اس دلکش موسموں میں جھومنا چاہتی ہوں ان سرسبز پھولوں کے ساتھ مچلنا چاہتی ہوں اس برفیلے پہاڑوں کی سیر کرنا چاہتی ہوں ہو اس خوبصورت اور حسین وادیوں میں ایک پرندے کی طرح اڑنا چاہتی ہوں فقط انسان ہوں پر انسان پھر ایک عورت ہو پر عورت نہیں نہیں۔سنا ہے دنیا بہت دلفریب اور خوبصورت ہے پر ناآشنا ہوں خود سے جفا اور لوگوں سے خفا ہو۔البتہ قدرت کے تخلیقات سے برگزیدہ ہوں ، پر اپنے آپ میں مگن اور اپنے آپ میں اندر کسی کی نہیں ہوں ایسی ہوں میں ویسی ہو عورت ہو۔اپنے لیے نہیں دوسروں کے لئے جیتی ہوں اور مرتی بھی دوسروں کے لئے ہو۔
میری و حسین و جمیل آنکھیں جو امیدوں سے بھری اور آنسوؤں سے بھری ہیں اور وہ ہاتھ جو مسلسل مصروف اور مگن رہتی ہے جو تھک نہیں جانتے بس اپنے اولاد کی خاطر جو دنیا میں سب سے انمول ہوتی ہے میرے لیے۔ایک مخلوق کو اچھا انسان بناتی ہوں اپنی اولاد کو سینے سے لگا کر پیار کرتی ہو۔میرا دل تو موم کی طرح نرم ہے دنیا کے لاکھ اختلافات اور دکھ کے باوجود میں آنسو پوچھ کر مسکراتی ہوں ۔
بچپن میں اپنے والد کی سر کی تاج بنتی ہو اور اپنے شوہر کی عزت و وقار بنتی ہوں ۔کبھی کبھی شوہر کے دیئے ہوئے تکلیفات کو نظر انداز کر کے دل کو کھلا رکھتی ہوں میں وہی عورت ہوں مجھ سے جڑے ہر ایک کا خیال رکھتی ہوں دل میرا موم کی طرح پگھل جاتا ہے اپنے بھائی کے آنسو اور باپ کی بے بسی پر فقط بے بس جن کے لئے میں کبھی کبھی ایک عجیب مخلوق ہو ،وہی میں عورت ہوں۔دنیا میں سب سے بڑی احساس کرتی ہوں جب میں ماں بنتی ہوں میرے احسان بے حساب ہوتے ،میں وہی عورت ہو بے مثال قربانیاں دیتی ہوں اپنے اپنوں کے لئے پر میں کسی کی اپنی نہیں ہوتی بچپن میں والدین کہتے ہیں کسی اور گھر کی ہے اور سسرال والے کہتے ہیں کسی اور کی ہے مجھے خود نہیں پتہ کس کی ہو وہی عورت ہوں۔میری زندگی مختصر اور بہت پیچیدہ ہے خود سے حیران ہوں میں ایسی کیوں ہو فقط عورت ہوں۔ایک مخلوق کو خود سے خودی شکل دیتی ہوں اپنے حصے میں سے اسے پہچان د یتی ہوں اور کبھی تکلیف نہیں ہونے دیتی پرچھائیں ہو ۔
دنیا کے لوگ کہتے ہیں عورت بہت بڑی عذاب ہے پر دیکھا جائے تو عورت وہ ہے جس کے لیے دنیا بنی۔ بیٹی ہر گھر میں نہیں ہوتی ایسے جیسے پھول ہر ایک کی آنگن میں نہیں کھلا کرتے۔ میں نفرت بھی اتنی کرتی ہوں جتنی محبت اور میں وہی عورت ہوں۔میرے ظلم و ستم کی انتہا ہوتی ہے پر دل میں کسی کے لیے بھی بقغ نہیں رکھتی بس دل میں ہی رکھتی ہوں اور مسکراتی ہوں۔
مجھے باپ قتل کرتا ہے بھائی گولی مار دیتا ہے اور باپ کو میں بچپن میں ہاتھوں سے کھانا کھلایا کرتی اس کے بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتی ہوں اور وہ بھائی جس سے میں دل و جان سے چاہتی ہوں وہی میرے وبال جان بنتا ہے۔افسوس کرتی ہوں معاشرہ کے لوگوں پر جو عزت غیرت سب مجھ سے جوڑ کے بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کی خبر نہیں انہیں۔تو وہ معصوم ہنستی ہو جو ہر تکلیف میں مبتلا چیز کو نجات دلاتی ہوں وہی عورت ہوں میں اس رنگ برنگی دنیا میں آزاد بھی قید ہوں۔اگر سوچتی ہوں کہ اس زمانے کے قابل نہیں ہوں یا زمانہ میرے قابل نہیں ہے ۔میرے بہت سے شکلیں ہیں اچھے بھی اور برے بھی پر ہر شکل میں موجود ہو سہارے کی محتاج و جو قدرت نے مجھے مکمل بنایا ہے یا نامکمل قدرت صحیح جانتا ہے میں وہی بے بس عورت ہوں۔کمزور نہیں صرف بہادر بھی ہو میرے کندھوں پر بوڑھے والدین کا سہارا بھی اور شوہر کی ہمت بھی ہو ں۔عورت ہوں میں آزاد ہوں میں ایک ایسے پرندے کی مانند ہوں جس کو قید میں رکھ کر آزادی کے دلاسے دیتے ہیں جو آزادی کے ہزار خواہشات رکھتی ہے اور آخر میں ایسی پنجرے میں اس کی موت ہو جاتی ہے میں وہ عورت ہوں۔
میں اپنے ماں اور باپ کے سانسوں میں بسی احساس ہوں اور ماں کے محبت کا انداز ہوں بیٹی بھی ہوں ماں بھی ہوں وہی عورت ہوں ۔ان مردوں کی شان ہوں جو عورت دل سے عزت کرتے ہیں۔دین اسلام سے جوڈی ایک حسین شخصایت ہوں اور اسلام کی تابیدار ہوں الحمدللہ۔