اسکردو شہر کے بالکل دامن میں ہی کھرپوچو قلعہ ہے. اسکردو شہر کے مرکزی اڈے پر اترتے ہی کھرپوچو قلعہ نظر نواز ہوجاتا ہے. کوئی شخص اسکردو جائے اور قلعہ کھرپوچو نہ دیکھیں ، وہ بد ذوق ہی کہلائے گا. کھرپوچو قلعہ کی تاریخی حیثیت مسلم ہے. کھرپوچو قلعہ پہاڑی چٹان پر ایستادہ ہے.
“کھرپوچو قلعہ” اپنے دل و دامن میں ہزاروں تاریخی و تہذیبی داستانیں اور نشیب و فراز کی دلدوز، دردناک، المناک اور خوشگوار یادیں سمویا ہوا، صدیاں گزرنے کے باوجود بھی رعب و دبدبہ کیساتھ کھڑا ہے. یہ الگ بات ہے کہ حالات کے تھپیڑوں نے اسے خستہ حالی کے عالم انتہا پر پہنچا دیا ہے.
پانچ روزہ مختصر دورہ اسکردو میں کام، پروفیشنل ذمہ داریاں اور دیکھنے کی جگہیں بہت زیادہ تھی مگر کھرپوچو قلعہ دیکھے بغیر واپس آنا اچھا بھی نہیں تھا اور بدذوقی بھی . یوں ہم نے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق قلعہ کھرپوچو کے لیے رخت سفر، پیدل ہی باندھ لیا، کیونکہ کھرپوچو تک گاڑی کے جانے کا سوال ہی نہیں تھا. پروفیسر اعجاز احمد، لیکچرار انصار احمد اور اپنے اُسکین برادرم محمد بشیر کی معیت میں کھرپوچو قلعہ تک کی چڑھائی چڑھنے لگے. برادرم انصار کی طبیعت ناساز تھی مگر وہ ہمارا دل رکھنے کے لئے حسب پروگرام ساتھ چل دیے. لیکچرار محمد بشیر نے بھی ترتیب کے مطابق ہمیں جوائن کیا. یوں ایک خوشگوار ماحول میں کھرپوچو کی طرف رواں ہوئے.
راستے میں ہم کھرپوچو کا ماضی کریدتے رہے. راجاؤں ، مہا راجاؤں اور رانیوں اور مہا رانیوں کی طلسمی کہانیوں سے محظوظ بھی ہوتے رہے. احباب بتا رہے تھے کہ کھرپوچو بلتستان کی عظمت و جلال کا امین بھی ہےاور شکست و ریخت کا چشم دید گواہ بھی. اپنی ذات میں شاندار تاریخ رکھتا ہے اس لیے اسے قلعوں کا بادشاہ بھی کہا جاتا ہے.
کھرپوچو قلعہ کے متعلق بلتستان کے معروف مصنف محمد حسن حسرت لکھتے ہیں:
“اکثر مورخین کے مطابق یہ قلعہ مقپون بوخا(1490ء تا 1515ء) کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا اور(1588ء تا 1625ء) کے دوران مقپون راجہ علی شیر خان انچن نے اسے مزید وسعت دی جب کہ بعض مغل مورخ اس کی تعمیر کا سہرا خود علی شیر خان انچن کے سر باندھتے ہیں۔
قلعہ کھرپوچو کی دیواریں لکڑی کے فریم ورک کے ساتھ پتھر کی بنی ہوئی تھیں جسے مقامی زبان میں “ٹھٹھر” کہتے ہیں۔ صدر دروازہ “سینگے ستاغو” یعنی شیر دروازہ کہلاتا تھا جس پر شیر ببر کی تصویریں منقش تھیں۔ بہر حال اس قلعہ کی پر سکوت دیواریں صرف لکڑی، پتھر ، گارے اور لیپ سے ہی مرتب نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ایک طرف مقپون حکمرانوں کی ہیبت و جلالت کی تاریخ رقم ہے تو دوسری طرف ان دیواروں میں وطن اور قوم کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے “بلتی یل” کے سینکڑوں سرفروشوں کے خون کی آمیزش بھی ہے۔ قلعہ کھرپوچو نے اہل بلتستان کی مسرت و شادمانی کے نغمات بھی سنے ہیں اور پر اسرار سازشوں کی مدہم مدہم سرگوشیاں بھی۔ بارہ خاندانوں کی موروثی وزارت تفویض کرنے کا فیصلہ بھی اسی قلعے میں ہوا تھا اور تبت پورانگ سے لیکر گلگت و چترال تک کے علاقوں کو زیر و زبر کرنے کے احکامات بھی یہیں سے جاری ہوے تھے۔ ایران کے صفوی بادشاہوں کے ساتھ سفارتی تعلقات اور ہندوستان کے مغل شہنشاہوں کے ساتھ ازدواجی رشتوں کے معاملات بھی اسی میں طے ہوتے رہے اور پھر ڈوگروں کے ہاتھوں خانوادہ مقپون کا شیرازہ بھی اسی قلعہ میں بکھر گیا۔ یوں اس تاریخی قلعے نے مقپون تاجداروں کے اقتدار کا سورج ابھرتے ہوئے بھی دیکھا اور ڈوبتے ہوئے بھی۔ گویا قلعہ کھرپوچو بلتستان کی تاریخ کا عینی شاہد اور تہذیب وتمدن کا ایک اہم باب ہے۔
