سمجھ نہیں آرہا کہ آذاد کشمیر کے حکمران اپنی تمام ترغلطیوں اور کوتاہیوں کو ایک طرف رکھ کر گلگت بلتستان کی خودمختاری کے حوالے سے دشمنی پر کیوں اُتر آتے ہیں انکا جارحانہ رویہ اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا بھلے ہی بدل جائے لیکن کشمیری حکمرانوں کے خیالات نہیں بدلنے والے ہیں اور انکا یہ رویہ اس وقت مسلہ کشمیر کی حل کے حوالے ایک قابل افسوس ایشو ہے کیونکہ اقتدار کے نشے میں مست یہ لوگ چاہتے ہی نہیں کہ مسلہ کشمیر کا قضیہ کسی نہج پر پونچے۔ چوہدری مجید کا گلگت بلتستان کے حوالے سے حالیہ بیان پرہونا تو چاہے تھا کہ چوہدری کا گریبان ہو اور گلگت بلتستان کے عوام کا ہاتھ مگر ایسا ممکن نہیں۔ لہذا چند باتیں عوام کی طرف سے پرنٹ میڈیا کی وساطت سے چوہدری مجیدکی نذر کرنا چاہوں گا تاکہ اُنہیں بھی معلوم ہو کہ وہ کتنا پانی میں ہے۔عجیب صورت حال ہے کہ جب کبھی وفاق گلگت بلتستان کے میں منہ میں ایک اضافی ٹافی ڈالنے کی بات کرتے ہیں تو آذاد کشمیر کے حکمران جو اپنے داخلی مسائل کی حل کیلئے تو کچھ کر نہیں سکتا ،مقامی مسائل پر بحث کے دوران تو خراٹے لیتے ہوئے اسمبلی ہال میں سو رہے ہوتے ہیں لیکن جب کسی نے گلگت بلتستان کا نام لیا تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی نے اُن کو زہریلا انجیکشن لگایا ہو۔ خود کو ریاست جموں کشمیر کی حق خودارادیت کا امین کہلانے والے چوہدری مجید اور دیگر نام نہاد لوگ مسلہ کشمیر کی حل کیلئے کتنا مخلص ہے یہ تو انکی انداز شہنشاہی سے معلوم ہوتا ہے لیکن انکا گلگت بلتستان کے معاملے میں بلاوجہ چیخیں مارنا خود انکی صحت کے حوالے سے بھی اچھی بات نہیں کیونکہ سُنا ہے کہ موصوف بلڈ پریشر کا مریض بھی ہے اس مرض کیلئے کم سے کم ٹینشن لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔اور اگر پھر بھی آپ اپنی بیماری کی پراہ کئے بغیر ریاست جموں کشمیر کی فکر لاحق ہے تو براہ کرم سب سے پہلے جموں جائیں اور وہاں کے خودمختار صوبائی نظام کو ختم کرکے اُنہیں بھی آذاد کشمیر کی طرز پر ریاستی نظام دلوانے کیلئے بھارت سرکار کے ساتھ طاقت آزمائی کا مظاہرہ کریں۔دوسری بات یہ تو حکومت پاکستان کہ مہربانی ہے کہ پاکستان نے آذاد کشمیر کو اپنے مفاد میں ایک ریاستی نظام دیکر آپ جیسے لوگوں کو وزیراعظم بننے کا موقع دیا ہوا ہے جنکے پاس فیصلہ سازی کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیںآج آپ کو جو رُتبہ بطور وزیراعظم حاصل ہے بلکل یہی مرتبہ ہمارے وزیر اعلیٰ کا بھی ہے بس دل جوئی کیلئے وزیراعظم کا نام رکھنے سے کوئی وزیراعظم نہیں بنتا اصل چیز اختیار اور ریاستی فیصلے کرنے کی مجاز ہونے کا ہوتا ہے جو کہ نہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کو حاصل ہے نہ آذاد کشمیر کے وزیر اعظم کو، یعنی دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔اگر واقعی میں آپ کو 75لاکھ کشمیریوں کی مستقبل کا فکر لاحق ہے تو سب سے پہلے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر قوم پرستوں کے ساتھ ملکر ریاستی حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلنے ہونگے معذرت کے ساتھ ایک ہی پلیٹ میں تخت اور ریاست کا ملنا ناممکن کام ہے۔