اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے، گلی، محلہ، خاندان اور واقف گھرانوں کا جائزہ لیجیے، آپ پر انکشاف ہو گا کہ ان میں سے چند ہی گھرانے ہیں جن کے تمام افراد پاکستان میں مقیم ہیں، ورنہ تقریباً ہر گھر کا کوئی ایک فرد ترک وطن کر چکا ہے بعض تو پورے کے پورے کنبے ہی پردیس سدھار چکے ہیں۔ گویا ایک جنون ہے، مہم ہے، تحریک ہے ’’اب نکلو پاکستان سے۔‘‘ یورپ، امریکا اور آسٹریلیا میں بسیرے کے لیے کوئی اپنی تعلیم، صلاحیت اور مہارت کو سہارا بناتا ہے تو کوئی وہاں مقیم اپنے رشتے داروں کے آسرے پر کوشاں ہوتا ہے اور ایسوں کی بھی کمی نہیں جو کسی گرین کارڈ ہولڈر یا کسی اور مغربی ملک کی شہری سے شادی کے ذریعے اپنی منزل پانے کا خواہش مند اور اس کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ہمارے نوجوانوں میں کے دل و دماغ میں یہ خیال پوری طرح جاگزیں ہو چکا ہے کہ سکون اور راحت تو پردیس میں ہے، ’’یہاں کیا رکھا ہے۔‘‘ پردیس کا مذہب اور معاشرت جدا ہے تو کیا فرق پڑتا ہے، وہاں اجنبی بن کے رہنا پڑے تو کیا حرج، بس جیب میں اس دیس کی کرنسی ہونی چاہیے، تا کہ عیش و آرام کی زندگی گزاری جا سکے۔
شادی کے ذریعے بیرون ملک جانے کے لیے کنوارہ ہونے کی بھی شرط نہیں۔ ایسے لاتعداد مرد ہیں جنہوں نے شادی شدہ ہونے کے باوجود ’’پیپر میرج‘‘ کی اور پردیس میں بس کر اپنا مستقبل سنوار لیا۔ کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقدہ ایک نمائش میں شریک ہونے ہمارے ایک قریبی عزیز ’’ورک ان ملائیشیا‘‘ کے اسٹال پر گئے، جہاں انھیں ملائیشیا کے بارے میں تمام معلومات فراہم کی گئیں کہ وہاں کس طرح بزنس سیٹ کیا جا سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ انھوں نے یہاں وہاں سے پیسے اکٹھا کر کے ملائیشیا کا ٹکٹ کٹوایا اور پردیسی ہو گئے۔ موصوف شادی شدہ ہی نہیں چار بچوں کے باپ بھی تھے، لیکن باہر جا کر کچھ تو کرنا تھا، سو جب انھیں پتہ چلا کہ ملائیشیا میں خواتین پیسے لے کر ’’پیپر میرج‘‘ کی سہولت فراہم کرتی ہیں، تا کہ ملائیشیا میں رہتے ہوئے امیگریشن کے مسائل سے نمٹا جا سکے، تو انھوں نے وہاں شادی کر لی، بزنس کیا اور آج ایک کام یاب زندگی گزار رہے ہیں۔ بس کام یابی منزل ہے، چاہے اس کے لیے پیپر میرج کا غیر قانونی اور غیر اخلاقی راستہ ہی کیوں نہ اپنانا پڑے۔
بیرون ملک جا کر مستقبل سنوارنا اور زندگی بنانا یوں تو تقریباً ہمارے ہر نوجوان کا خواب ہے، مگر باصلاحیت، ذہین اور پروفیشنل افراد کی آنکھوں میں اترنے والا یہ سپنا پورا ہو کر ہمارے ملک کو رفتہ رفتہ محنت اور ذہانت کے اثاثے سے محروم کر رہا ہے۔ درحقیقت ہر شخص اپنے لوگوں اور اپنے ماحول میں رہنا چاہتا ہے، یہ حالات ہوتے ہیں جو اسے ترک وطن پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ہمارے لوگ بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہیں اور مجبور ہو گئے ہیں کہ اپنا دیس چھوڑ کر بیرون ملک رہائش اختیار کی جائے۔ بیرون ملک جانے والے وہاں کوئی آسان زندگی بسر نہیں کرتے، وہ بہت مشکل روز و شب گزارتے ہیں۔ بڑی محنت اور تگ و دو کے بعد وہ مقام حاصل ہوتا ہے جس کی آرزو لے کر انھوں نے ہجرت کی تھی، اور بہت سوں کے تو خواب چکنا چور بھی ہو جاتے ہیں۔ اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ محنت پاکستان میں رہ کر کیوں نہیں کی جا سکتی جس کے ذریعے ہمارے لوگ دیگر ممالک میں زندگی بناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جو صورت حال ہے اس میں محنت اور مشقت کا سفر اکثر کولہو کے بیل کی دائرے میں گردش بن کر رہ جاتا ہے۔
