آج میں اپنے تحریر میں سیدھے سادے الفاظ میں گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل کا ذکر کروں گی کیا گلگت بلتستان کے عوام کو پینےکا صاف پانی میسر ہے ؟؟ ، بجلی کا نظام بہتر ہے کیا ؟؟تعلیم کا نظام اور صحت کے شعبے میں انقلاب برپا ہواہے کیا؟؟؟ ۔۔۔۔
سب سے پہلے بات کرتی ہوں پینے کا صاف پانی کا گلگت کے عوام کو کیسا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔۔۔۔
پانی ۔
اگر میں گلگت بلتستان میں پانی کی بات کروں تو گلگت بلتستان کے دارالخلافہ گلگت میں لوگ پینے کے پانی کے لیے خوار ہیں ، لوگ بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں ، برمس واٹر چینل،کنوداس واٹر چینل اور دنیور واٹر چینل جہاں سے گلگت شہر اور دنیور کے 90فیصد علاقے کو پانی فراہم کیا نا رہا ہے ، جس کی حالت زار قابل بیان نہیں ، ان واٹر چینلز اور ٹینکیوں کو دیکھ کر ہمیں یقین نہیں آتا ہے کہ ہمیں کتنا گندہ پانی پلایا جارہا تھا ، اس پانی کے مسئلے پر میں نے ایک ویڈیو رپورٹ اور ایک دو تحریر بھی لکھ چکی ہوں ، یاد رہے گندے پانی کی وجہ سے گلگت میں ٹائفائیڈ کی بیماری بہت پھیلی تھی ، ایک سرکاری ادارے نے اس خبر کو تصدیق بھی کی تھی گلگت بلتستان تو بہت بڑا علاقہ ہے ، گلگت شہر جو مکمل طور پر پانی فراہم نہیں کر سکی آج میرے اپنے گھر میں بدقسمتی سے کہنا پڑرہا ہے کہ پینے کا صاف پانی ہمیں پینے کے لئے میسر نہیں ، لیکن ہاں جٹیال میں ایک دو منصوبوں کے تحت کافی محلوں کو صاف پانی فراہم کیا گیا ہے اگر دیکھا جائے تو پانی کے مسئلے پر حکومت نے 10 فیصد کام کیا 90 فصید لوگ پانی کے لیے دربدر ہیں ۔
بجلی ، پانی کے بعد ہم بات کرتے ہیں بجلی کی تو دیکھا جائے تو سردیوں میں دن میں دو سے تین گھنٹے بجلی دی جاتی ہے ، کہا جا رہا ہے کہ اس سال بجلی کی بد ترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا ہر سال سردیوں میں نئے بجلی گھر کی تعمیر کی نوید سنائی جاتی ہے مگر ہر سال گزرجاتا ہے لیکن بجلی گھر کی تعمیر مکمل نہیں ہوتا لیکن ہر سال بجلی سردیوں میں اپنا دیدار کراتی تھی اور آج گرمیوں میں بھی دن میں4سے 5 گھنٹے دن میں لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ، ان دریاؤں اور چشموں کے پانی سے ہم پاکستان کو بجلی دے سکتے ہیں لیکن ہماری حکومتوں کی عدم توجہی ، نااہلی کی وجہ سے ہم خود اتنے وسائل ہونے کے باجود بجلی کے لیے ترس رہے ہیں ، کب لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گئی ، آخر ہمارے ساتھ مزاق کیو کیا جارہا ہے ؟ بجلی کے بےشمار منصوبوں کا نام کاغذوں میں سننے کو ملتا ہے مگر عملی طور پہ دیکھا جائے گلگت بلتستان میں بجلی کی بد ترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔ضلع غذر ۔۔ضلع ہنزہ ضلع دیامر میں گرمیوں میں بجلی کی انکھ مچولی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔
صحت ، بجلی پانی کے بعد بات آتی ہے صحت کے شعبے کی آئے روز ڈاکٹرز سڑکوں پر خوار اور مریض ہسپتالوں میں خوار ہوتے رہے ،قانون کی بالادستی کہی نظر نہیں آئی ، ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی نے مریضوں کو بہت تنگ کیا ، ہاں صحت کارڈ کے زریعے کچھ لوگوں کو فائدہ ہوا لیکن یہ منصوبہ بھی کرپشن کا شکار ہوا ، بڑے بڑے لوگوں کو صحت کارڈ فراہم کیا گیا جو غریب نہیں تھے ۔ اور کورونا کے فنڈز کو جس طرح بے دردی سے ہڑپ کرلیا گیا جس کی جتنی بھی آفسوس کی جائے کم ، ایک طرف فنڈز کو اپنے جیبوں میں منتقل کرتے رہے اور دوسری طرف میڈیا کے سامنے وفاق سے فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتے رہتے ۔۔۔۔ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کے باعث کئی قیمتی جانیں اللہ کو پیاری ہوئی لیکن اس کے باوجود بھی حکمران ٹس سے مس نہیں ہوئے۔۔۔۔ہسپتالوں کی نئی عمارتیں تو کھڑی کر دی گئی مگر ان خوبصورت عمارتوں میں سٹاف کی کمی کا سامنا ہے
پانی ، بجلی ، صحت اور تعلیم ہر غریب کی ضرورت اور ہر شہری کا حق ہے ، تعلیم اور سکولز کو دیکھیں تو ، نلتر کا سکول ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ گلگت بلتستان میں نہیں بلکہ سندھ کے علاقے ، تھر کے علاقے میں ہو نلتر کے اس سکول میں لوگ اپنے مال مویشی کو باندھتے ہیں ، علاقے میں تعلیم کا کوئی بہتر انتظام نہیں ،کارگاہ میں بھی سکولز کی صورتحال قابل رحم حال میں ہے اسی طرح گلگت بلتستان میں آپ کو ایسے ویران اور نامکمل سکولز ملیں گے ۔ لیکن مسلم لیگ ن کی حکومت جو یہ اعزاز جاتا کہ ان کے دور حکومت میں گورنمنٹ سکولز کے بچوں کو مفت کتابیں فراہم کی گئی اور ہر سال 10 کے قریب سکولز کو ماڈل سکول بنانے کی منظوری دی گئی مگر 5سالوں میں صرف 10 سکولز کو ہی ماڈلز سکول بنانے میں کامیاب ہوئے جس سے غریب بچوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کافی حد تک مدد مل رہی ہے ۔
گلگت میں سڑکوں کی بات کریں ، گلگت شہر کے بیشتر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ، گلگت کی سڑکیں مال روڈ کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن اگر سڑکوں کی بات کریں تو مسلم لیگ ن کے دور کے آخری ایام میں صرف حلقہ 2 کی سڑکوں کو میٹل کیا گیا جس سے عوام کو کافی سہولت ملی ۔ اس کے علاؤہ ہر گھر اور ہر محلے میں کچرا اٹھانے کے لئے ویسٹ منیجمنٹ کی گاڑی اتی ہے اور کچرہ لے جاتی ہے ۔۔۔مگر کچرابھی صرف مین روڈز سے اٹھائے جارہے ہیں ۔۔۔۔آگر گلگت شہر میں ٹریفک کی بات کی جائے تو ۔۔ٹریفک کا نظام سرے سے ہی موجود نہیں ٹریفک اہلکاروں کی کمی اور ہر چوک چوراہوں میں ٹریفک اہلکاروں کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں ۔۔۔گلگت شہر میں آئے روز ٹریفک میں اضافہ ہو رہا ہے گاڑیوں کے غلط پارکینگ کے باعث ٹریفک جام رہنا معمول بن گیا ہے ۔۔۔۔ٹریفک کو کنٹرول کرنے اور ٹریفک کو بہتر بنانے کے لئے نہ حکومت نے اس طرف توجہ دی نہ ہی محکمہ پولیس نے ۔۔۔۔
یوں صوبائی دارالحکومت گلگت ہر قسم کے مسائل کا امجگاہ بن چکا ہے ۔۔۔۔کسی بھی حکومت نے صوبائی دارالحکومت گلگت کی ترقی یہاں کی خوبصورتی اور عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے ۔۔۔۔
آخر میں جمشید دکھی کی ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہوگی ۔۔۔۔۔۔
بدل دے خو امیر وقت ورنہ
سبق اقبال کے شاہین دینگے
نہ بجلی دے سکے آدھی صدی میں
وہ حاکم کیا ہمیں آئین دینگے ۔۔۔۔