مفتی غلام مصطفیٰ صاحب نوراللہ مرقدہ کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع غذر کے گاؤں بوبر سے تھا۔ مگر ان کی عمر لاہور میں گزری اور رمضان المبار ک 1444کے بابرکت مہینے میں پیر کے دن،3 اپریل 2023 کو انتقال کرگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ان کی نماز جنازہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم و شیخ الحدیث حضرت مولانا فضل الرحیم اشرفی نے جمشید پارک لاہور میں پڑھائی،جنازہ میں لاہور کے نامور علماء کرام نے شرکت کی۔ اور انہیں علمی و سماجی خدمات پر خراج عقیدت بھی پیش کی۔
مفتی غلام مصطفی ؒ غالبا 1940ء میں پیدا ہوئے ۔ شناختی کارڈ کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 1945 ہے۔والد کا نام سعید خان تھا۔ان کا پیشہ کھیتی باڑی اور زراعت کا تھا۔متمول آدمی تھے۔ان کی فیملی یا قوم ”منے”، قبائل یشکن میں ہے۔ان کے والد نے دو شادیاں کی تھی۔ مفتی غلام مصطفیٰ کی والدہ ماجدہ گلگت بلتستان کے پہلے قاضی اور جنگ آزادی گلگت بلتستان کے نامور مجاہد عالم دین حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق ؒ کی بہن تھی۔ان کا نام بی بی عائشہ تھا۔ مفتی صاحب اکلوتے بھائی تھے۔پہلی والی ماں سے ایک بھائی رحمت شریف اور چار بہنیں ہیں۔مفتی غلام مصطفی کے نانا شیخ عبیداللہ تھے جو پونیال گلمتی کے تھے۔راجہ گوہرآمان کے بیٹے والی یاسین راجہ پہلوان خاص احباب میں تھے۔راجہ گوہرآمان اور ان کے بھائی سیداحمد شہید کے رفقاء میں سے تھے۔شیخ عبیداللہ نے سیداحمد شہید کی سپاہ میں کئی سال بطور ذمہ دار آفیسر کام کیا۔ناظرہ قرآن اپنے چچا بلبل خان سے پڑھا۔مفتی صاحب نے مجھےبتایا تھا کہ اپنے ہم نام عالم دین مولانا غلام مصطفیٰ سے بھی کچھ علم حاصل کیا تھا۔مولانا غلام مصطفیؒ جامعہ امینیہ دہلی کے فاضل تھے۔شاید ان کا علاقہ بوبر تھا۔ وہ کسی راجہ کے خلاف فتویٰ دینے کی پاداش میں جیل گئے اور شاید ان کا جنازہ جیل سے نکلا۔سننے میں آیا ہے کہ وہ بہت قابل اور جری عالم دین تھے۔مفتی غلام مصطفیٰ نے مولانا غلام مصطفی ؒ سے قرآن پاک پڑھا اور لکھائی سیکھی۔اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے گلگت میں اپنے ماموں ،فاضل دیوبند مولانا قاضی عبدالرزاق کے پاس آئے۔اس وقت ان کی عمر 15 سال تھی۔جامع مسجد گلگت میں قاضی عبدالرزاق کا مدرسہ چل رہا تھا۔ وہی پر فاضل دیوبند مولانا نذیراللہ خان سےنورالایضاح اور حکایات صحابہ کے کچھ اسباق پڑھے۔گلاپور کے ایک استاد کی مشاورت سے چوتھی تک سکول کی تعلیم حاصل کی۔ غالبا یہ 1958 کی بات ہے۔دارالعلوم دیوبند کے فاضل اور دیوبندی استاد سے معروف مولانا اکبرگل گلگتی ؒ کی تحریک پر اٹھ طلبہ نے اپنے گھروں کو اطلاع کیے بغیر دینی تعلیم کے لیے کراچی کا رخت سفر باندھ لیا۔ان خوش نصیب طلبہ میں ایک مفتی غلام مصطفیؒ بھی تھے۔بعد میں کراچی کے سفر میں مولانا اکبرگل ؒ نے ان طلبہ کو دارالعلوم کراچی کے ناظم مولانانورمحمد کے حوالہ کیا تاکہ ان کی تعلیم و تربیت اور داخلہ کا بندوبست ہوسکے۔
مفتی صاحب سے بیگم پورہ لاہور میں چار جولائی 2013میں ان کے گھر ایک تفصیلی انٹرویو کیا۔میں نے انٹرویو کے لیے ان سے خصوصی وقت لیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ ”میری تعلیم و تربیت میں میری والدہ ماجدہ کا بڑا کردار تھا۔میرے ننھیال میں بڑے بڑے جید علماء تھے۔ میرے اپنے ماموں فاضل دیوبند اور گلگت بلتستان کے قاضی تھے۔وہ چاہتی تھی کہ میں بھی عالم بنوں۔میری طالب علمی کے دوران والد اور والدہ دونوں انتقال کرگئے تھے”۔