کھرپوچو قلعہ دراصل سات منزلہ عمارت پر مشتمل تھا جس میں نشست و برخاست کےلئے دیوان عام اور دیوان خاص موجود تھے۔ اس میں جہاں خواتین کے لئے زنان خانے تھے وہاں کارکنوں کے لئے الگ سکریٹیریٹ بھی قائم تھا۔ جہاں آلات حرب رکھنے کے لئے توشہ خانہ بنا ہوا تھا وہاں خودسر اور نا فرمان رعایا کی عبرت کے لئے تنگ و تاریک زندان بھی تھے۔ ہیئت اور جائے وقوعہ کے اعتبار سے یہ قلعہ ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا اور اسے جبرالٹر سے تشبیہ دیتے تھے۔ آخر تاریخ نے کروٹ بدلی اور1842 میں سقوط بلتستان کے بعد ڈوگروں نے اسے مسمار کردیا اور اس وقت صرف باہر کی دیوار قدیم عمارت کی یاد گار ہے. “.
کھرپوچو قلعہ کی تعمیر و تزئین بلتستان کے مقپون راجاوں کا تاریخی کارنامہ تھا اور آج کے جدید دور کے انجینیئروں، آرکیٹیکٹ اور ماہرین تعمیرات کے لئے بہت بڑا چیلینج بھی ہے.فن تعمیر کے ایسے شاہکار دیکھ کر شاید آج کے جدید آرکیٹیکٹ اور انجینئرز بھی منہ میں انگلی دابے رہ جاتے ہونگے.
ہم کھرپوچو قلعہ کی طرف جاتے ہوئے اسکردو شہر کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے. دائیں بائیں کے مناظر عاشقانہ تھے. دلی کیفیات بے ترتیب ہورہی تھی. قلعے کے راستے میں بہت سارے جوڑے خرامے خرامے چل رہے تھے. کمر میں ہاتھ ڈالے ہرنی کی چال چلنے والے یہ جوڑے دلوں کو بلڈوز کرنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں . ایسا لگ رہا تھا کہ ہنی مون منانے آئے ہیں. ہنی مون نہ بھی منائے تو کچھ جوڑوں کی ساری زندگی ہنی مون کی طرح گزرتی ہے اور کچھ ہنی مون والے ایام میں بھی خزاں خزاں کی کیفیت میں ہوتے ہیں.
قلعہ بہت ہی اونچائی پر پہاڑی ٹیلے میں واقع ہے. پورا اسکردو صاف نظر آرہا ہے. اسکردو شہر بہت وسیع ہے. قلعہ کے ہیبت ناک دروازے کے پھاٹک کیساتھ کئی تصاویر لی، شیر دروازے پر انتہائی غلیظ لباس میں ملبوس ایک بوڑھا شخص کھڑا تھا جس نے ہم سے ڈھائی سو روپے اینٹھ لیے. واپسی پر قلعہ کے متعلق ہم نے اس کو سمجھانے کی کچھ کوشش بھی کی مگر وہ پورا پورا پھندا خان تھا. کم از کم کوئی ڈھنگ کا بندہ تو رکھا جائے. غیر ملکی اور ملکی سیاح قلعہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ایسے بے ڈھنگے شخص کو دیکھ کر کیا محسوس کرتے ہونگے.
میں نے کئی قلعے دیکھے ہیں. حالیہ سفر میں شگر کا قلعہ بھی دیکھ لیا ہے. شگر کا قلعہ دیکھ کر، راجہ شگر کو داد دیے بغیر نہ رہ سکا، مگر راجہ اسکردو کو خاک داد دیا جاسکے. کھرپوچو قلعہ میں داخل ہوتے ہی ایک شدید جھٹکا لگا. اتنی خستگی اور بیچارگی…؟ مجروحی کی ایسی کیفیت تو تورا بورا کی بھی نہیں ہوئی ہوگی جہاں امریکہ نے سینکڑوں خطرناک زہریلے بم گرائے ہیں. اس قلعہ کے بارے بہت سنا تھا اور کتابوں میں پڑھا بھی تھا، جب دیکھنے کا موقع ملا تو شدید مایوسی ہوئی. آجکل قلعہ کی حالت بیان سے باہر ہے. ہر جگہ سے ٹوٹا ہوا ہے. صدیوں پرانا قلعہ اب تک اپنی اصل حالت میں ہے مگر قلعہ کے مکینوں اور متولیوں نے اس کے ساتھ جو بدسلوکی کی ہے وہ دیکھ کر بہترین اسلاف کے بدترین اخلاف کا گمان ہوا.
