوسٹ کیوں او رکیسے لگائی ؟؟ میں نے ڈی آئی جی کو بتایا کہ ابھی آپ اپنا موقف دیدیں میں وہ بھیلگا دوں گا کیوں کہ صحافتی اصولوں کے مطابق اگر کوئی اپنا موقف دینا چاہے تو ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کا موقف چھاپ دیں۔ جس پر ڈی آئی جی نے کہا کہ نہیں آپ پوسٹ کو ڈیلیٹ کریں اور آفس میں ملیں ۔ میں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھوڑی ہی دیر میں مختلف دوستوں اور رشتہ داروں کے ذریعے پیغامات ملنا شروع ہو گئے اور پوسٹ ڈیلیٹ کرنے کے لئے سفارش کروائی گئی ان میں کچھ Puppits بھی تھے بہر حال میں نے سب کو ٹال دیا لیکن جب ہمارے ادارے کے ریذیڈنٹ ایڈیٹرکی کال آئی اور ڈیلیٹ کرنے کو کہا تو میں نے یہ سوچ کے ڈیلیٹ کیا کہ اس پر کچھ مذید تحقیقات کے بعد تفصیلی خبر چلائیں گے۔میں نے اپنی طرف سے معاملہ رفع دفع سمجھاتھا کہ رات کے ساڑھے دس بجے دفتر کے ایک ساتھی نے کال کیا کہ آ پ کے پیچھے پولیس آئی تھی اور غصے میں آپکا پوچھ رہی تھی ۔۔۔ میں نے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو فون کیا توانہوں نے لا علمی کا اظہار کیا تب تک وہ دفتر سے نکل چکے تھے تھوڑی دیر بعد ایک دوست کا فون آیا کہنے لگے ایس ایچ او صاحب آپ کے گھر کا پتہ پوچھ رہے تھے تب میں نے ایس ایچ او کو فون کرکے معاملے کے بارے جاننے کی کوشش کی تو ایس ایچ اور سٹی تھانہ نے کہا کہ اب معاملہ ٹھنڈا پڑ چکا ہے میں گھر پہنچ چکا ہوں آ پ آرام کریں صبح دیکھ لیں گے۔میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے رات دو بجے ہمارے گاﺅں کے ہی ایک پولیس اہلکار جو رشتہ دار بھی ہے نے آواز دی تو والد صاحب اٹھے اور مجھے بتانے لگے آپکو کوئی بلا رہا ہے پھر سب اٹھے دیکھا تو گاوں کے اہلکار کے ساتھ ایس ایچ او سٹی تھانہ ، ایک لیڈی پولیس اور ایک ڈرائیور گیٹ پرتھے ایس ایچ او چونکہ میرے کلاس فیلو اور اچھے دوست بھی ہیں سے سلام دعا کے بعد میں نے وجہ دریافت کی چونکہ سب کچھ معلوم تھا ایس ایچ او صاحب مسکرائے اور بولے کہ آپکو ڈی آئی جی صاحب نے یاد کیا ہے اور ایس ایس پی صاحب آپکے انتظار میں ہیں۔میں نے کسی قسم کی مزاحمت نہیں کی اور قانون کا احترام کرتے ہوئے اپنا بیگ اٹھایا او ر چل دیا۔والدین سمیت گھر والوں کو پریشانی تو ہو گئی لیکن میں نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ میں کسی چوری ڈکیتی میں گرفتار نہیں ہو رہا بلکہ ایک قومی ایشو پر مجھے پولیس طلب کر رہی ہے۔میں نے پولیس کے ہمراہ رخت سفر باندھ لیا پہلے مجھے بتایا گیا کہ سٹی تھانہ جانا ہے پھر جگہ بدل لی گئی کہا گیا کہ پی آر ٹی سی جانا ہے پھر جگہ بدل لی گئی اور جوٹیال پہنچ گئے تو بتایا گیا کہ جوٹیال تھانہ جانا ہے صورتحال سے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کو آگاہ کیا تھا تو وہ پہلے سے ہی انتظار کر رہے تھے ۔