ہنزہ نیوز اردو

کھٹارہ بسیں اور خطے میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گلگت بلتستان میں پبلک ٹرانسپورٹ کے بڑھتے ہوئے حادثات نے صوبے کے ہرذی شعورانسان کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے بابوسر حادثے کے بعد تو ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے کہ گلگت بلتستان چلنے والی ان کھٹارہ بسوں میں کب تک موت کا یہ کھیل جاری رہے گا حالانکہ بابوسر حادثے کو شروع میں ڈرائیور کی غفلت کہا گیا مگر اصل حقیقت تو عینی شاہدوں کے مطابق چلی کہ بس کا ایکسیل حادثے والی جگہ سے کئی میٹر دور ٹوٹ کر روڈ میں گرا پڑا تھا ڈرائیور نے بس کو حادثے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس کھٹارہ بس کا ایک اہم پرزہ ہی راستے میں گر گیا ہے تو ایسے میں یہ المناک حادثہ تو ہونا ہی تھا اس سے قبل گاہکوچ سے روالپنڈی جانے والی(نیٹکو)کی بس جگلوٹ کے قریب حادثے کا شکار ہوئی جس میں دو قیمتی جانیں چلی گئی اور کئی افراد زخمی ہوگئے جبکہ گزشتہ سال کوہستان میں غذر سے روالپنڈی جانے والی کوسٹر دریا برد ہوئی یہ کوسٹر بھی کھٹارہ تھی اس حادثے میں دو درجن انسانوں کی جانیں چلی گئی مگر پھر کیا ہوا حکمرانوں کی جانب سے بیان آیا کہ حادثے کی تحقیقات کرائی جائیگی یہ حادثہ کیسے رونما ہوا ایک سال گزرنے کے باوجود بھی حقائق سامنے نہیں آئے گلگت بلتستان میں جہاں پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کی ناکارہ اور خراب بسیں گلگت روالپنڈی روٹ پر چل رہی ہیں تو وہاں پر نیٹکو کی بسیں بھی ایسی ہیں جن کی حالت دیکھ ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان میں منافع پر چلنے والی اس سرکاری ٹرانسپورٹ کواخر کیا ہوگیا کہ ان کی کئی بسیں ایسی ہیں جو گلگت روالپنڈی تو دور کی بات ہے لوکل روٹ پر چلنے کے قابل نہیں مشہ بروم بس کا جوالمناک حادثہ پیش آیا اس پر گلگت بلتستان کا ہر شخص خون نے آنسو روتا ہے کہ اخر اس طرح کی کھٹارہ بسوں کو اس روٹ پر چلنے کی اجازت کس نے دی کیا اس بس کو اس روٹ پر چلنے کے لئے روٹ پرمٹ جاری کیا گیا تھا کیا اس بس کا کبھی فزیکل فٹنس کیا گیا تھا اگر نہیں تو اس کا زمہ دار کون ہے اب آتے ہیں گلگت بلتستان کی لاجواب سروس اور باکمال لوگ (نیٹکو) کی طرف (ناردرن ایریا ٹرانسپورٹ کارپوشن) اس ادارے کوخطے کے عوام کے لئے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ایک تحفہ تھا جب گلگت بلتستان کے عوام کو 1972میں آمد ورفت کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا تھا اور علاقے کے عوام کی اس تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے نیٹکو کا ادارہ قائم کیا اور اس ادارے کو باقاعدہ سرکار کی طرف سے سالانہ اچھا خاصہ بجٹ بھی مختص کر دیا گیا اس وقت یہاں کی سڑکیں کشادہ نہیں تھی اس وجہ سے پک اپ نامی چھوٹی گاڑیاں چلائی جانے لگی جب یہ خطہ ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگا تو اس ادارے کے لئے بڑی مقدار میں بسیں خرید ی گئی اور اس وقت گلگت بلتستان میں نیٹکو کے ادارے کے پاس سینکڑوں کی تعداد میں بسیں اور ٹرک موجود ہیں اگر گلگت بلتستان میں اس ادارے کے ساتھ سب سے زیادہ تعاون کی بات کی جائے خطے کے عوام اب