ہنزہ نیوز اردو

قو ل و فعل میں تضاد کی سیاست

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/img351.jpg” ]محمد شراف الدین فریادؔ [/author]

ڈپٹی سپیکر قانون ساز اسمبلی جعفر اللہ خان صاحب کا کہنا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی والے آج کل گلگت بلتستان میں حق ملکیت و حق حاکمیت کی تحریک چلانے سے متعلق جو شور شرابہ کر رہے ہیں یہ محض ڈرامہ ہے اور زبانی حد تک گلگت بلتستان کے سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں کیونکہ خود پیپلز پارٹی کا صوبائی صدر دوسروں کے زمینوں پر قبضہ کرنے کے مرتکب پائے گئے ہیں تو وہ کس منہ سے ملکیت کی حق دلانے کی باتیں کر رہے ہیں ۔ جناب ڈپٹی اسپیکر کے اس بیان سے پہلے پاکستان مسلم لیگ “ن” برائے خواتین ونگ کی طر ف سے یہ ایشو اُٹھایا گیا تھا کہ ایک طرف عوام کو ان کی ملکیت کا حق دلانے کا دعویٰ اور دوسری طرف عوام ہی کے مالکانہ حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے پی پی پی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ صاحب کو ڈائریکٹ تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس نے گلگت شہر کے بالائی آبادی نائیکوئی داس میں غیر قانونی انتقال کے ذریعے تقریباً 18 کنال 07 مرلہ زمین اپنے والد کے نام الاٹ کرایا ہے جہاں کا مالکانہ حقوق برمس ،کھر اور نگرل کے عوام رکھتے ہیں۔ خواتین ونگ کے رہنماؤں نے امجد صاحب کو یہ مشورہ بھی دیاتھا کہ اگر دوسرے عوام کو ان کے مالکانہ حقوق دلانے کا دعویٰ کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ زمین انہیں واپس کردے جس کے وہ مالکانہ حق رکھتے ہیں ۔ امجد صاحب کے مالکانہ حقوق تو امپھری ، مجینی محلہ اور کشروٹ کے عوام کے ساتھ منسلک ہیں ۔انہیں برمس نالہ کے حدود واجب الا رض پر غیر قانونی طور پر زمین غضب کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے۔امجد صاحب کو خود بھی سوچنا چاہیے کہ وہ جس زمین کو اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہتھیا چکے ہیں اس پر متعلقہ آبادیوں کے علاوہ وہاں کے یتیموں اور بیواوں کا حق بھی شامل ہے جن کی رضامند ی کے بغیر وہ زمین کیا ان کو حلا ل ہوگی ۔۔۔۔۔؟ ” ن” لیگ کی خواتین نے یہ بھی سوال اُٹھا یا تھا کہ امجد صاحب نے نائیکوئی داس میں 18 کنال 07 مرلہ کا جو پلاٹ اپنے والد کے نام الاٹ کرایا ہے اس کو خود کاشت ظاہر کرکے الاٹ کرایا گیا ہے حالانکہ وہ زمین اب تک بنجر پڑی ہے بلکہ وہاں کے زمین کو آباد کرنے کے لیے واٹر چینل تک نہیں بنایا گیا ہے تو زیر کاشت کیسی بنی۔۔۔۔۔؟ امجد صاحب نے یہاں پر غیر قانونی انتقال کے لیے جھوٹ بول کر آئین کی 62 اور 63 کی بھی خلاف ورزی کی ہے جس کے بابت انکوائری ہونی چاہیے۔
قارئین کرام! امجد صاحب پر لگنے والے ان الزامات کے بعد پی پی پی میڈیا سیل کی طرف سے اور پی پی پی ذیلی ونگز کی جانب سے مذمتی بیانات سامنے آگئے ۔سب نے امجد صاحب پر لگنے والے ان الزامات کو مسترد کردیا اور اس کہانی کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے ٹھوس شواہد مانگ لیے گئے ، اکثر نے تو ٹھوس شواہد سامنے نہ لانے پر “ن” لیگ کی خواتین کے خلاف عدالت میں ہتک عزت کا کیس دائر کرنے کی دھمکیاں بھی دیں ۔اس دوران خود کو پی پی پی خواتین ونگ کا رہنما ظاہر کرتے ہوئے سعیدہ مغل نامی ایک خاتون کا یہ بیان سامنے آگیا کہ مسلم لیگی خاتون جس زمین کی بات کر رہی ہے وہ تقسیم شدہ زمین میں سے امجد حسین ایڈوکیٹ کا حصہ اور حق ہے ۔ پی پی پی کے اس خاتون کے اس بیان کے بعد ہم نے بھی ضرورت محسوس کی کہ اس کہانی کی انویسٹی گیشن ہونی چاہیے کہ اصل قصہ کیاہے۔۔۔؟
