ہنزہ نیوز اردو

*قومی بیانیہ اور ہائبرڈ وار*

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

پاکستان کا قومی اور اسلامی بیانیہ اتنا واضح اور دو ٹوک ہے جس کی مزید کوئی وضاحت اور صراحت کی گنجائش موجود نہیں۔

قیام پاکستان سے پہلے ہی دو قومی نظریہ کی شکل میں اک واضح قومی بیانیہ موجود تھا۔پھر قرارد پاکستان اور قرارمقاصد نے قومی اور اسلامی بیانیہ کو مزید واضح کردیا۔قائد اعظم کی سینکڑوں تقاریر پاکستان کے اسلامی و قومی تشخص بیان کرنے کے لئے کافی ہے۔1973 کا آئین اس ملک کا سب سے بڑا قومی اور اسلامی بیانیہ ہے۔

خنجراب نیشنل پارک کے دامن میں بکریاں چرانے والے بزرگ اور نانگا پربت کے دامن میں بانسری بجا کر سیاحوں کا دل محظوظ کرنے والا نوجوان ان تمام حوالوں اور تعلیمات سے نابلد ہے مگر پھر بھی ہواؤں کے دوش، پہاڑوں کی چوٹیوں سے بھی پرے، PIA کی جہاز دیکھتا ہے تو محبت و خلوص سے دیکھتا رہتا ہے اور اچانک بےدھڑک پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے اور آزاد فضاؤں میں سانس لینے پر رب کا شکر ادا کرتا اور سجدہ ریز ہوتا پے۔

یہی حال گودار کے تپتے صحراؤں میں اونٹ پر سفر کرنے والا مسافر ہو یا تھرپار میں صاف پانی کے لئے تڑپنے والی بوڑھی ماں، یا کوہستان کے جنگلوں میں لکڑی کی بنی مسجد کا امام ہو جو ہر وقت پاکستان کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے یا وہ فوجی جو سیاچن میں برف سے ڈھکی کسی چوکی پر پہرہ دے رہا ہوتا ہے کہیں دشمن حملہ آور نہ ہو ۔سب کا بھی ہے۔سب اسلام اور پاکستان کی محبت سے لبریز ہیں۔یہی قومی بیانیہ ہے۔

ان سب غریب لوگوں نے پاکستان کے بڑے شہروں کے نام ہی سنے ہوتے ہیں مگر پاکستان کا قومی بیانیہ اور اسلامی تشخص کے حوالے سے انہیں کھبی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔اپ کبھی ان سے مل کر تو دیکھیے۔

سوال یہ ہے کہ آخر ان بڑے شہروں میں لاکھوں کا موبائل اور کروڈوں کا گھر انجوایی کرنے والے بڑے بڑے بیوروکریٹس ،صحافی، اساتذہ, پروفیسرز ، محققین، ریٹائرڈ جرنیلز، لکھاری، بلاگر، اینکرپرسنز،سفارت کار، طلبہ اور این جی اوز باخصوص سوشل میڈیا صارفین کو پاکستان کا قومی بیانیہ کیوں سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟

وہ اسلامی تشخص کے کیوں قائل نہیں؟

سب کچھ جاننے اور پڑھنے کے بعد بھی
وہ کنفیوژن کریٹ کرتے نظر کیوں آتے ہیں۔؟
یہی ہائبرڈ وار ہے۔
جس نے پالیسی سازوں تک کو کنٹرول کر رکھا ہے۔

عام لکھاری، صحافی، اینکر پرسن اور اساتذہ و طلبہ اور این جی اوز کا کیا، اس وار نے ہر اک کو دسیوں زاویوں سے جکڑ رکھا ہے۔
بہت سارے دانستہ شکار ہیں۔ہائبرڈ وار میں ہر چیز کا استعمال ہوتا ہے۔زر زمین اور زن بھی کارآمد آتا ہے۔
اور اک بڑی تعداد ان گماشتوں کا شکار بنتی ہیں اور بنتی چلی جاتی ہے۔

عسکری تنظیمیں بنائی جاتی ہیں۔

چھوٹے چھوٹے ایشوز کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔

ملکی سلامتی کے اداروں کی کمزوریوں اور حکومت کی کرپشن کو میڈیا میں بطور آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔

علاقائی، لسانی اور مذہبی تعصبات و اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے۔

دشمن طاقتیں انٹرنیٹ، موبائلز، کمپوٹر اور لیپ ٹاپ و دیگر جدید آلات کو بطور ہتھیار استعمال کرواتی ہے۔
ان آلات کو اہم ترین ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، یعنی دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی جدید جنگیں جدید ابلاغی آلات کے ذریعے لڑ رہی ہوتی ہیں۔

ہائبرڈ وار فئیر ایک ایسی اصطلاح ہے جو کم لاگت کی جنگ میں دشمن ممالک کے اپنے اثاثے ہی اُن کے لوگوں سے ہی ہتھیار کے طور پر استعمال کرالیے جاتے ہیں، ان میں کچھ کو خریدا جاتا ہے اور بہتوں کو اس ک احساس بھی نہیں ہوجاتا اور وہ استعمال ہوجاتے ہیں ور اس پاکستان میں بے چینی، خوف اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔

سمجھ لیا جاوے آج کے دور میں دیگر طریقوں کے علاوہ ہائبرڈ وار سب سے زیادہ سوشل میڈیا کے ذریعے لڑی جاتی ہےاور بدقسمتی سے پاکستان کے حساس اداروں اور ملکی سلامتی اور پالیسی ساز اداروں کے پاس سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کا سسٹم موجود نہیں۔

ہمیں بس ان پڑھے لکھے اور ہائی پروفائل لوگوں کی کنفیوژن سے بچنا ہوگا جو روز وہ ،ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیا میں پھیلا رہے ہیں۔ جس کا شکار غریب طبقہ کم، پڑھا لکھا نوجوان زیادہ ہورہا ہے۔

*احباب کیا کہتے ہیں؟*

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