ہنزہ نیوز اردو

غریب کا احساس

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

عمران اللہ مشعل۔

مارے ملک میں تین قسم کے طبقے پائے جاتے ہے جو کہ درجہ زیل ہے۔

ایک وہ لوگ ہے جو خود عقل کُل سمجھتے ہیں اور ہر شعبے پے ایسے بات کرتے ہے جیسے انہوں نے سپیشلائزیشن کی ہو سیاست، مذہب ،معیشت اور کرکٹ پے بات کرنا انکا تو عام مشغول ہے اسکے علاوہ لوگوں کی زاتی زندگیوں کی کہانیاں بنانا تو ایسا ہی ہے جیسا اس شعبے میں بھی پی ایچ ڈی کی ہوگی انہیں عرف عام میں دانشور کہتے ہیں۔

دوسرا ایسا طبقہ ہے جو مخصوص دنوں میں نظر آتے ہیں وعدے دعوے یہاں تک کرتے ہیں کہ آسمان سے چاند تارے لے آئیں مگر ان مخصوص دنوں کے بعد وہ ایسے غائب ہوتے ہیں جو چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ہیں انکا کام تنقید برائے تنقید اور زاتی مفاد کے لیے ایک ہونا ہے انکے جائیدادیں اور بچے بیرون ملک ہیں انہیں عرف عام میں سیاستدان کہتے ہیں۔

تیسرا طبقہ وہ ہے جو جو کبھی مظوم بن جاتا ہے کبھی قابل رحم بن جاتا ہے اور ہمیشہ سے وہ پہلے دونوں طبقوں کو سہتا آرہا ہے ہمیشہ سے پہلے والے دونوں طبقے کی طرف سے بے وقوف بنایا جاتا ہے اور یہ الزام بھی اپنے سر لے لیتا ہے کہ اپنی اس حالت کا وہ خود زمہ دار ہے انہیں عرف عام میں عوام کہتے ہیں۔

اب حالیہ جو غربت مٹاؤ پروگرم “احساس” کا افتتاح ہوا تو ان تینوں طبقوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنی رائے دیں جس میں کچھ کو یہاں زکر کرتے ہیں۔

جب بھی کوئ پروگرام یا منصوبہ کسی بھی حکومت کی طرف سے پیش ہوتا ہے تو دانشوروں کی دو رائے بن جاتی ہیں ایک وہ جو آنکھ بند کرکے اسکی حمایت کرتے ہیں اور اپنی طرف سے بھی مرچ مصالحہ لگا کر بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اسکے پیچھے بھی وجوہات ہے وہ سب کو معلوم ہیں ۔
دوسرا پروگرام کی مخالفت کرنے والے ایسی مخالفت کرینگےکہ جیسا کہ ان سے پوچھنا ضروری تھا جو پوچھا نہیں گیا پھر وہ طرح طرح کی باتیں بنائینگے احساس پروگرام کے حوالے سے کسی نے یہ ارشاد فرمایا یہ تو ایک خاتون کو وزرات دلوانے کے لیے یہ ساری کہانی جڑ دی گئ تو کسی نے کہا یہ نام بدل کے عوام کو لولی پاپ دیا گیا ہے تو کسی نے ارشاد فرمایا بائیس سالہ جدوجہد اور معاشی پالیسی بکری اور مرغی پے ختم ہوگئ وغیرہ وغیرہ۔
مگر کسی نے یہ نہیں بتایا اس پروگرام کے متبادل پلان انکے پاس موجود ہے جو کہ نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ عوام کے لیے بھی سود مند ہوگا۔

اب سیاست دانوں کی باری آتی ہیں سب سے پہلے یہ بات زہن نشین کرلینی چاہیے کوئ بھی حکومتی منصوبہ کوئ وزیر اعظم وزیر اپنی زاتی پیسوں سے نہیں شروع کرتے ہے بلکہ وہ قومی خزانے سے ہوتے ہیں اور انکے لیے سالوں سے پلاننگ ہوتی ہیں بات یہ ہے حکومت کس طرح ان منصوبوں کو کامیابی سے مکمل کرتی ہیں۔