جوٹیا ل تھانہ کے ایس ایچ او آفس میں ایس ایس پی گلگت اور ای ڈی پی او بیٹھے ہوئے تھے میں سلام کرنے کے بعد بیٹھ گیا تب انہوں نے مختلف سوالات پوچھے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ، اس سے ڈی آئی جی صاحب کے عزت نفس کو آنچ پہنچی وغیرہ وغیرہ میںنے اپنا موقف واضح کیا ۔ ان کا آخری مطالبہ یہ تھا کہ میں ان کو ان بندوں کا نام اور نمبر دوں جنہوں نے مجھے پی آر ٹی سی میں مبینہ طور پر مختلف نوعیت کی زیادتیوں کی اطلاع دی ہے ۔۔ میں نے دو ٹوک الفاظ میں انکار کیا اور کہا کہ میں قانون کا احترام کرتا ہوں یہ ہمارا فرض بھی اور تربیت بھی لیکن میں ان بندوں کا نام اور نمبر کسی صورت نہیں دے سکتا اور اس کے لئے مجھے سولی پر چڑھنا بھی پڑے تومجھے کوئی پرواہ نہیں میں کسی طور پر ان کا نام اور نمبر آپکو نہیں دے سکتا ہاں البتہ واقعے کی تحقیقات ہوتی ہیں اور عدلیہ ان بندوں کی جان ومال کے تحفظ کی ضمانت دیتی ہے تومیں عدالت کو دے سکتا ہوں باقی حوالات، جیل ، سزاءکے خوف یا دباﺅ سے ان کا نام اور نمبر نہیں دے سکتا۔ تب ریذیڈنٹ ایڈیٹربھی آگئے اور ایس ایس پی اور ایس ڈی پی او نے ان سے بھی یہی مطالبہ کیا کہ نام اور نمبردیکر آپ چلے جائیں کوئی کارروائی نہیںہوگی انہوں نے بھی صاف انکار کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ہم ہر قسم کا تعاون کریں گے لیکن ایسا نہیں کر سکتے۔تب تک صبح کے پانچ بج چکے تھے نام اور نمبر لینے میں ناکامی کے بعد ایس ایس پی اور ایس ڈی پی او چلے گئے اور مجھ سے میرا موبائل بھی اٹھایا گیا۔اس کے بعد مجھے سٹی تھانہ منتقل کیا گیا اس سے قبل میری بلا جواز اور غیر قانونی گرفتاری کی خبر سوشل میڈیا پر چل چکی تھی جبکہ صبح ساڑھے سات بجے میں اپنی گرفتاری کی خبر سنٹرل پریس کلب گلگت کے صدر اور یونین آف جرنلٹس کے صدر کو دینے میں کامیاب ہو گیا دریں اثناء صبح 8بجےریذیڈنٹ ایٹر سٹی تھانہ پہنچ گئے تھے اور ان کے ہمراہ میرے ایک دوست بھی محرر کے دفتر میں انتظار کر رہے تھے ان سے ملاقات اور گزرے رات کی بات چیت تک کافی دیر ہو گئی سٹی تھانہ کی کینٹین میں ناشتہ کے بعد معلوم ہوا کہ گلگت پریس کلب اور یونین آف جرنلٹس کی کال پر پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ شروع ہو چکا ہے ۔پولیس سٹیشن میں دن بھر لوگوں کا تانتا بندھا رہا اور پولیس نے روایتی خیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سارے ملاقاتیوں کو گیٹ سے اندر نہیں آنے دیا بہرحال مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے میرے وہم و گمان سے زیادہ لوگ نہ صرف مجھ سے ملنے سٹی تھانہ آئے بلکہ وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے سامنے جاری احتجاجی دھرنے میں بھی شرکت کی ۔ میں گلگت بلتستان کے ان تمام با ضمیر اور غیرت مند سیاسی ، سماجی ، عوامی ، مذہبی ، قومی ، مقامی ، قوم پرست جماعتوں کے رہنماﺅں ور کارکنوں اور سوشل میڈیا کے متحرک نوجوانوں کا ایک بار پھر شکر گزار ہوں بالخصوص صحافی برادری کا اور گلگت پریس کلب اور یونین آف جرنلٹس کے عہدیداروں اور ممبران کا جنہوں نے میری غیر قانونی گرفتاری کے خلا ف آواز بلند کی اس اہم اور حساس ایشو پر میری غیر معمولی حمایت پر میں خود کو مقروض سمجھتا ہوں۔باقی جو پولیس اہلکار اپنے سٹیٹس اور ڈی پی میں آپنے آفیسر کی تصویریں لگا رہے ہیں وہ مجبور ہیں ماتحت ہیں اور آرڈر کے غلام ہیں ان سے کوئی گلہ نہیں ان کا ضمیر ان کو جھنجوڑتا ہے لیکن وہ مجبور ہیں ۔
گلگت میں وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ کے سامنے احتجاجی مظاہرے کے دوران بھی مذاکرات ہوئے لیکن ناکامی کے بعد سینئر صحافیوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے چیف کورٹ میں ایک درخواست گزاری چیف جسٹس چیف کورٹ نے درخواست کو منظور کرتے ہوئے اگلے دن ڈی آئی جی کو طلب کیا جس کے بعد آئی جی پی نے کمیٹی سے مذاکرات کی پیش کش کی مذکارات کے دوران میری بلا مشروط رہائی پر آمادگی اور میری رہائی کے بعد احتجاج کو ختم کیا گیا۔جبکہ اسی رات یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ میں نے ڈی آئی جی سے معافی مانگی ہے ۔میں ایک بار پھر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری گرفتاری کے بعد یہ معاملہ میرا ذاتی نہیں پریس کلب اور یونین آف جرنلٹس کے سپرد تھاا ور معافی تلافی سمیت تمام تر معاملات کو دیکھنے کا مجاز دونوں تنظیمیں تھیں میں کسی سے معافی تلافی کا مجاز بھی نہیں تھا اور میں یہاں یہ بھی واضح کروں کہ معافی اس وقت مانگی جاتی ہے جب آپ کو قصوروار ٹہرایا جائے یا آپ غلطی پر ہوں اس واقعے کی نہ تحقیقات ہوئی ہیں اور نہ ہی غلطی کا تعین ہو چکا ہے ایسے میں معافی مانگنے کا کوئی جواز نہیں بنتا بہر حال میں اپنے کئے پر شرمندہ نہیں میں نے مظلوموں کی آواز بننے کی کوشش کی ہے میں نے مکمل ایمانداری ، دیانتداری اور نیک نیتی کے ساتھ ایک مسئلے کی طرف حکام کی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے اور میں مطمئن ہوں کہ اللہ کے حضور سرخرو ہو جاﺅں گا کیوں کہ اس میں کسی قسم کی مصلحت یا مفاد شامل نہیں ۔
اس تحریری کے اختتام پرآئی جی پولیس سے ایک ہی سوال کرنے سے پہلے میں ایک بات واضح کروں کہ پولیس ریکروٹمنٹ ٹریننگ سنٹر میں میرا کوئی دور پار کا رشتہ دار تک نہیں اور نہ ہی میرا ڈی آئی جی کے ساتھ کسی قسم کی دوستی ہے نہ دشمنی ۔۔۔۔۔ایسے میں ، میں نے ایک پوسٹ ان کے خلاف لگائی تھی فرض کریں اگر میں نے غلط بھی کیا تھا تو پولیس نے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ صحیح اور قانون کے مطابق تھا۔آئینی و قانونی ماہرین کے مطابق پولیس کا اقدام بالکل غلط اور خلاف قانون تھا اور بوکھلاہٹ تھی۔اگرقانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں بکھیر دیں تو آپ عام شہری سے قانون کی پاسداری کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں ؟