قارئین کرام! برمس ، نگرل اور کھر کے عوم کا کہنا ہے کہ ہاں امجد حسین ایڈوکیٹ نے ان کی زمین کو غیر قانونی انتقال کے ذریعے اپنے والد کے نام پر الاٹ کرایا ہے ۔ اس زمین پر امجد ایڈوکیٹ کا کوئی حق نہیں بنتا ہے کیونکہ وہ زمین برمس نالہ کے حقوق واجب الارض کے حدود میں شامل ہے ۔وہاں کے لوگوں نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ غضب شدہ زمین پر اپنا قبضہ مذید مضبوط کرنے کے لیے نائیکوئی داس کو بھی متنازعہ کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ۔ نائیکوئی کی زمین کس کی ہے محکمہ بندوبست کے قدیم ریکارڑ کو چیک کیا جائے تو پتہ چلے گا وہاں کے لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ امجد ایڈوکیٹ کے مالکانہ حقوق امپھری ، مجینی محلہ اور کشروٹ کے عوام کے ساتھ منسلک ہیں اور وہ برمس نالہ کے حدود واجب الارض میں ایک انچ زمین کا بھی حق نہیں رکھتا ہے ۔
قارئین کرام ! ہم نے اس بابت اپنی انوسٹی گیشن کو مذید آگے بڑھاتے ہوئے محکمہ مال کے ذمہ داروں سے بات کی اور ریکارڑ حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ نائیکوئی داس کی اراضی کا مالکانہ حق برمس ، نگرل اور کھر کے عوام رکھتے ہیں قدیم ریکار ڑ کے مطابق برمس اور نپورہ کی حدبندی کا تعین کیا گیا ہے وہ واضح طورپر نظر آتی ہے۔ ریکارڑ کے مطابق یہ بھی معلوم ہوا کہ خود کاشت ظاہر کرکے نقل جمعبندی بنائی گئی ہے جو کہ سراسر بدنیتی پر مبنی ہے۔
قارئین کرام ! اس ایشو پر مضمون لکھنا یا انوسٹی گیشن رپورٹ تیار کرنے کا مقصد کسی کی تضحیک کرنا یا غلط ثابت کرنا نہیں بلکہ عوام النا س کو حقائق سے آگاہ کرنا تھا ۔ امجد حسین ایڈوکیٹ سے ہماری کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ وہ تو بچپن سے میرا کلاس فیلو رہا ہے ۔ آپ سیاست میں گئے اور وفاق کی ایک بڑی پارٹی کے صوبائی صدر بنے ہمیں بہت خوشی ہوئی مگر اس بات پر دل بھی بہت دکھتا ہے کہ سیاست دان جو غریب عوام کی خدمت کی بات کرتے ہیں ان میں اکثر کے قو ل و فعل میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ امجد صاحب کو بھی میرا مشور ہ ہے کہ وہ قول و فعل میں تضاد والی سیاست کو نہ اپنائے ۔ آپ حق ملکیت کا نعرہ لگاتے ہیں اس سے ہم 100% متفق ہیں ، ہم بھی سمجھتے ہیں کہ جس علاقے میں جو بھی خالصہ زمین ہوتی ہے وہ سرکار کی نہیں بلکہ عوام کی ملکیت ہے اگر سرکار کو وہ زمین ضرورت پڑتی ہے تو عوام کو معاوضہ دیکر اُٹھاسکتی ہے ۔
امجد صاحب! آپ نے حق ملکیت کی تحریک کے نام پر کئی جلسے بھی کئے آپ کو تو ان معاملات میں احتیاط برتنی چاہیے۔ اگر نائیکوئی داس کی زمین پر قبضہ جماکے ایسی تحریکوں کا نام دیں گے تو ضرور آپ پر بھی انگلی اٹھے گی اور آہستہ آہستہ سب کو پتہ چل جائے گا کہ آپ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ۔۔۔۔۔۔اور یہی ہوتی ہے قول و فعل میں تضاد کی سیاست ۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