ہنزہ نیوز اردو

کیا گلگت بلتستان میں تحریک انصاف حکومت بنا پائے گی؟

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

محمد شراف الدین فریادؔ
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاو ل بھٹو زرداری گلگت بلتستان کے اضلاع استور، سکردو اور گھانچھے کے دورے کرکے چلے گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی قائدین جن میں سکریٹری جنرل عامر محمود کیانی، بابر اعوان اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی افتخار گیلانی شامل ہیں نے بھی گلگت بلتستان کا رخ کرلیا۔ اُنہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی طرح بڑے عوامی اجتماعات تو نہیں کئے البتہ صوبائی دارالخلافہ گلگت میں پی ٹی آئی کی سکریٹریٹ میں ایک کارنر میٹنگ ضرورہوئی جس کی اندرونی کہانی یہ ہے کہ تین یا چار مرلہ پر محیط مذکورہ سکریٹریٹ بھی کارکنوں سے بھرا ہوا نہیں تھااور قابل غور بات یہ بھی تھی کہ اس چھوٹی سی کارنر میٹنگ میں بھی پی ٹی آئی کے بیشتر مقامی رہنماؤں اور ورکروں میں سخت باہمی اختلافات کی موجودگی کا رنگ نظر آرہا تھا۔ ہمارے اپنے ذرائع نے بتایا کہ اس کارنر میٹنگ میں جب مرکزی قائدین کو روایتی ٹوپی پہنانے کا مرحلہ آیا تو پارٹی کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ سمیت دوسرے مقامی لیڈروں نے خود تو یہ فرض نبھایا مگر پارٹی کے صوبائی جنرل سکریٹری فتح اللہ خان کو اس کی زحمت تک نہیں دی گئی بلکہ یہاں تک کہ سٹیج سکریٹری نے مرکزی قائدین کے سامنے ان کانام لینا بھی گوارا نہیں کیاجس پر فتح اللہ خان کے بعض حمایتی ورکروں نے سخت برہمی ظاہر کی تو اسٹیج سکریٹری کو صرف اتنا کہنا پڑاکہ ” یہاں پر سکریٹری جنرل فتح اللہ خان بھی موجود ہیں ” پھر اگلے روز اسی سکریٹریٹ میں ہی کارکنوں کے دوگروپوں کے مابین منہ ماری اور یہاں تک کہ ہاتھا پائی کے واقعات بھی سامنے آئے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک گروپ کے ورکر گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کی مخالفت میں اس تک گئے کہ گو گورنر گو تحریک چلانے کی دھمکیوں تک اُتر آئے تھے تاہم بعد اذاں انہیں ٹھنڈا کرادیا گیااور مقامی رہنماؤں کی طرف سے بیانات بھی آگئے کہ پی ٹی آئی کے نئے صدر کے چناؤ کے بعد یہ تمام تر اختلافات اب ختم ہوگئے ہیں مگر پارٹی کے مرکزی قائدین کے گلگت آمد کے موقع پر اور ان کی موجودگی میں وہی اختلافات پھر نظر آنے لگے جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پارٹی کے نئے صدر سید جعفر شاہ صاحب بھی صحیح طریقے سے کارکنوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں اور صوبائی سکریٹری جنرل فتح اللہ خان نے سید جعفر شاہ کی قیادت میں بھر پور اعتماد کا روایتی بیان تو دیا ہے مگر دل سے انہیں ہرگز قبول نہیں کیا ہے۔ ورکروں اور رہنماؤں میں باہمی اختلافات ہر پارٹی میں موجود ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ” ن” اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مذہبی سیاسی جماعتوں کے ورکروں اور رہنماؤں میں بھی باہمی اختلافات موجود ہیں مگر پارٹی مفاد کے لیے ان میں باہمی اختلافات کو برداشت کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ مگر پی ٹی آئی کے نہ تو کسی ورکر میں وہ صلاحیت نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی لیڈر میں برداشت کا مادہ ہے۔ اب ایسے حالات میں پی ٹی آئی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ صاحب یہ کہتے ہیں کہ 2020؁ء کے الیکشن میں ان کی جماعت جی بی بھر سے الیکشن جیتے گی اور وہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوکر نیاگلگت بلتستان بنائیں گے۔ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی تبدیلی آئے گی، گلگت بلتستان صوبہ بنے گا، موجودہ وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے جی بی کے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے جبکہ امجد حسین ایڈوکیٹ حق حاکمیت اور حق ملکیت کے نام پر عوام کو گمراہ کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔بے شک شاہ صاحب ایک معزز اور سینئر سیاست دان ہیں جو ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر گلگت کے حلقہ نمبر۳ سے دو مرتبہ منتخب بھی ہوئے تھے اور کئی برسوں تک پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے بھی صوبائی صدر رہنے کے ساتھ عدلیہ کے جج بھی رہے ہیں۔ ان سے ہمارا ایک سوال ہے کہ کیا نیا پاکستان اور نیاریاست مدینہ کے اثرات گلگت بلتستان پر بھی مرتب نہیں ہوں گے؟ غربت، مہنگائی اور گرتی ہوئی پاکستانی معیشت کو دیکھ چکے ہوئے جی بی کے عوام نیا گلگت بلتستان کا نعرہ اور تبدیلی کے نعرے کو کیسے قبول کریں گے۔۔۔؟ جہاں تک گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی بات ہے تو پاکستان کے کس آئین میں لکھا ہوا ہے کہ اس کے لیے ان کا وزیر اعلیٰ بننا ضروری ہے۔۔۔؟مرکز ہی کا کردار اس میں بہت اہم ہوتا ہے اور مرکز میں الحمداللہ پہلے سے پی ٹی آئی کی حکومت بنی ہوئی ہے اور پھر اداروں کے ساتھ بھی ان کی اچھی ریلیشن شپ ہے وہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا اعلان کرسکتی ہے۔ پھر یہ کہنا کہ موجودہ وزیرا علیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن کی کارکردگی صفر ہے جی بی کے عوام کیسے قبول کریں گے۔ بہتر یہی ہوتا کہ آپ نے دس سال منتخب ہوکر اپنے حلقے کی عوام کی جو خدمت کی ہے اس کا ذکر کرتے اور عوام کا اعتماد حاصل کرنے والے اپنے سابقہ ترقیاتی منصوبوں کا حوالہ دیتے اور مذید تبدیلی لانے کا دعویٰ کرتے۔ حافظ حفیظ الرحمٰن صاحب تو پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ وہ آئندہ الیکشن کارکردگی کی بنیادپر لڑیں گے اگر ان کی کارکردگی صفر ہے تو عوام کو بھی فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ بہتر ہوتا کہ آپ (جعفر شاہ) اپنی کارکردگی کامقابلہ موجودہ وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کے ساتھ کرنے کا اعلان کرتے۔ اگر امجد حسین ایڈوکیٹ حق حاکمیت اور حق ملکیت کے نام پر عوام کو گمراہ کررہے ہیں تو آپ بھی ماضی میں اسی پی پی پی کے صوبائی صدر رہ چکے ہیں کم از کم بتادیتے کہ آپ نے بحیثیت صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ سے کئی گُنا بہتر کام کیا ہے۔ میر ے خیال میں یہی زیادہ بہتر ہوتا ورنہ یہ نیا پاکستان + نیا گلگت بلتستان + نیا ریاست مدینہ + نئی تبدیلی جیسے نعروں پر یہاں کے عوام اعتبار کریں گے اس کے امکانات نظر نہیں آتے ہیں۔ بہر حال جی بی کی عوام کے ذہنوں میں یہی تاثر بھی بٹھا دیا گیا ہے کہ عوامی ووٹ سے ہٹ کر ایک طاقت کے ذریعے گلگت بلتستان میں بھی آئندہ پی ٹی آئی کی حکومت بنائی جائے گی، جس کا شور شرابہ بھی خود پی ٹی آئی والے ہی سب سے زیادہ کررہے ہیں اور دیگر جماعتوں اور عوام کو بھی اس حوالے سے خدشات تو ہیں مگر معتبر حلقوں کا یہی کہنا ہے کہ خطے کی حساسیت کے باعث گلگت بلتستان میں ایسا ہر گز نہیں ہوگا بلکہ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدرانہ الیکشن ہوں گے اور لوگ خود اپنی مرضی کی حکومت منتخب کریں گے۔ کیا اس صور ت میں باہمی انتشار کا شکار پی ٹی آئی خطے میں اپنی حکومت بنا پائے گی یا پھر کارکردگی کی بنیادپر ” ن” لیگ ہی ایک بار پھر میدان مارے گی۔ اندر کی کہانی یہ بھی ہے کہ اس دفعہ بلاول بھٹو زرداری نے خطے کا وزیر اعلیٰ بلتستان ریجن سے لانے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ اس صور ت میں ممکن ہے کہ پی پی پی بلتستان کے حلقوں میں زیادہ اثر دکھاسکتی ہے۔ لیکن ڈیولپمنٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلم لیگ “ن” کے بھی اس ریجن کے عوام کے لیے بڑی خدمات ہیں اور امجد حسین ایڈوکیٹ کے حق حاکمیت اور حق ملکیت کا نعرہ بلاول بھٹو زرداری کے واضح اشارے پر کتنا بھاری ہوگا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

 

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