ہمارے ہاں جب کوئ اچھا سا پروگرام یا منصوبہ پیش ہوتا ہے تو یہ کہ کر تنقید کی جاتی ہے یہ تو ہمار منصوبہ تھا تختی بدل دی گئ اور نیا کوئ منصوبہ ہوا تو چاہیے عوام کے لیے کتنا ہی سود مند کیوں نہ ہو تنقید کے ایسے تیر چلاتے جیسا کہ یہ منصوبہ عوام دشمن تھا۔

احساس پروگرام کو مسلم لیگ ن کے ترجمان نے بہت تضحیک اور طنزیہ باتوں کے زریعے تنقید کی مگر یہ نہیں بتا سکی کہ پچھلے 35 سالوں سے انہوں نے عوام کو کونسا چاند پے پہچایا تھا اور کونسے ایسے اچھے پروگرامز دیئے تھے جس سے عوام کی روزمرہ کی زندگی بدل گئ اسی طرح دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کا بھی ردعمل ملا جلا تھا مگر وہ بھی ستر کی دہائ سے بھٹو کا دیا گیا نعرہ روٹی،کپڑا اور مکان سے باہر نہیں نکل سکے حالانکہ روٹی کپڑا اور مکان کا پلان 1945 میں ایک امریکن سائیکلوجسٹ ابراہم میسلو نے دیا تھا۔

اب عوام کی بات کرتے ہے روز اول سے اگر کوئ متاثر ہے اور یہ سب سہ رہا ہے تو وہ عوام ہے باقی پہلے والے دونوں طبقوں کو ہر حال میں اپنا اپنا حصہ بقدر جسہ ملتا ہیں۔

پاکستان کی کُل آبادی کا 90 فیصد آبادی غریب ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اور 60 فیصد سے زیادہ آبادی دیہات میں آباد ہے جنکی روزگار کا دارومدار صرف زراعت اور ماہی پروری ہیں۔

اب ستر سالوں سے عوام کے ایسے اقدامات نہیں کئے جس سے ہم ٹیکنالوجی میں خودکفیل ہوتے اور آج ہر بندہ ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتا اور نہ ہی ہماری تعلیم اتنی اچھی ہے کہ ہم بیرون ملک جاکر نوکری کریں اور ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔

اگر پہلی بار کوئ عوام کی احساس کی بات کر رہا ہے تو وہ عمران خان ہے جنہیں یہاں تک کہ عوام کی گائے ،بکری اور مرغی تک کی فکر ہے موجودہ دور میں ہمارے پاس یہ شعبہ اہم ہے جس میں ہم کسی نہ کسی طرح خود کفیل ہے اب حکومت بھی اسکو سسٹم کے اندر لانا چاہتی ہے تو اچھی بات ہے تاکے کم سے کم یہ شعبہ جو ہمارے ہاتھ میں اس میں مکمل طور ہے خود کفیل ہونگے
اور مقامی سطح کے ہماری تمام ضروریات اس شعبے پوری ہوجائیں۔

باقی اللہ کریں ملک میں تعلیم عام ہو، میرٹ بحال ہو،اقراباپروری ختم ہو، سفارش کلچر، رشوت اور کرپشن ختم جڑ سے ختم ہو عوام آذادی سے اپنے نمائندوں کو چنے اور جمہوریت حقیقی معنوں میں ہو ملک کے سمندر اور دریاؤں سے تیل و گیس کے زخائر دریافت ہو، ملک کے صحرا سرسبز و شاداب ہو،بیرون ملک سے ہمارے شہریوں کی ڈیماند ہو پھر اگر کوئ حکومت ایسا کوئ منصوبہ جو چھابڑی، بکری اور مرغی کا لائیں تو ہم کہ سکتے ہیں ہم تو چاند پے ہیں یہ ہمیں زمین ہے لا رہے ہیں۔

دعا ہے
خدا کرے کہ مری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو .

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