بھی اس ادارے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں مگر اس ادارے نے یہاں کے عوام کے ساتھ ان کی تعاون کا تحفہ امتیازی سلوک سے دینا شروع کر دیاہے یہ امتیازی سلوک آج سے نہیں ہے گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے اچھی بسوں کو روالپنڈی اور کراچی روٹ پر لگا دیا گیا اور کھٹارہ بسوں کو گلگت روٹ پر جو خطے کے عوام کے ساتھ سراسرناانصافی ہے ایک طرف کروڑوں روپے سالانہ حکومت کی طرف سے گرانٹ ملتی ہے پھر بھی یہ ادارہ نقصان میں ہی چلا جارہا ہے اور اس ادارے کے ساتھ اگر سب سے زیادہ تعاون کی بات کی جائے تو وہ ضلع غذرہے مگر ادارہ کے پاس کوئی بھی کھٹارہ بس ہو تو اس کو غذر روڈ پر لگایا جاتا ہے وہ کیسے قارئین کرام وہ ایسے۔
جب روس پر افغانستان نے حملہ کر دیا تو بڑی تعداد میں افغان مہاجرین نے پاکستان کا رخ کر دیاتھا اور بیرونی ممالک سے بھی بڑی تعداد میں ان افغان مہاجرین کے لئے امداد کا سلسلہ جاری رہا اور جرمنی نے ان افغان مہاجرین کو راشن پہنچانے کے لئے بڑی تعداد میں ٹرک پاکستان کو تحفہ پر دیدیا جب افغانستان میں حالات بہتر ہونے لگے اورمہاجرین کی واپسی شروع ہوئی تو جرمنی کی طرف سے دیئے گئے یہ ٹرک کوئٹہ کے علاقے میں بے کار پڑے تھے وفاقی حکومت نے یہ ٹرک بیکار رکھنے کی بجائے نیٹکو کے حوالے کر دئیے نیٹکو نے شروع شروع میں ان ٹرکوں میں روالپنڈی سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لئے گندم کی سپلائی شروع کی جب ان میں لوڈ اٹھانے کی ہمت نہ رہی اور یہ ٹرک ضیف العمرہوئے تو نیٹکو کے حکام نے ان کو کباڑ کرنے کی بجائے ان ٹرکوں کے اوپر چھت لگواکر ان کو بسوں کی شکل میں تبدیل کر دی اور ان ٹرک نما بسوں کی سروس گلگت سے چترال کے لئے شروع کردی اور اب بھی گلگت اور چترال کے درمیان ان (ٹرک نما) بسوں کی سروس جاری ہے البتہ ان کی سروس کیسی ہے یہ تو وہ سواری ہی بتا سکتے ہیں کہ ایک مال برادر ٹرک کو بس میں تبدیل کیا جائے تو اس کی سواری کیسے ہوتی ہے مگر نیٹکو کے حکام نے تاحال ان ٹرک نما بسوں کو تبدیل کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اور اب تک غذر اور چترال کے عوام ان کھٹارہ اور آثار قدیمہ جیسے بسوں پر سفر کرنے پر مجبور ہیں جب مشہ بروم حادثہ رونما ہواتوسرکاری حکام نے ان ٹرک نما بسوں کو اپنے قبضے میں لیکر ان کی سروس بند کر دی ہے دوسری طرف گلگت بلتستان کا ضلع غذر صوبے کے بڑی اضلاع میں سے ایک ہے مگر یہاں سے روالپنڈی کے لئے چلنے والی بسوں کی قابل رحم حالت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ غذر کے عوام کے ساتھ نیٹکو کے حکام کا رویہ کتنا مخلصانہ ہے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ایسی بسوں کو غذر سے روالپنڈی کے لئے لگایا گیا ہے جو غذر سے گلگت چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں بابوسر روڈ کی چڑھائی پر ان کے انجنوں سے اتنا دھواں نکل جاتا ہے کہ پورے صاف ماحول کو ان کھٹارہ بسوں کا دھواں آلودہ ہوتا ہے اور ان بسوں کے انجن بیٹھ گئے ہیں جہاں چڑھائی آجائے وہاں سواریوں کو اتار دیا جاتا ہے اور مسافر پید ل تو کھٹارہ بس دھواں چھوڑتے ہوئے مشکل سے بغیر سوار کو بیٹھائے چڑھائی کراس کر جاتی ہے بسوں کی