[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/06/19399870_10155307250185340_6624222151346298157_n.jpg” ] میمونہ عباس خان[/author]
مصنفہ کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں
گلگت بلتستان کےادب کی ابتدا کہیں داستان کی شکل میں ہوئی تو کبھی اس کا اظہار دیومالائی کہانیوں کی صورت میں ہوا- جب کہ دیگر روایتی زبانی ادب کی اصناف میں شاعری کو ہمیشہ ہی نمایاں مقام حاصل رہا ہے- خوشی کا اظہار ہو، غم کی شدتوں کا بیان یا انسان کی موضوعی اور معروضی کیفیات کا اظہار ہو، شاعری کی صنف ہمیشہ غالب رہی ہے۔یہ شاعری صرف گانوں کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ مخصوص دھنوں میں ڈھل کر مختلف قبائل اور خاندانوں کی شناخت بھی بن گئی۔ان دھنوں اور گانوں کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں مخصوص خاندانوں یا اشخاص کی بہادری سے متعلق حکایات کا بیان ہوتا تھااور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہادری و دلیری کی وہ تمام داستانیں صرف مردوں سے منسوب تھیں- یوں خواتین کا وجود گلگت بلتستان کے ادبی منظر نامے پر ہمیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا ہے کیونکہ عورت نہ تو اس ادب کی تخلیق کار ہے نہ ہی اس کا موضوع۔ گلگت بلتستان کی ادبی تاریخ میں مرد ہی تخلیق کار، مرد ہی بہادری کا نشان اور مرد ہی شناخت کا صحیح حقدار نظر آتا ہے۔
کچھ تاریخی شواہد ایسے بھی ملتے ہیں کہ عورتوں نے اپنے پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ اور درد کسی دھن یا گانے میں ڈھالا جنہیں زبانِ عام میں “لولو” کہتے ہیں۔مثال کے طور پرہنزہ کی تاریخ میں معلوم تاریخی لولو ایک خاتون سے منسوب ہے اور یہ لولو عورت کے خلاف معاشرتی جبر کی بہترین عکاسی کرتا ہے۔ لیکن یہ گانا اب بھی ہنزہ کے معاشرے میں پنہاں مگر مضبوط قبائلی اور پدر شاہی سوچ اور جذبات کو مہمیز کرنے کا باعث بنتا ہے-مگر عورت کی اس قسم کی فکری شعور اور توانا تخیلاتی مہارتوں کو بجائے سراہنے کے ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اور غیرت کے سارے پیمانے اپنے آپ اس کی تخلیق سے جوڑ دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے عورت کو کئی بار اپنا اصل نام تک متروک کرنا پڑتا ہے۔ اس تخلیقی استحصال کی ایک اہم مثال ز-خ- ش کی ہے جو اردو ادب کی اولین شاعرات میں سے ایک ہیں جنہیں پدرشاہی جبر کے سبب اپنی زندگی میں اپنی تحریروں کو چھپوانا نصیب نہ ہو سکا۔
گلگت بلتستان کے ثقافتی وادبی تناظر میں ایک اور اہم صنف رزمیہ شاعری ہے جن میں مردوں کی بہادری کے قصے دیومالائی داستانوں کی طرح پیش کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مرد کو اپنی شخصیت کے ہر رنگ کو آشکار کرنے کی اجازت تھی جب کہ عورت کو یہ آزادی میسر نہیں تھی۔ یوں اس مخصوص ثقافتی رویے نے عورت کے دلی جذبات و ذہنی کیفیات کے اظہار پر قدغن عائد کردی۔
دوسری طرف اگر اُن مخصوص رسوم ورواج کا ذکر کیا جائے جو مختلف مواقع پر منائے جاتے ہیں تو ان میں بھی عورت کی شرکت صرف ایک تماشائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔جیسا کہ خوشی کے مواقع پر مرد حضرات ناچتے ہیں اور خواتین ان پہ واری صدقے جاتی ہیں۔یہ ثقافتی عمل بنیادی طور پر خواتین کی اپنی ذات کی علامتی قربانی کو ظاہر کرتی تھی۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ کے گانوں میں رخصتی کے گیت جنہیں”آجولی” کہا جاتا تھا، عرصہ دراز سے چلی آرہی ہیں۔ اس قسم کے ثقافتی رسومات میں عورت کی ذات کا یہ پہلو اس بات کا مظہر ہے کہ عورت ادب کے دائرے میں آزادی سے داخل ہونے کی مختار نہیں اور اگر وہ داخل ہوتی ہے تو گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوتی ہے۔