امن و امان کی صورت حال کے باعث روزگار کے مواقعے کی کمی بلکہ نایابی، سرکاری اداروں میں اقربا پروری اور ملازمتوں کی فروخت جیسے مسائل اپنی جگہ، اس سب کے ساتھ ہمارے یہاں لوگوں کو ملازمت پر رکھنے کا معیار بھی عجیب و غریب ہے۔ ہمارے ملک کے نجی اداروں میں عموماً ’’ٹین ان ون‘‘ کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس شخص کو ملازمت دی جائے جو بیک وقت آٹھ دس کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ یعنی وہ تعلیم یافتہ بھی ہو، تیکنیکی صلاحیت کا بھی حامل ہو اور انتظامی معاملات بھی سنبھال سکتا ہو۔ چنانچہ اکثر اداروں میں ایک ہی شخص مختلف نوعیت کے دس کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایک شخص میں ایک ہی صلاحیت تلاش کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر اسے ملازم رکھا جاتا ہے۔ کسی شخص سے اس کے رجحان، صلاحیت اور شوق کے برعکس کام لینا اس کے لیے ہمت شکنی اور بے زاری کا باعث بنتا ہے، مگر ہمارے یہاں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
ہمارے ملک میں کتنے ہی ذہین، تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان بے روزگاری کے صدمے جھیل کر ایک عمر گزار دیتے ہیں، مگر روزگار کی فراہمی کے لیے کوئی جامع منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔ ایسے میں بے روزگار نوجوان اپنی صلاحیت اور رجحان کے برعکس مجبوری میں کسی نہ کسی روزگار سے وابستہ ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، مگر ان کے خواب پورے ہونے کو بے تاب اور تمنائیں نا آسودہ ہی رہتی ہیں۔ بہت سے ممالک میں بے روزگاروں کو بے روزگاری الاو?نس ملتا ہے، اس بنیاد پر کہ روزگار فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے، اگر وہ یہ فریضہ پورا نہیں کر پا رہی تو کم از کم ملازمت سے محروم افراد کو ماہانہ کچھ رقم دے کر ان کی ضروریات کسی حد تک پوری کی جائیں، لیکن ہمارے یہاں ریاست یہ ذمے داری اٹھانے کو تیار نہیں۔
نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کے لیے مختلف حکومتوں نے جو اسکیمیں شروع کیں وہ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر بے روزگاری کے مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہیں۔ مثلاً موجودہ حکومت نے حال ہی میں بے روزگار نوجوانوں کو کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی کی اسکیم شروع کی ہے، جس پر حکومت کے حامی واہ واہ کی صدائیں بلند کر رہے ہیں، لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکل سکا۔ اس اسکیم کے تحت اربوں روپے مالیت کے قرضے دینے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ تاہم اس اسکیم کے حوالے سے نیشنل بینک نے قرضوں کی فراہمی کے لیے جو سخت ترین شرائط عاید کی ہیں ان پر ملک کے مختلف شہروں میں نوجوان سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ قرضوں کے طلب گار نوجوان پریشان ہیں کہ اتنی بھاری مالیت کی ضمانت دینے والے ضامن کہاں سے لائیں؟ اس احتجاج کے باوجود بینک کی شرائط جوں کی توں رہیں۔ دوسری طرف ہر ذہن میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ یہ قرضے آٹھ سال کی مدت کے لیے دیے جا رہے ہیں، جب کہ حکومت پانچ سال رہے گی، پھر کون پوچھے گا کہ پیسہ کسے دیا کہاں گیا، چنانچہ بینک نے شرائط ہی ایسی عاید کردیں کہ عام نوجوان کے لیے اس قرضے کا حصول خواب بن کر رہ جائے۔ اب حکمراں جماعت کے کارکن اس اسکیم کو اپنی حکومت کا کارنامہ بتاتے ہوئے اسکیم کو پروموٹ کر رہے ہیں کہ ’’قرضہ لے لو، قرضہ لے لو‘‘ مگر قرضہ ملے گا تو لیا جائے گا نا۔ اب حکومت بھی خوش کہ وہ دعویٰ کر سکے گی کہ اس نے بے روزگار نوجوانوں کے لیے اسکیم جاری کی اور بینک مطمئن کہ اس نے کڑی شرائط کے ذریعے پیسہ بچا لیا۔
ان حالات میں ہمارا نوجوان کیا کرے؟ وہ پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک جانے کی کیوں نہ ٹھانے، جہاں سخت محنت ہے تو اس کا صلہ بھی ملتا ہے، سپنے پورے ہونے کے روشن امکانات ہیں، اور کچھ نہیں تو وہاں کم از کم جان تو محفوظ ہے۔ امن و امان قائم نہ کر سکنا ہماری حکومت کی مجبوری ٹھہری، لیکن اتنا تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ ذہین، با صلاحیت اور پروفیشنل نوجوانوں کو باعزت روزگار اور مناسب طرز زندگی کی حامل تنخواہیں فراہم کی جائیں، ورنہ ذہانت اور صلاحیت کا یہ سفر جاری رہا تو ہمارا ملک صرف دانش اور اہلیت کا پروڈکشن یونٹ بن کر رہ جائے گا، جس کی پیداوار دوسروں ہی کے کام آئے گی۔