علمی سفر بہت ہی کٹھن اور صبر آزما ہوا کرتا ہے۔ اس لیئے وہ تو بہت گہرائی کے ساتھ اس کے اپنے سیاق و سباق کے تناظر میں ہی اس کے تجزیے اور تحلیل کا متقاضی ہوا کرتا ہے۔ دو صدیوں قبل کے کسی فلسفہ کا اپنا جدلیاتی تناظر و پس منظر ہوتا ہے ڈائلکٹیکل بیک ڈراپ اور کونٹیکسٹ . اس کے بعد کے فلسفے کا اپنا کچھ اور ہوا کرتا ہے۔یوں عامیانہ یا تعمیمات جنرلائزیشن کی بنیاد پر کوئی بات نہیں حرف آخر قرار دی جاسکتی۔ اور جب تک خود فلسفی نہ ہوں، اس کو یوں تعمیمات کی بنیاد پر جھٹلانا اور باطل قرار دینا اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ہم چشم زدن میں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔الغرض، رومی کی طرف آج کل جتنا نیا عالمی علمی رجحان جو بڑھ رہا ہے، اس سے مستقبل کے علمی سفر کے رخ اور سمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بلکہ بقول ایک سابق شیخ الجامعہ، رومی کے اشعار میں سے کچھ جو وحدتِ انسانی کا بہترین علمی نمونہ قرار پانے کی بنیاد پر اقوام متحدہ کے کسی در و دیوار پر وہ لکھے ہوے ہیں کہ دنیا کا کوئی اور سیکولر نظریہ اس سے بھی بہتر اور کونسا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ وہ تو صوفیء اعظم تھے، لیکن تعلیمات میں وحدت انسانی کا جو نظریہ اس میں تھا وہ گوہر یگانہ تھا۔یہی بات اقبال نے زرا بہت پہلے ہی کردی تھی تو ان کو نہ آج کے طالبان سمجھ سکے ہیں اور نہ دیگر طبقات ۔ یوں علمی و فلسفیانہ قضیہ، ضد قضیہ، اور ترکیب نو تھیسسز،اینی تھیسسز اینڈ سینتھیسسز کے نئے بنیادی ڈھانچے کی مظبوطی کا مظہر و غماز اور اس کی کی علامت ہے۔بندہء ناچیز یہاں فکری گفتگو اور علمی مصروفیات کو وسعت دینے کی نئی اور ابھرتی ہوئی جہتوں، راستوں اور وسعتوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں، جن کی بنیادیں پہلے ہی قائم ہو چکی ہیں، لیکن دیے گئے وقتوں اور موسموں نے اسے دوبارہ پنپنے نہیں دیا اور اس کی بڑی وجہ، بشمول دیگر، اس زمانے کے علمی اور فلسفیانہ حسد اور جہالت تھی۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