اس ثقافتی وادبی نقد کا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں کے ادب میں عورت کو کوئی نمایاں مقام حاصل تھا۔اردو ادب کی مثال لیجیے۔ یہاں عورت کو صرف مرد کی آنکھ اور جذبات سے ہی دیکھا گیا ہے۔ساجدہ زیدی اپنے مضمون تانیثی تنقید میں دعوٰی کرتی ہیں کہ اردو کے کلاسیکی ناول میں” خواتین کے زیادہ ترکردار انفرادیت کیا، شخصیت سے بھی محروم ہیں۔ ان کی حیثیت محض ایسے معروض کی ہے جو پدرسرانہ سماج کے سانچوں میں ڈھلی ہوئی بے جان سی مخلوق ہیں- اس کے علاوہ ہمارے ادب میں کچھ ایسے کلیشے بھی رائج ہیں جن کا اطلاق رشتوں کے اعتبار سے ہوتا ہے- مثلاً ظالم ساس، محکوم ومجبور بہو، وفاشعار پتی ورتا بیوی، چڑچڑی اور Nagging بیوی، ڈائن نما سوتیلی ماں اور شرم و حیا نازوادا کی پُتلی محبوبہ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ٹائپ مختلف پیرایوں میں دہرائے جاتے رہے ہیں جن میں زیادہ سوچنے اور گہرے مشاہدے کی ضورت ہی نہیں پڑتی، اس قسم کے ذہنی تحفظات کرداروں کی پیش کش اور ماحول سازی دونوں میں جاری و ساری نظر آتے ہیں-“
اسی طرح مغربی ادب پر اگر ایک نظر ڈالیں تو وہاں بھی خواتین کا تصور ایک شیطانی وجود کے طور پر نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ شیکسپئیر کے ڈرامے “اوتھیلو” کی لیڈی مونا ہو، “میکبتھ” کی لیڈی میکبتھ یا پھر سفوکلیس کی “ایڈیپس ریکس” میں ایڈیپس کی ماں “یکوسٹا”! ان سب کے ہاں عورت ذیادہ تر سراپا شر نظر آتی ہے۔ جب کہ اس کے علاوہ انسان کی ذاتی خصوصیات میں بزدلی، کم عقلی اور کمزوری کو عورت کا دوسرا نام رکھ دیا گیاہے۔شیکسپیر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ “عورت! تمہارا نام کمزوری ہے “Friality thy name is woman.”
انہی وجوہات کی بنا پر سیمون ڈی بوائر اپنی معرکتہ الآرا کتاب Women: Myth and Realityy میں کہتی ہیں کہ “عورت پیدا نہیں ہوتی بن جاتی ہے”۔ اردو ادب کے اسی تناظر میں فاطمہ حسن کا اپنے مطالعاتی مضمون “گزشتہ صدی سے عہدِ حاضر تک: اردو ادب میں نسائی شعور” میں کہنا ہے کہ “عورت کا جسم ادیب، شاعر، مصور، مجسمہ ساز، سب کا موضوع رہا ہے- جب کہ عورت کا ذہن اگر موضوع بنا تو مزاح کے ساتھ۔اس طرح عورت صرف تفریح اور تزین و آرائش کی شے بن کر رہ گئ۔
آج جبکہ دنیا کواکیسویں صدی میں داخل ہوئے بھی ایک سے زائد عشرہ ہوچکا ہے ہماری عورت کا وجود دنیائے ادب پر ناپید ہے۔اور یہ اس مخصوص روایتی ذہنیت کی وجہ سے ہے جس کی رو سے عورت معاشرے کی ایک فعال رکن بننے نہیں بلکہ مرد وں کی اخلاقیات کے تحفظ کے لیے گھر کی چاردیواری کی زینت بننے کے مقصد سے تخلیق کی گئی ہے۔ہماری عورت خود شناسی کے فلسفے سے کوسوں دور ہے جسے اپنی مرضی کی سانس لینے تک کی بھی اجازت نہیں ہے۔ اردو ادب میں عورت کی ذات کی یہ نفی شاعری میں نمایاں نظر آتی ہے ۔جہاں محبوبہ اور معشوقہ سے مخاطب ہونے کے لیے مونث کے صیغے کے استعمال کے بجائے مذکر کا استعمال کیاجاتا رہا ہے۔یوں عورت کو اس کی اپنی جنس سے ہی محروم کردیا جاتا ہے گو کہ تمام تر شاعری کا محور اس کاجسم اور جنس ہی ہے۔
