ہنزہ نیوز اردو

موسمیاتی تبدیلی اور ہم

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات گزشتہ ایک عشرے سے ہم دنیا کے مُختلف حصوں سے دیکھ اور سُن رہیں ہیں جو کہ المیے سے کم نہیں ہیں۔ خاص کر ترقی پذیر ممالک جن میں بنگلہ دیش، نیپال، بوٹھان، انڈونیشیا کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستیں زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اُن ممالک کی صف میں ہمارا وطن عزیز بھی شامل ہے جس کے شمالی حصے میں یعنی مو جودہ گلگت بلتستان زیادہ متاثر ہو رہا ہے اور ہم سب اپنی آنکھوں سے ہی دیکھ پا رہے ہیں کہ جس طرح ملک بھر خاص کربلوچستان میں شدید بارشوں کے سبب بری طرح تباہی مچ گئی۔ اس سانحے سے سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے پاک فوج کی امدادی کاروائیوں کے دوران ملک وقوم کا مایہ ناز سپوت لیفٹیننٹ جنرل سر فراز علی شاہ اور ہیلی کاپٹر کا عملہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ میری دعا ہے کہ سیلاب کے سبب اس سانحے کا شکار ہونے والے تمام مرحومین کی روحوں کو اللہ تعالیٰ اپنی جواری رحمت میں جگہ عنایت فرمائے آمین ثما آمین!
جیسا کہ آپ کے علم میں یہ بات آئی ہوئی ہے کہ ہر روز، ہر ہفتے اور ہر ماہ ہماری زمین تو کُجاء فضاء میں بھی آلودگی برپا ہوتی جا رہی ہے۔ ہر روز گاڑیوں کی ایندھن کی بد بوُ اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں جہازوں کی ایک سے دوسرے ملک میں سروس کے دوران بلند برف پوش پہاڑوں کی چوٹیوں سے جہازوں کی ایندھن کے خارج ہونے کے دوران گرمی کی وجہ سے برف پگھلنے کی شکل میں  پانی کا ضیاع ہونا بھی ایک تشویش ناک امر ہے۔ میَں خود صبح سے اگلی صبح تک راکا پوشی اور الترچوٹی سے جہازوں کو گزرتے دیکھتی ہوں۔ یہ جہاذ بیجنگ، بنکاک، ٹوکیو، انقرہ، ماسکو اور وسط ایشیائی ریاستوں کا سفر کرتی ہیں اور واپس آتیں ہیں۔ اس سے پوری دنیا میں یکایک ماحولیاتی تبدیلی واقع ہوتی نظر آرہی ہے۔ ماحویاتی تبدیلی پوری دنیا کی تمام حکومتوں خاص کر ترقی پذیر ممالک کے لئے ایک چلینج سے کسی قدر کم نہیں ہیں۔ ہم خود عینی شاہد ہیں کہ جن مقامات پر پہلے کوئی پھل شدید سردی کے سبب پکتا ہی نہیں تھا اب وہاں ہر قسم کا پھل پکنا شروع ہوا ہے مثلاً ہنزہ کے پاک چین سرحد کے قریب مقات چپورسن، شمشال اور مسگر وغیرہ۔
علاوہ ازیں ضلع ہنزہ کے صدر مقام علی آباد کے پہاڑی حصے میں حال ہی کی بات ہے کہ رات کو سلائیڈنگ ہوئی میَں نے آباؤ اجداد سے سنی تھی لیکن خود کبھی نہیں دیکھی تھی اور اب جو پہاڑی حصہ گرا اس کی خود چشمہ دید گواہ ہوں جس پہاڑ کے حصے سے تودے گرے اس پہاڑی حصے کا نام بھی ”دورشو“ ہے جو کہ مقامی زبان(بروشسکی) میں پہاڑ کے تودے گرنی والی مقام اس مناسبت سے ہمارے اسلاف نے نام رکھا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے تمام ترقی پذیر ممالک کے اپنے قومی تہواروں کے مواقعوں پر دوست ممالک کو بھی مدعو کر کے فضائی مظاہرے کرتے ہیں اُن حکومتوں نے یہ نہیں سوچا ہے کہ اس سے قومی دولت کا کتنا حصہ نقصان ہو رہا ہے؟۔ اور فضائی آلودگی سے ہماری کرآہ ارض پر اس کے کتنے منفی اثرات مرتب ہونگے؟۔ دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی سے نفسیاتی تبدیلی سے کیا کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہی؟۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جن جن نالہ جات میں گلیشرز میں پانی یکجاء ہونے کے بعد پھٹ جاتے ہیں اور تباہی کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ پاتے ہیں جس کے سبب ہماری ذہن بھی کانپ جاتی ہے۔ تباہی کے دوران شور کی آواز ذہن میں گردش کرتی ہے۔ اس کے اثرات گھر کے تمام کُنبے جن میں طلبہ، بزرگ حتیٰ کہ نو جواں بھی اپنا ذہنی توازن کھو دیتا ہے۔ بچوں کی تعلیم، بزرگوں کی صحت کے علاوہ معیشت سب کچھ کھو دیتا ہے۔ میَں خود اپنی گھر میں کھانا تیار کرنے کے دوران نجب آگ کی آواز سنتی ہوں تو دورشو پہاڑی حصے سے پہاڑ کے تودے گرنے کی یادیں ذہن میں تازہ ہو جاتیں ہیں۔ یہی حال پورے ملک کے اور ان متاثرہ خاندانوں میں بھی ہوگا۔ جن پر اس قسم کی مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔میری معلومات میں یہ بات آ چکی ہے کہ سانحہ عطاء آباد سے دوچار ہونے والے کُنبے اور ششپر نالے میں پانی کے بہاؤ کے سبب حسن آباد کے متاثرہ خاندانوں کے وہ تلخ و اعزاب شکن یادیں ان کی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ انہی وجوہات کے سبب ان کی تعلیم و تربیت میں ممکنہ کمی آچکی ہوگی۔ یہی اثرات اور یہی ذہنی کیفیت انسان کے حال اور مستقبل کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ کیوں کی ایک فرد کے اندر ذہنی انتشار ہو تو وہ پوری خاندان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے جس کے نتائج گھریلو تشدّد اور افلاس کی شکل میں رونماء ہوجاتی ہے۔ ترقیافتہ ممالک میں اپنے سالانہ ترقیاتی منصوبوں کی بجٹ بناتے وقت مذکورہ بالاممکنہ مسائل کے جنمنے کے خدشات سے نمٹنے کئلیے قبل از وقت رقم مختص کی جاتی ہے تاکہ ممکنہ متاثرین کسی بڑی مشکل یا مسائل سے دوچار نہ ہوں اور ملکی معیشت کو بھی کسی قسم کی مزید نقصان کا اندیشہ نہ ہو اوپر پیراگراف میں جن ممالک کا ذکر کیا جو برف پوش پہاڑوں سے بھرا پڑا ہے اور کسی نہ کسی وقت ناگہانی کا سبب بن سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ، کنسوریشم، یورپی یونین،کارتاس اور دیگر مخیر ادارے قبل از وقت ہوشیار رہ کر منصوبہ بندی کو یقینی بنادے۔گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب سے جو تباہی مچ گئی اس دوران سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ نے پاکستان کے متاثرہ علاقوں کا دورکیا اور امدادی کاروائیوں میں مدد کی یقین دہانی کرادی۔ اس قسم کی امداد کی بجائے ہمیں خود اپنی مملکت میں ہی قدرتی آفات کے بعد وقوع پذیر ہونے والے مسائل کا حل عوام اور حکومت مل کر تلاش کرنا چاہئے بجائے کہ ہاتھ پھیلا کر یا بھیک مانگ کر۔ اس بات پر غور کرتے دوران مجھے آبیتی آغاخان میں تحریر شدہ بات یاد آگئی جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ” علی گڑھ کالج کی توسیع اور مزید بہتربنانے کی عجلت میں یہ سوچا کہ بڑے امریکی کے پاس کیوں نہ چلا جائے۔ مثلاًمسٹر روک فیلر یا مسٹر کار نے جک اور ان سے ایک بڑی رقم کا عطیہ طلب کیا جائے۔؟ میرے نئے دوست مجھ سے عمر میں بڑے اور مجھ سے زیادہ وقلمند تھے انہوں نے کیا کہ ہندوستان میں چھ یا سات کروڑ مسلمانوں کی جماعت کے اندر یہ ہماری ہی ذمہ داری ہے کہ ہم علی گڑھ کیلئے روپئے کا انتظام کریں۔ اگر ہم باہر کے آدمیوں سے مدد لینے کی کوشش کریں گے خواہ وہ مدد امریکہ کے سب سے زیادہ مالدار اور سب سے زیادہ انسانی بہبودی کا خیال کرنے والے کروڑ پتی آدمیوں کی طرف سے ہوتو ہم ہمیشہ کیلئے بے عزت ہوجائیں گے۔“
اس بات سے نہ صرف میں اتفاق کرتی ہوں بلکہ سب قارئین کے ساتھ مشورے کے طور پر تحریر کرتی ہوں اور بیشک یہی نسخہ آج ایک سو تیس سال بعد ہمارے لئے بھی مشعلِ راہ ہے جو اس وقت انہوں نے دو عظیم بزرگوں کی تجویز سے اتفاق کیا تھا۔۔۔۔۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