دارالعلوم کراچی میں درجہ اولی میں داخلہ لیا اور درجہ سادسہ تک وہی تعلیم حاصل کی۔دارالعلوم کراچی کے کبار اساتذہ میں مفتی رشید احمد لدھیانویؒ،مولانا شمس الحقؒ، مولانا سحبان محمودؒ اور مولانا سلیم اللہ خانؒ سے استفادہ کیا۔ مفتی رشید احمد لدھیانوی سےفقہ اسلامی کی معروف کتاب ہدایہ ثالث، مولانا سحبان محمود سے فقہ میں ہدایہ اول ،اصول فقہ میں حسامی اورتفسیر میں بیضاوی، مولانا سلیم اللہ خان ؒ سے منطق و فلسفہ کی معروف کتاب قطبی اور مولانا شمس الحق سے علم عقائد کی شرح عقائد،علم اصول وبیان کی مختصرالمعانی،علم منطق کی سلم العلوم اور علم حدیث کی مسند امام اعظم پڑھا۔مولانا عبدالحق سوات والے سے نحو پڑھی۔مفتی شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے اصلاحی خطبات و بیانات میں بھرپور حصہ لیا۔ان کے علاوہ قاری رعایت اللہ ؒ، مولانا اکبر علیؒ اور مولانا خورشید عالم ؒ سے بھی مختلف کتب پڑھی۔
مفتی غلام مصطفیٰ صاحب بتانے لگے ” جامعہ دارالعلوم کراچی کے تمام اساتذہ کی خدمت کا موقع ملا تاہم مفتی رشید احمد ؒ سے زیادہ تعلق رہا۔ اس زمانے میں درالعلوم کراچی کے دائیں بائیں صحرا ہوتے ہم اساتذہ کو لینے کے لیے جامعہ سے باہر جاتے اور ان کا استقبال کرکے کلاس تک لے آتے۔ میں ابھی تیسرے درجے(ثالثہ ) میں تھا۔ میرے والد کا انتقال ہوا۔”
مفتی غلام مصطفیٰ ؒ کیساتھ گلگت سے جو ساتھی دینی تعلیم کے حصول کے لیے کراچی گئے تھے ان میں چار نے جامعہ دارالعلوم کراچی سے دینی علوم کی تکمیل کی ہے۔ مولانا عبدالقیوم مرحوم جو سعودی چلے گئے اور کئی کتابوں کے مصنف بنے۔انہوں نے بتایا ”جب ہم حج پر گئے تو انہوں نے ہماری بہت خدمت کی۔میں اور میری بیوی نے حج کیا اور وہی پر والدین کی حج بدل کا انتظام بھی ہوا تھا۔الحمداللہ”۔ان کے علاوہ مولانا عبدالصبور اور مولانا عبدالصادق تھے۔ مولانا عبدالصادق فوج میں خطیب بھرتی ہوئے۔جب مفتی غلام مصطفیٰ دارالعلوم کراچی میں پڑھتے تھے تو مفتی تقی عثمانی صاحب اور مفتی رفیع عثمانی ؒ بھی طالب علم تھے۔ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ” ہم نے دارالعلوم کی پرانی مسجد کی تعمیر میں خوب حصہ لیا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں اساتذہ اور طلبہ نے دل لگا کر کام کیا ہے”۔
مفتی غلام مصطفی نے مسلسل چھ سال جامعہ دارلعلوم کراچی میں تعلیم حاصل کی اور پھر اپنے استاد مولانا عبدالحق سواتیؒ کی تحریک پر ، اپنے استاد خاص جامعہ دارالعلوم کراچی کے شیخ الحدیث مفتی رشیداحمد لدھیانوی سے اجازت لے کرپنجاب چلے گئے اور جامعہ قاسم العلوم میں ایک سال مختلف فنون کی کتب پڑھی۔اس سال مفتی محمود ؒ ممبر اسمبلی بنے تو ان کی جگہ ایک اور ماہر فنون عالم دین مولانا محمد العظیم تھے ان سے قاضی مبارک، حمداللہ ، عبدالغفور اور شرح جامی وغیرہ دوبارہ پڑھی۔مولانا موسی خان روحانی البازی سے دورہ مختصرالمعانی، شرح عقائد اور تصریح (فلسفہ) پڑھا۔ حافظ الحدیث حضرت مولانا عبداللہ درخواستی ؒ اور شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ سے دورہ تفسیر کیا۔
