کووڈ کی وبا نے ایک اور نفیس انسان ہم سے چھین لیا۔ گزشتہ روز محترم کلب علی اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ ان کی عمر 93 سال کےلگ بھگ تھی۔ وہ کریم آباد ہنزہ سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے انتہائی محنتی اور بلا کے دیانتدار لیکن انتہائی کم گو انسان تھے۔ انہیں شکار اور کوہ نوردی کا شوق تھا جو چند سال پہلے تک جاری رہا۔ دو تین سال پہلے میں نے ان سے شوق کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے صاحب اب وہ دم نہیں رہا پر دل تو اب بھی کرتا ہے۔
بقول غالب
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے۔
بچپن میں پڑھنے کے لئے وہ اپنے بڑے بھائی کے پاس ممبئی گئے لیکن کچھ عرصے بعد بھائی کی جان لیوا بیماری کے باعث انہیں واپس آنا پڑا جس کا انہیں افسوس تھا۔ تاہم انہوں نے فوجی ملازمت میں بھی سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔ اس وجہ سے ان کا شمار اپنے زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ برصغیر کی تاریخ پر اچھی گرفت رکھتے تھے۔ میں نے ان سے انڈین نیشن آرمی اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کے بارے میں بھی سنا جو آج کی نصابی تاریخ سے اوجھل کردئے گئے ہیں۔ وہ توہمات اور رجعت پسندی کے سخت مخالف تھے۔اس لحاظ سے وہ ترقی پسند تھے۔ وہ ایک اچھے سماجی خدمت گار بھی تھے اور گاوں اور برادری کے سماجی فلاحی سرگرمیوں میں بے لوث حصہ لیتے تھے۔ گو میرے ان سے خاندانی مراسم بھی تھے لیکن مجھے کچھ سالوں کے لئے ایک فلاحی ادارے میں ایک ساتھ ملازمت کرنےکا موقع بھی ملا جس میں میں نے انہیں ناقابل یقین حد تک دیانتدار انسان پایا۔
یہ ان کی محنت مشقت کا کمال تھا کہ وہ پیرانہ سالی میں بھی جسمانی اور زہنی طور پر چاق و چوبند رہے۔ انہوں نے پس ماندگان میں تین صاحبزادیاں چھوڑی ہیں۔ میری ان سے آخری ملاقات کچھ مہینے قبل ہوئی تھی لیکن اس منحوس وبا کی وجہ سے پھر ان سے مل نہیں سکا اور وہ وہاں کوچ کر گئے جہاں سے کوئی لوٹتا نہیں۔ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