سات سو سال پہلے بنا قلعہ فن تعمیر کا ایک انتہائی حسین شاہکار ہے. ڈیڑھ سو سال قبل ڈوگروں نے اس کے ساتھ جو زیادتی کی تھی اسے زیادہ برا سلوک گزشتہ 70 سال میں اپنوں نے کیا ہے. قلعہ کے اندر ایک مسجد ہے جو مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے. نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود نہیں. مسجد کی بیچارگی دیکھ کر رونا آیا.کاش! کہ ان کو معلوم ہوتا کہ ایک دفعہ مسجد قائم ہونے کے بعد، قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے مگر دل کی دنیا سے خالی لوگ اس کیفیت اور مسئلہ کو کیا محسوس کریں. دل اتنا خراب ہوا کہ قلعہ کو دیکھنے اور اسکردو شہر کے مناظر سے جو فرحت اور لطف آیا تھا وہ لحظوں میں کر کرا ہوگیا. کاش کہ قلعہ کھرپوچو اور اس کی ٹوٹی پھوٹی مسجد کو ہی نہ دیکھتا.
پروفیسر اعجاز، انصار احمد اور محمد بشیر بھی قلعہ کی حالت دیکھ کر انتہائی مایوس تھے. میں اور بشیر قلعہ کے ہر ہر چبے سے گزرے. اوپر تک گیے اور خوب تصویر کشی کی. بشیر نے وہی سے پورے اسکردو شہر کا تعارف بھی کروایا. قلعہ کے اوپری لان میں کچھ خواتین تشریف فرما تھی. انتہائی آرامدہ انداز میں مٹی پر بیٹھی ہوئی تھی. گپیں ہانک رہی تھی. ان کے ساتھ چائے کا بڑا تھرموس تھا اور اشیائے خوردونوش بھی. چائے پیالوں میں لبالب بھری ہوئی تھی اور لب سوز کا منظر تھا. عصر کا وقت تھا، چائے کی چاہ بھی تھی مگر ان سے کہنے کی ہمت نہیں ہوئی اور ان ظالموں نے بھی چائے نوشی کی دعوت ہی نہیں دی.چائے پیتے ہوئے قہقہے بھی لگا رہی تھی. شاید قلعہ کی بیچارگی کیساتھ ہماری بے بسی پر ہنس رہی ہوں کہ ہم چائے پینا چاہتے ہیں اور ان سے مانگ بھی نہیں سکتے. ویسے ہی کہا جاتا ہے کہ خواتین بڑی نرم دل ہوتی ہیں مگر حقیقت میں ایسا کچھ نہیں. کم از کم میرے تجربات تو برعکس ہیں. قلعہ کے اندر کئی ملکی سیاح اور دولہے اپنی نئی نویلی دلہنوں کے ساتھ موجود تھے. وہ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس قلعے کا حال تو عاشقوں کے اجڑے دیار سے بھی بدتر ہے.
بہرحال قلعہ کی شان و سطوت کی کہانیاں شاید قصہ پارینہ بن چکی ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ شہر کے وسط میں اتنا عظیم ورثہ اس خستگی کا شکار ہے. کئی سال پہلے چلاس قلعہ اور گوپس قلعہ بھی دیکھا تھا، ان کی حالت بھی اس سے بہت بہتر تھی. چلاس قلعہ پر تو پولیس نے قبضہ کررکھا ہے مگر کھرپوچو قلعہ پر تو شاہد الووں کا قبضہ بھی نہ ہو. اس قلعے کے متولیوں سے اتنی سے گزارش ہے کہ یہ قلعہ صرف آپ کے باپ دادا کو سطوت کی نشانی نہیں، یہ پوری قوم کا ورثہ ہے. پلیز اس کے ساتھ انصاف کیجئے. میرے دل میں بہت ساری تجاویز آرہی ہیں مگر میں کوئی تجویز نہیں دونگا، صرف اتنا عرض کرونگا کہ خدارا! تھوڑی سی عقل کا مظاہرہ کیجیے. بلتت، التت، شگر اور خپلو فورٹ کا صرف ایک وزٹ کیجیے اور پھر اس عظیم تاریخی قلعہ کو بھی اسی انداز میں بحال کیجیے. سالانہ کروڈوں کی آمدن بھی ہوگی. سینکڑوں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور تاریخ اور ورثہ محفوظ بھی ہوگا. ایک بات یہ بھی سننے میں آئی ہے کہ راجہ اسکردو سے یہ قلعہ فوج کے پاس چلا گیا ہے. اگر یہ روایت درست ہے تو ان کو چاہیے کہ قلعہ کھرپوچو کو قلعہ بالا حصار پشاور کی طرح محفوظ بنا لیں