1965 میں جامعہ اشرفیہ لاہور سے موقوف علیہ اور 1966 میں دورہ حدیث شریف کی تعلیم مکمل کی۔ جامعہ اشرفیہ میں بیضاوی اور ہدایہ رابع مولانا عبیداللہ صاحب سے اور مولانا یعقوب صاحب سے میرزاہد، شرح مواقف اور کچھ رسائل پڑھے۔اسی طرح مفتی جمیل احمد تھانویؒ و دیگر اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔دورہ حدیث شریف میں ترمذی مکمل مولانا رسول خان ؒ،بخاری شریف مکمل مولانا ادریس کاندھلویؒ، ابوداود کا کچھ حصہ مولانا عبیداللہ، مسلم شریف مولانا عبدالرحمان ؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ فراغت کے بعد تخصص فی الفقہ کے لیے مفتی رشید احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کے پاس کراچی چلے گئے۔ یہ مفتی صاحب کے تخصص فی الفقہ کا پہلا سال تھا۔ اٹھ فضلاء تھے جو حضرت مفتی صاحب ؒ سے فتاویٰ لکھنے کی مشق کررہے تھے۔مفتی صاحب نے تخصص کا نصاب مرتب کیا تھا اور تمام کتابیں خود ہی پڑھایا کرتے تھے۔ طلبہ کو وظیفہ ملتا تھا ، کھانا خود پکایا کرتے تھے۔ مفتی رشیداحمد صاحب نے اپنے متخصص طلبہ کو بہشتی زیور کے کچھ حصے سبقا سبقا پڑھائے۔”اردو فتاویٰ کا مطالعہ کروایا کرتے اور شامی پر زیادہ زور دیتے۔ہم جتنا ہوسکے شامی کا مطالعہ کرتے، اور اپنا مطالعہ مفتی صاحب ؒ کو سناتے بھے۔فتاویٰ عالمگریہ سے بھی بھرپور استفادہ کراتے”۔
1967 میں تخصص فی الفقہ سے فراغت کے بعد ایک سال 1968 گلگت میں رہے مگر دینی علوم کی خدمت کے لیے حالات ناسازگار تھے۔نہ مسجد تھی نہ مدرسہ، بالآخر اپنے بھائیوں کی تحریک اور مشاورت سے لاہور آئے ،کراچی جاکر تدریس کرنے کا ارادہ تھا مگر بیگم پورہ میں مولانا لطیف الرحمان صاحب کی درخواست پر ان کےساتھ کام شروع کیا۔جامعہ ضیا ء العلوم بیگم پورہ میں مولانا لطیف الرحمان اور مولانا عبدالحیئ کوہستانی اور مفتی غلام مصطفیٰ نے مدرسہ کا آغاز کیا اور تدریس شروع کی۔جامعہ ضیاء العلوم میں مسلسل تیس سال تک تدریس کی، مشکوۃ شریف تک کتب پڑھائی۔تیس سال کے بعد رفاقت کا تعلق ٹوٹ گیا اور مفتی غلام مصطفیٰ نے اپنی مادر علمی جامعہ اشرفیہ لاہور میں کام شروع کیا اور یہی کے ہوکر رہ گئے۔مفتی عبدالرحیم نے انہیں معقول تنخواہ مقرر کی۔جامعہ اشرفیہ لاہور کے دارالافتاء میں لوگوں کو ٹیلی فون اور دارالافتاء آئے لوگوں کو فتویٰ اور دینی مسائل بتاتے۔یہ کام آخیر عمر تک کرتے رہے۔اسٹریلیا مسجد لاہور میں دارالافتاء بنایا گیا تو مفتی صاحب رحمۃ اللہ وہاں بھی وقت دیا کرتے۔جامع مسجد سلمان پارک سنگھ پورہ لاہور میں مسلسل تیس سال انتہائی قلیل معاوضہ پر خطابت و امامت کے فرائض بھی انجام دیے۔
مفتی غلام مصطفی ٰ نے دورہ حدیث کے سال شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ؒ کا درس بخاری اپنے قلم سے لکھ لیا۔اور وہ رسالہ منادی اسلام کوئٹہ سے قسطہ وار شائع ہوئی۔ اسی طرح مولانا رسول خانؒ کی تقریر ترمذی بھی ضبط کرلیا۔ وہ تقریر رسالہ الصیانۃ میں قسط وار چھپی اور اب باقاعدہ کتاب کی شکل میں شائع ہوکر اہل علم اور طلبہ علوم دینیہ سے داد سمیٹ رہی ہے۔اہل علم نے ان کی قلمی کاوشوں کو خوب سراہا ہے۔انہوں نےمختلف رسائل و جرائد میں بہت سارے اصلاحی مضامین لکھے۔