چلیں یہ سب باتیں بھی غلط مانتے ہوئے گلگت بلتستان کو نومبر انیس سنتالیس سے پہلے کی حیثیت پر برقرار رکھتے ہوئے ،کرنل حسن خان کو گلگت بلتستان کو قومی لیڈر ماننے سے انکار کرکے ،یکم نومبر کو یوم آذادی گلگت بلتستان منانے کے دن کو بھی جھوٹ سمجھ کر،کرنل حسن خان کو اپنے ہی ساتھیوں کی طرف سے دی جانے والے دھوکے کو وقت کی ضرورت مان کر،سردار ابراہیم کو ریاستی امور سنبھانے کیلئے دعوت دیکر سلوٹ مارنے والوں کو لیڈر قبول کرتے ہوئے ،معاہدہ کراچی کو گلگت بلتستان کی بھی ضرورت سمجھ کر سوال کروں کہ جناب ناکام بغاوت اور معاہدہ کراچی کے بعد وہ کونسا کشمیری رہنما ہے جنہوں نے ایک دن گلگت میں قیام کرکے ریاست کے بیس لاکھ عوام کے مسائل کی طرف توجہ دی ہو؟ بدقسمتی سے تاریخ میں کوئی شواہد نہیں ملتا۔ کہاں تھے کشمیری حکمران جب وفاق پاکستان اس خطے سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کرکے ریاست کو مکمل طور پر پاکستان میں شامل کرنے کی پہلی بار کوشش کی تھی؟ کیا وجہ تھی کہ معاہدہ کراچی کے بعد آپ نے ریاست گلگت اور بلتستان کو آذاد کشمیر کے صوبے کا درجہ نہیں دیا شائد آپ لوگوں نے تو یہی کہاتھا کہ ہم سے اٹھائیس ہزار مربع میل کا نظام سنبھالا نہیں جائے گا لہذا پاکستان گلگت بلتستان کے معاملات کو اپنے پاس ہی رکھیں۔عجیب بات ہے نہ کوئی تاریخی خدمت نہ کوئی رشتہ بس سیاسی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے ہر وقت ہمارے حقوق پر سودا بازی کرنے کیلئے ،تیار عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام۔لیکن یہاں مجھے کشمیری نام نہاد منشیوں کی سازشوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کی خاموشی پر بھی ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے دو ہزار نو پیکج کے بعد سے لیکر آج تک ہمارے حکمران صرف مقامی پرنٹ میڈیا پربیان برائے ضرورت دیکر مفادات کے سمندر میں غرق نظر آئے۔آج قاری حفیظ نے بھی سابقہ حکومت کی پالیسی کو جاری رکھتے ہوئے اخباری بیان تو دے دیا لیکن دوسری طرف انہی لوگوں کی آشیرباد حاصل کرنے وازرت کی بند بانٹ جہاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہتھوڑی،کسان کے ہاتھ میں قلم کی ذمہ داریاں سونپنے سے فرصت نہیں اور ویسے بھی قاری سرکار سے گلگت بلتستان کی حقوق کیلئے کسی قسم کی خیر کا توقع کرنا بھی نہیں چاہئے جس طرح مہدی شاہ نے پانچ سال کرسی گھما گھما کر گزار دیا بلکل یہی حال قاری کا بھی ہے کیونکہ یہ کرسی پہلی بار ملی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ اگلی باراس نے دھوکہ دینا ہے، لہذا کرسی سب سے اچھا کے فارمولے پر ہی گامزن رہیں گے ۔اللہ کرے میری سوچ اور تجزیہ جھوٹ ثابت ہو اور قاری کے اندر قومی جذبہ ابھر کر آئے اور تخت سے ہٹ کر قوم کی مستقبل کے بارے میں سوچنے کی توفیق عطا فرما کر کم ازکم ایک بار کشمیر اسمبلی جاکر اپنا احتجاج ریکارڑ کرنے کی ہمت عطا کریں اور کہیں جناب اب بہت ہو گیا یہ بے تکی بیانات دینے کے بجائے اپنے معاملات پر توجہ دیں تو کشمیری قوم پر بڑا احسان ہوگا ۔قاری صاحب سے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے اخباری بیان میں فرمایا کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبائی نظام یا آذاد کشمیر کے طرز پرنظام دیا جائے بلکل یہی مطالبہ عوام کا بھی ہے اور ریاستی ضرورت بھی لہذا اس نظریئے کو قومی ضرورت سمجھ کر ہر پلیٹ فارم پر بار بار دھرانے کی ضرورت ہے ۔ ورنہ اگلے پانچ سال میں جب وفاق میں جب نواز لیگ کی حکومت نہیں ہونگے تو آپ اور آپکی پارٹی کا حال بھی مہدی شاہ اور پیپلز پارٹی کے جیسے ہونگے گے لہذا یہ ایک چانس ہے پارٹی انجیکشن سے بڑھ کر اپنے کردار سے قومی لیڈر بن کر دکھانے کا۔ اللہ ہم سب کو قومی حقوق کی جنگ میں ذات پات مسلک مذہب اور علاقائیت سے ہٹ کر کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
از۔شیر علی انجم