باہر کی حالت دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آثار قدیمہ میں رکھنے والی ان بسوں کوغذر سے روالپنڈی روڈپر چلانے کی اجازت دینے والے وہ کون سے لوگ ہیں جو انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں بس کی باڈی کے نصف حصے پر باقاعدہ دیواروں پر کیا جانے والا پالسٹرلگایاگیا ہے اور اس کے باوجود بھی ان بسوں کو غذر سے روالپنڈی چلنے کی اجازت ہے شاید نیٹکو کے حکام کسی بڑے حادثے کے انتظار میں ہیں تاکہ کوئی اورحادثہ ہوجائے اس کے بعد اس ادارے کے حکام کو ہوش آجائے غذر کے عوام نے ہر وقت نیٹکو کے ساتھ تعاون کیا مگر اس ادارے نے یہاں کے عوام کی شرافت کا غلط فائد ہ اٹھایا دوسر ے علاقوں سے واپس ہونے والی ان کھٹارہ بسوں کو غذر سے روالپنڈی روڈ پر لگا دیا ہے اخر یہ ادارہ کب تک یہاں کے عوام سے ان کی شرافت کا امتحان لیتارہے گا اور کب تک یہا ں کے عوام اس ادارے کے اس سلوک پر خاموش رہیں گے حالانکہ غذر سے روالپنڈی کے لئے پرائیوٹ بسوں کی بھی سروس ہے مگر یہاں کے عوام نیٹکو کو ترجعی اس لئے دے رہے ہیں کہ اس ادارے کو شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت قائم کر دیا تھا جب یہاں کے عوام کے پاس آمد ورفت کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی اج بھی یہاں کے عوام اس کو بھٹو کی ایک نشانی سمجھ کر اس سروس پر سفر کرنے کو ترجعی دیتے ہیں مگر نیٹکو کے حکام جو مزاق یہاں کے عوام کے ساتھ کر رہے ہیں وہ نہ صرف قابل مزمت ہے بلکہ متعلقہ محکمے کے لئے باعث شرمندگی بھی ہے وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے عوام کو بہترین سفر ی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے اس ادارے کوگرانٹ بھی دیتی ہے مگر اچھی بسوں کو گلگت بلتستان کے عوام کو فراہم کرنے کی بجائے ان بسوں کو روالپنڈی، لاہور اور کراچی روڈ پر لگا دیا گیا ہے مشہ بروم کی بس کوبابوسر میں جو المناک حادثہ پیش آیا ہے اس باقاعدہ طور پر تحقیقات کرانا وقت کی ضرورت ہے کب تک یہ پبلک ٹرانسپورٹ انسانی جانوں سے کھیل لینگے اور اس لاپر واہی اور غفلت میں جو بھی ملوث نکلے اس کو قرار واقعی سزا دی جائے فزیکل فٹنس کے بغیر پبلک ٹرانسپورٹ کو چلانے والی بس سروس کو لائسنس منسوخ کیا جائے ساتھ ساتھ یہ بتانا ضرور ہے کہ گلگت بلتستان اور روالپنڈی کے درمیان چلنے والی رینٹ اے کا ر پر بھی حکومت نظر رکھے اس روٹط پرچلنے والی کاریں بھی کئی حادثات کا شکار ہوئی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جو ڈرائیور اگر گلگت بلتستان سے روالپنڈی پہنچتا ہے اگر سواری مل جائے تو بغیر آرام کئے گلگت بلتستان کی طرف روانہ ہوتا ہے جوانسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے اخر میں فورس کمانڈر گلگت بلتستان ڈاکٹر احسان محمود خان کا شکر یہ یہ بہادر جنرل نے جب یہ واقعہ رونما ہو اتو سب سے پہلے جائے وقوعہ پہنچ گئے نہ صرف اس حادثے والی جگہ کا معائنہ کیا بلکہ زخموں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر ہیلی کاپٹر تک پہنچایا فورس کمانڈر ناردرن ایریاز نے واقعی میں گلگت بلتستان کے عوام کا دل جیت لیا ہے پاک آرمی زندہ باد۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