مفتی غلام مصطفیؒ نے اصلاحی تعلق اپنے استاد مکرم حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانویؒ سے قائم کیا۔ ان سے بیعت ہوئے اور تصوف و طریقت کے مراحل طے کیے۔سات سال کے بعد حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ نے 19 رمضان المبارک بروز جمعہ 1395 ھ کو مفتی غلام مصطفیٰ کو خلافت اور اجازت بیعت دی۔انہوں نے اپنے پیر و مرشد اور استاد محترم کی زندگی میں کسی کو بیعت نہیں کیا۔ ان کے انتقال کے بعد خاص لوگ، بالخصوص جہاد سے منسلک لوگوں کو بیعت کی اور ان کی اصلاح کی کوشش کی۔مفتی رشید احمد ؒ کے طریق اصلاح کے بارے بتایا کہ ” حضرت اعمال کی نگرانی خوب کرتے، قرآن کا ایک پارہ روزانہ تلاوت ضروری تھا،مناجاۃ مقبول روزانہ،اور مخصوص تسبیحات کی سخت پابندی کرنی ہوتی تھی۔ اور حضرت تھانویؒ کے ملفوظات اور مواعظ کا مطالعہ بھی کرواتے۔”
میں نے مفتی صاحب مرحوم سے یہ تفصیلات ان کے گھر میں ایک انٹرویو کی شکل میں محفوظ کی تھی۔ یہ تحریر بھی میری کتاب مشاہیر علمائے گلگت بلتستان کا حصہ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا” جب ضیاء العلوم سے مجھے رخصت کردیا گیا تو میں اپنے شیخ کے پاس کراچی میں حاضر ہوا۔اور ان سے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ حضرت نے فرمایا کہ الحمدللہ، اللہ آپ سے مزید بڑا کام لے گا۔آپ ابھی تک مدرسے میں محدود تھے۔پھر مفتی صاحب نے میری ذمہ داری لگائی کہ ہفت روزہ ضرب مومن کا کام لاہور سے بھی ہونا چاہیے۔اور پھر بعد میں ٹرسٹ بھی بنی۔اس میں بھی خدمات انجام دی۔الرشید ٹرسٹ /المعمار ٹرسٹ میں پچیس سال سے کام کرتا ہوں(یہ 2013 کی بات ہے)۔دفتر اور دیگر کاموں کی نگرانی کرتا ہوں۔ٹرسٹ والے معقول وظیفہ بھی دیتے ہیں۔اللہ نے سماجی و رفاہی کام بھی لیا”
مفتی صاحب کی لاہور میں مصروفیات بہت زیادہ تھی۔ اس لیے وہ گلگت بلتستان میں کوئی دینی خدمت نہیں کرسکے۔ صحیح معنوں میں لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ انہوں نے بھی اپنے آپ کو مستقل لاہور میں ہی مصروف رکھا تھا۔میں نے جب ان سے شکایت کی تو کہنے لگے، واقعی مجھے اپنے علاقے میں کام کرنا چاہیے تھا۔کم از کم ایک اچھا ادارہ ہی بنالیتے مگر شاید ان کی علمی اور تحریکی زندگی نے انہیں اس طرف متوجہ نہیں کیا۔ملک کے کئی علاقوں کے نامور علماء ان کے شاگرد رہے ہیں۔
1970 میں شادی کی۔اللہ نے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کی۔ان کا ایک بیٹا 2001میں جہاد افغانستان میں شہید ہوا۔تب وہ طالب علم تھا۔باقی بیٹے بھی علماء اور حفاظ ہیں۔دو بیٹیوں نے عالمہ کا کورس کیا اورایک نے قرآن کریم حفظ کیا۔مفتی صاحب ؒ نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادی بھی لاہور ہی میں علماء کرام سے کرایا۔
مفتی غلام مصطفی گلگتی ؒ پر مشکل وقت بھی آیا۔مگر انہوں نے کبھی ان مشکلات کی شکایت نہیں کی۔وہ ایک تحریکی اور نظریاتی انسان تھے۔ موت کے دن تک اس تحریک اور نظریہ سے وابستہ رہے جو انہیں ان کے استاد اور پیر و مرشد حضرت مفتی رشید احمد صاحب ؒ سے ورثے میں ملا تھا ۔ایسے بے لوث لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔میں نے کچھ خاص سوالات کیے تو مفتی صاحب نے کہا، ”کچھ چیزیں میرے اور میرے اللہ کے درمیان راز ہی رہنے دیں”۔ہنستے ہوئے فرمایا،” آپ زیادہ نہ ٹٹولا کریں”۔یہ باتیں جولائی کی ایک شام ان کے گھر کی چھت پر ہورہی تھی۔مفتی صاحب نے اسپیشل چھت پر چارپائیاں بچھوائی تھی تاکہ پرسکون ماحول میں گفتگو ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس جلیل القدر عالم دین کی مغرفت فرمائے اور پسماندگان کو صبرجمیل عطا کرے۔