جوں جوں انسان ترقی کرتا گیا تو مختلف چیزوں کو ایجاد کرتا گیا جو اس کے کام کو آسان کرے۔ اسی طرح پرانے زمانے میں لوگ گھوڑوں پر ایک جگہے سے دوسری جگہ سفر کرتے تھے ، وقت لگتا تھا لیکن سکون و اطمینان سے مسافر اپنی منزلوں تک پہنچتے تھے پھر گھوڑے کی جگہ گاڑی بس ، ٹرین جہاز اور موٹر سائیکل نے لے لیا ، گھوڑے کے نسبت لوگ موٹر سائیکل ، گاڑی اور بس میں جلدی اپنے منزل تک پہنچنے لگے لیکن جوں جوں پیسے عام ہوئے اور لوگوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو ہر کسی نے اپنے لیے گاڑی اور موٹر سائیکل لینے شروع کیا ، ٹریفک کے قوانین کو سمجھے بغیر لوگ موٹر اور گاڑی کو سڑکوں پر لانے لگے جن کو نہیں معلوم کہ ٹریفک قوانین کیا ہیں ؟ ڈرائیونگ کس طرح کرتے ہیں ، ان سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں ، ایسے لوگوں کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو گیا ، ہر جگہ ٹریفک جام اور ہر چوک پر ٹریفک حادثات رونما ہوتے ہیں ، اور ان ہی حادثات کی نظر ہو کر نوجوان بچے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ، اسی طرح اگر ہم گلگت بلتستان میں ٹریفک حادثات کی بات کریں تو سب سے پہلے ہمیں شاہراہ قراقرم کے بارے میں معلوم ہونا ضروری ہے کیوں کہ یہ ہی وہ قاتل شاہراہ ہے جس پر روز کوئی نہ کوئی جان کی بازی ہار جاتا ہے ۔
شاہراہ قراقرم پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔ اسے قراقرم ہائی وے اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ چین کےصوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے۔
قراقرم ہائی وے کی دیکھ بھال نیشنل ہائے وئے اتھارٹی اور محکمہ نقل و حمل سنکیانگ (چین)لمبائی:1,300 کلومیٹر (800 میل) اور پاکستان: 887 کلومیٹر (551 میل)کے کے ایچ کی تعمیر کا منصوبہ ( 1966) کو شروع ہوا اور ( 1986) کو یہ شاہراہ کی تکمیل کا منصوبہ مکمل کیا گیا ۔ اس کو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے۔ ۔
قراقرم ہائی وے وہ قاتل شاہراہ ہے جہاں گلگت بلتستان بہت زیادہ حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں بہت سے لوگ لوقمہ اجل بن گئے ہیں ، آئے روز کے کے ایچ پر حادثے سمجھ سے بالاتر ہیں اور سوالیہ نشان ہیں ، یہاں کس کی غلطی ہے ۔
ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں میں جب بائیک یا گاڑی ائے ہے تو وہ کے کے ایچ پر سفر کے لیے نکلتے ہیں ، بے احتیاطی ، حد سے زیادہ خود اعتمادی اور حد سے زیادہ سپیڈ پر چلاتے ہیں جن کو نہیں معلوم وہ اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں ، اور کبھی کبھی حادثہ کا شکار بھی ہوتے ہیں اور بچ جاتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کی یہ غلطی اور سفر ان کی زندگی کی آخری غلطی اور آخری سفر ثابت ہوتی ہے ۔ کتنے درد کی بات ہے جب جوان بیٹے کی درد ناک حادثے کی خبر والدین کو ملتی ہے ، یہ وہ درد ہے جو والدین کے علاؤہ کوئی نہیں محسوس اور سمجھ سکتا ، میری ان نوجوانوں سے گزارش ہے کہ جو اور سپیڈ کرتے ہیں ، جو موٹر سائیکل کو ایک پائیے پر چلا کر فخر محسوس کرتے ہیں وہ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کر رہے ہوتے ہیں ، وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ اللّٰہ نہ کرئے ان کو کچھ ہوگا یا حادثہ ہوگا تو ان کے والدین کا کیا حال ہوگا ؟
کیا آپ لوگ عقل وشعور نہیں رکھتے ؟ کیا آپ لوگوں کے آنکھوں پر پٹی بندی ہوئی ہے ؟
آخر کیوں ہمارے نوجوان آئے روز ٹریفک حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے ، آخر کب تک ہم اپنے نوجوانوں کو اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دیتے دیکھیں گے ؟ کیوں ہمارے نوجوانوں کو نظر نہیں آتا کیوں ان کو اپنی جان عزیز نہیں۔
ہاں آپ کو اللّٰہ تعالٰی کو گاڑی یا موٹر سائیکل کے سہولت سے نوازا ہے تو خدا کے لیے اس کا مثبت استعمال کریں نہ کہ منفی استعمال کریں ، اور خود کی اور دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں ۔
گلگت بلتستان میں حادثات اس وقت بھی زیادہ ہوتے ہیں جب پاکستان کے مختلف شہروں سے سیاح گلگت بلتستان آتے ہیں اور غیر زمہ داری اور بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں ، ان کو لگتا ہے شہر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی ڈرائیونگ آسان ہے لیکن درحقیقت نئے آنے والے سیاح گلگت بلتستان کے سڑکوں سے ناواقف ہوتے ہیں اور یوں آج کل آئے روز سیاحوں کی گاڑیوں کے ساتھ حادثات پیش آنے کی خبریں زیادہ موصول ہوتی ہیں ۔ ان سیاحوں کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بھی ٹریفک کا رش بڑھ جاتا ہے اور شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
دوسری طرف گلگت شہر سول سپلائی سے کے آئی روڈ جو کہ کچھ ماہ قبل ری میٹل کیا گیا ہے جس پر کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کئے گئے ہیں ، کوئی سپیڈ بریکر نہیں جس کی وجہ سے آئے روز حادثات رونما ہو رہے ہیں جس کی شکایت مقامی لوگوں نے کی تھی اور ان حادثات اور قمیتی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے سپیڈ بریکر لگانے کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ۔
یاد رہے ہاتھ میں سٹرینگ آیا تو گاڑی یا موٹر سائیکل کو سڑک نہیں لانا چاہیے ، پہلے اچھی طرح چلانا سکیں پھر ٹریفک قوانین کے بارے میں معلومات حاصل کریں ، ہلیمنٹ پہنیں ، پھر سڑک پر نکلیں ۔۔۔۔۔۔