[author ]الواعظ نزار فرمان علی[/author]
“شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بہت مہربان، نہایت رحم والا ہے۔(اے رسولؐ) بیشک ہم نے آپؐ کو کوثر عطا کیا ہے ۔پس آپؐ اپنے پروردگا کی عبادت کراور قربانی کر۔تحقیق آپؐ کو برا کہنے والا (خود) ہی ابتر یعنی بے نسل ہے۔”(القرآن)
عربی لغت میں لفظ عید کا مصدر عود سے ہے جو وقتاََ۔ فوقتاََ۔ لوٹ کر آنے کے معنی میں ہے۔اَلعیدُ وہ خوشی ہے جو بار بار لوٹ کرآئے۔اصطلاح شریعت میں یہ لفظ یوم الفطر اور یوم الضحیٰ کیلئے بولا جاتا ہے۔شرعی طور پر یہ دن خوشی کیلئے مقرر کیا گیا ہے۔اسلام سے قبل اہل عرب سال کے چند مخصوص ایام میں تقریبات منعقد کرتے، مکہ معظمہ میں ذی قعد کا چاند طلوع ہوتے ہی عرب کے مختلف حصوں یمن، عدن ، عمان، بحرین، اور شمالی عرب سے لوگ آکر ہر سال عکاظ کے میلے میں شرکت کرتے۔جب آنحضرؐت نے مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت فرمائی تو وہاں کے قبائل اوس اور خزرج نے بھی سال میں دو روز ایسے مقرر کررکھے تھے جس میں وہ کھیل کود اور لہولعب میں محو رہتے تھے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا یہ دو روز کیسے ہیں؟ عرض کیا یا رسول اللہ!یہ دو دن ایسے ہیں جن میں اسلام سے پہلے ہم لہولعب کیا کرتے تھے اور ان کی یاد میں یہ منائے جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم کو اس کے بدلے میں بہتر دو روز عطا فرمائے ہیں۔ایک یوم الفطر اور دوسرا یوم الاضحی ۔ آپﷺ نے منشیائے ایزدی کے مطابق ان کے توہماتی خوشیوں کو دوسرے برکاتی دنوں کے ساتھ بدل دیا، ان روح پرور دنوں میں سماوی مسرتوں کے ساتھ ساتھ ذکر و بندگی کو بھی ضم کردیا۔تاکہ مسلمانوں کااجتماع کلمۃالحق سے خالی نہ ہو اور”امربالمعروف ونہی عن المنکر “کا زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ہو۔سبحان اللہ۔
معزز قارئین! الحمداللہ ہم ہر سال 10 ذی الحجہ کو عیدالاضحی یعنی ،عید قربان ،عید الکبیر،بڑی عید اور یوم النحرمناتے ہیں جس کا بنیادی مقصد حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالی کا تقرب و خوشنودی حاصل کرنا ہے۔قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کے تمام حالات و واقعات سے ایک اہم سبق آپؑ کا اپنی عزیز ترین چیز کو اللہ کی چاہت پر قربان کرنے کیلئے ہمہ وقت اور ہر لحضہ تیار رہنا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں مشہور واقعہ بیان ہوتاہے ’’جب اسمعٰیلؑ دوڑنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔کہا ابراہیم ؑ نے اے بیٹے میں تجھے خواب میں ذبح کررہا ہوں پس تیری کیا رائے ہے اسمعٰیل ؑ نے جواب دیا اے میرے باپ!جو کچھ حکم کیا جاتا ہے اس کی (تعمیل) کرانشاء اللہ مجھے صابروں سے پائے گا۔جب دونوں خدا کے حکم کو تسلیم کرچکے پھر ڈالا زمین پر اسمعٰیل ؑ کو ماتھے کے بل اور پکارا ہم نے کہ اے ابراہیمؑ تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو۔بیشک یہ بڑی آزمائش تھی اور چھڑا لیا ہم نے اسمعٰیل کو بدلے عظیم قربانی کے‘‘ ۔۔(القرآن)
عیدالاضحی کا مبارک دن اللہ تعالیٰ کے عظیم پیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کی قربانیوں کی یادگار ہے جن کی ملت میں تمام مسلمانان عالم قیامت تک شمار ہونگے۔مشہور تفسیر میں آپؑ کے اسم مبارک ’’ابراہیمؑ ‘‘ کے سریانی زبان میں معنی ہے ’’شفیق باپ‘‘ کیونکہ آپؑ اپنی اولاد اور امت پر بے حد رحیم و شفیق تھے۔رب العزت نے قرآن حکیم میں اپنے جلیل القدرپیغمبر حضرت ابراہیم ؑ کو اعلیٰ مراتب،بلند القابات اور خوبصورت ناموں سے پکارا ہے۔ ان القابات میں رسول اللہ، خلیل اللہ، امام الناس،حنیف، اوّل المسلمین،منیب،حلیم،عبدِ مومن،قانت او ر شاکر وغیرہ متعدد خوبصورت ناموں سے یاد فرمایا ہے۔جب ایک شخص نے آنحضرتؐ کو ’’خیر البرّیہ‘‘ (مخلوق میں سب سے بہتر) کہا تو فرمایا وہ تو حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام ہیں۔اللہ نے آپ کو’’ خلیل‘‘ اس لئے کہا کیونکہ اللہ کی محبت آپؑ کے دل میں پوری طرح سرا یت کر گئی تھی کہ اب قلب میں سوائے اللہ کی محبت کے اور کسی شے کیلئے جگہ باقی نہ تھی۔ اس لئے ’’خلّہ‘‘ محبت کے اس کامل ترین درجہ کو کہتے ہیں جس میں دل کے اندر سوائے محبوب کے کسی اور کے لئے جگہ باقی نہ بچے۔چونکہ حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے موحّد اعظم اور بے حد محبت کرتے تھے اور کامل اطاعت کی اس لئے آپ ؑ کو خُلّت کا مرتبہ کریمہ ملاحضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمعٰیل ؑ نے مالک حقیقی کے امرو فرمان پر بلا چون و چرا لبیک کہا یہ ساری امت و انسانیت کیلئے مینارہ نور ہے۔ دیکھئے کس طرح عاشقِ صادق اپنے محبوب برحق کا دل جیتنے کیلئے لمحوں میں پیاری سی پیاری چیز قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
یہ فیضان نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت، سکھائے کس نے اسمعٰیل ؑ کو آداب فرزندی
اللہ تعالیٰ کو اپنے دونوں مقرب ہستیوں کی اطاعت و فرمانبرداری اور ایثار و قربانی کا انداز اس قدر پسند آیا کہ اس شاندار روایت کو دوام مل گیا اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ حج و قربانی کے ذریعے سنت ابراہیمی کی تجدید کرتے رہیں۔الحمداللہ اس روح پرور موقع پر فریضہ حج ادا کیا جاتا ہے اور راہ خدا میں بکثرت قربانیاں پیش کی جاتی ہیں ۔ ماشاء اللہ، وہ خوش قسمت اہل ایمان جو بیت اللہ کی زیارت سے فیضیات ہورہے ہیں اور قربانی کا شرف حاصل کررہے ہیں ایک مسلمان کیلئے اس سے بڑی سعادت کیا ہوسکتی ہے اور وہ دیندار جو کسی مجبوری کی وجہ سے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل نہیں کرسکتے ہیں وہ اپنے گھروں میں حسب استطاعت سنت ابراہیم کی تجدید کرتے ہیں۔سنت کے مطابق قربانی کے بعد گوشت کے تین حصے کئے جاتے ہیں ایک حصہ غرباء ،مساکین اور مسافروں کا ، ایک حصہ رشتہ دار، عزیز و اقارب کا اور ایک حصہ اپنے اہل و عیال کیلئے رکھا جاتا ہیں۔بیشک قربانی کی رسم کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے ہر دم تسلیم و رضا، غیر مشروط محبت اور کامل اتباع کاعملی مظاہرہ کرنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادات اور قربانیو ں کا محتاج نہیں ہے۔خدائے بے نیاز تو فقط ہمارے خلوص،عقیدت اور محبت کا طلبگار ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اللہ تعالیٰ کو اس (قربانی) کا گوشت پہنچے گا نہ اس کا خون لیکن اس کو تو تمہاری پرہیزگاری پہنچے گی۔‘‘گویا اللہ تعالیٰ کے حضور کسی بھی قسم کی قربانی کیلئے بنیادی شرط تقویٰ ہے اور جو اعمال و حسنات تقویٰ سے خالی ہو اسے بارگاہ ایزدی میں جگہ نہیں ملتی ہے۔یہاں پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارا رب یہ نہیں دیکھتا کہ کس نے کیا پیش کیا ہے بلکہ جو چیز راہ خدا میں پیش کی گئی ہے اس کے پیچھے نیت / ارادہ کیا ہے اگر جذبہ قرب الٰہی ہے تو حسب توفیق پیش کردہ سادہ اشیاء بھی اس کی نظر میں غیر معمولی حیثیت اختیار کر جائے اور اگر نیت میں ریا کاری / کھوٹ شامل ہوجائے تو بیش قیمت چیز بھی شرف قبولیت نہ پاسکے۔
بلا شبہ عیدالاضحی کی شاندار قربانی کی بڑی حکمت یہ بھی ہے کہ اس بابرکت رسم کی ادائیگی کرتے وقت بندہ، اللہ کے حضورعاجزی سے عرض کرتا ہے کہ میں تیرے خلیل حضرت ابراہیم ؑ کی سنت پر عمل پیرا ہو کر یہ جانور ذبح کرتا ہوں اور یہ عہد بھی کرتا ہوں کہ میں اپنی خواہشات نفس ، منفی سوچ ،بری خصلتوں اور ناپسندیدہ عادات کو اس جانور کی طرح تیری رضامندی کی قربان گاہ پر فنا کرتا ہوں۔خدا ہمیں اس کیفیت پر ہمیشہ قائم رکھے۔آمین۔ آئیں ہم سب مل کر اس عظیم الشان ،ایمان افروز موقع پر دعا گزاری کریں، یا اللہ، یا حیّ القیوم، گناہگاروں کو بخشنے اور عیوب پر پردہ ڈالنے والے، یا رحمن یا رحیم،تجھ کو تیری شان کریمی کا واسطہ، اپنے پیارے حبیب محمد مصطفیٰ ﷺ کے واسطے ہمیں بخش دے، ہم پر رحم و کرم فرما،تنگدستوں کے رزق میں وسعت،بیماروں کو شفاء کاملہ عطا فرما،ساری دنیا اور وطن عزیز میں امن و آشتی اور پائیدار ترقی و خوشحالی عنایت فرما،ہمیں صراط المسقیم پر مضبوطی عطا کر، ہماری نیک مرادوں، دعاؤں،تسبیحات اور قربانیوں کو اپنے حضور میں اعلیٰ عبادت کے طور پر قبول فرما کر دنیا و عقبیٰ میں کامرانی و سرخروئی عطا فرما۔آمین یارب العالمین