کوہستان حادثات کے اسباب اور قابو پانے کے ممکنہ حکمت عملی۔ کوہستان حادثات اکثر متوفین اور پسماندہ گان کے لئے درد ناک اور کربناک ثابت ہوئے ہیں۔ موت بر حق ہے مگر انسانی عقل استعمال کر کے زندگی کو خطرات سے حتی الامکان محفوظ رکھنے اور سہل بنانے کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ڈرائیور غیر ذمہ دار ہو تو سامنے والی سے آگے نکلنے کی کوشش کر کے خطرہ مول لینے کو بہادری سمجھتا ہے۔ یہ اسکی چھوٹی اور محدود سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دربارہ گاڑی کا نمبر حاصل کرنے زیادہ کمائی کے لالچ میں زیادہ تیز رفتاری سے چل کر خود کو اور باقی مسافروں کی زندگی داؤ پر لگا دیتا ہے تب حادثات وقوع ہوتے ہیں۔ ایک بڑی ممکنہ وجہ دوران ڈرائیونگ منشیات کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ اور مشاہدہ میں آیا ہے کہ کوہستان میں بہت زیادہ ٹریفک حادثات ہو رہے ہیں اگر کوہستان کے علاقے کو ڈیتھ زون کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس پہلو کو نظر انداز کرنا نہیں ہوگا۔ ہو سکتا ہے سڑک کی تعمیر میں ایسی کوئی عنصر ہو جس کی نشان دہی کر کے متعلقہ ادارہ سے درست کروایا جا سکتا ہے۔ اس کا حل اس طرح ہے کہ اسمبلی میں جن کو ہم ووٹ دیکر بھیجتے ہیں وہ قانون بنائیں اور متعلقہ ادارہ قانون پر عمل داری یقینی بنائے۔ لانگ ڈرائیو لائسنس دیتے وقت اہلیت کے کڑی شرائط وضع کی جائیں۔ سنجیدہ حضرات کو لائسنس دی جائے۔ گاڑی کی فزیکل فٹنس اور تیکنیکی معیار کو یقینی بنایا جائے۔ سڑک اور مختلف علاقوں کے حالات کو مد نظر رکھ کر سپیڈ لمٹ مقرر کی جائے۔ جس کی جانچ جدید مشینری و آلات سے کی جائے۔ ٹریفک کا نظام پرائیویٹ سیکٹر میں دی جائے تو بہتر ہوگا۔ سڑک پر تعینات عملہ تربیت یافتہ ہو۔ جو ڈرائیور غلطی کرتا ہے بھاری جرمانہ کیا جائے۔ تین بار غلطی کرنے تک مہلت دی جائے۔ چوتھی بار غلطی کرنے پر لائسنس منسوخ کر کے نا اہل قرار دیا جائے۔ چالان کو شناختی کارڈ سے منسلک کی جائے۔ اور اس کے غلطیاں شناختی کارڈ میں ہمیشہ کے لئے جھلکتی رہے۔ اس غلطی کرنے والا بندہ کو بنک لون دینے شامل نوکری یا کاروباری سہولیات دیتے وقت محدود کیا جائے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہ کرنے والے کو معزز شہری کا خطاب نہ دیا جائے۔ بہت سارے اقدامات اٹھائے جا سکتے جیسے کہ کفر کے ممالک میں رائج ہیں۔ کفر کے انسانی زندگی کو آسان بنانے والے قوانین مسلمان ممالک میں بھی ہونا چاہئے۔ بہتر نظام زندگی یقینی بنانے کے لئے قانون سازوں کو امریکہ یورپ کے دورے کرانا چاہئے تاکہ انکا بہتر نظام دیکھ سکیں اور وہی ہم بھی اپنے ملک میں رائج کر سکیں۔

مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