عورت کی نمائندگی کے لیے ہمارے ادیبوں نے ایک عمومی رویہ اختیار کیا ہوا ہےجس میں عورت کا ایک خاص خاکہ تیار کیا گیا ہے۔یہ وہی عورت ہے جیسی مرد اپنی آرزوؤں کی تسکین کے لیےچاہتا ہے جس میں عورت کی آنکھوں کی بناوٹ سے لے کر قدموں کی جنبش تک مرد کی خواہش شامل ہے۔یقیناً یہ وہ نظر نہیں جس سے عورت خود کو دیکھنا چاہتی ہے مگر وہ شعوری یا لاشعوری طور پر مرد کے بنائے ہوئے خاکے میں خود کو ڈھالنےکی سعی کرتی ہے۔یوں وہ ایک پدر سری ذہنی اختراع کو جینے لگتی ہے۔ اس لیے یہ دعوٰی کیا جا سکتا ہے کہ عورت مرد کی امنگوں کی زندگی جی رہی ہے نہ کہ اپنی ذات سے ابھری ہوئی آواز میں۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے مضمون “نسوانی تنقید” میں اسی پہلو کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں “عورت اپنی ذات کےتمام گہر کھو کر صرف ایک جسم رہ جاتی ہے۔” نسوانی تنقید کے نزدیک یہ عورت کا حقیقی تصور نہیں ہے بلکہ یہ مرد کا تصورِ زن ہے- وہ عورت کو اس طرح دیکھنا چاہتایا عورت کا اسطور ادراک کرتا ہے- گویا وہ عورت ہے جو مرد کے مخصوص ذہنی، جذباتی، طبقاتی، جنسی اور سیاسی میلانات کی تخلیق ہے”اور بدقسمتی سے مرد کوعورت کے نام پر ایسا ہی جسم درکار ہے۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت خود ہی ان سماجی اختراعات اور ذہنی تشکیلات کے فرسودہ بتوں کو توڑ دے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب عورت مرد کے تشکیل کردہ بیانیے کی ردِ تشکیل کرے۔اسی لیے جولیا کرسٹیوا نے عورت کے لیے ایک الگ نسائی آواز کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ عورت ہی عورت کو مضبوط کر سکتی ہے جس کے لیے اس کا بااختیار ہونا لازمی ہے۔ مگر یہ وہ چنگاری ہے جسے جلنے سے بیشتر ہی بجھا دیا جاتا ہے۔گویا عورت کو جانتے بوجھتے اس کے ذہن، خوابوں اور آرزؤں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ مرد معاشی طور پر مضبوط اور ذہنی طور پر باشعور عورت کا وجود برداشت نہیں کر سکتا۔ جبکہ آزاد معاشروں میں عورت کو اپنے خواب جینے اور اپنا ایک منفرد مقام متعین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ ایسے معاشرے اپنے افراد کواپنی شخصیت کی نئی جہتیں دریافت کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ انہیں ایسا ماحول بھی فراہم کرتے ہیں جو ان کی فکری شعور کی آبیاری کرتا ہے-
بدقسمتی سے گلگت بلتستان بھی انہی خطوط پہ مروج ادبی وصنفی استحصال کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو اندر سے کھوکھلا اور بیمار ہے جہاں کی ساری اخلاقیات کی بنیاد عورت کی معمولی سی جنبش سے منسوب ہیں جو زرا سی بھی لڑکھڑاہٹ سہار نہیں سکتی۔ یوں اس جنبش کے سبب معاشرے کے بھی دھڑام سے گرنے کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے۔ علاوہ اذیں غیرت کے سارے معاملے عورت کی نہ صرف ذات سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ اس کا وجودصفحہ ہستی سے مٹانے میں بھی کارگر ثابت ہوئے ہیں۔اس مخصوص ثقافتی تناظر میں گلگت بلتستان کے ادبی منظر نامے پر عورت کا وجود ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔
ادب کے نام پر قائم تنظیمیں اپنی سوچ کے مخصوص دائروں میں ہی فعال ہیں اور ان کے نمائندہ تخلیق کاروں کا عمومی رویہ پدرسری معاشرے کی سوچ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ایسی صورت حال میں یہ خواتین ہی کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس مخصوص ذہنیت کے پیدا کردہ ادب اور اداروں کو مسترد کرکے خواتین کے لیے ایسی جگہیں (spaces) پیدا کریں جہاں وہ اپنی شخصیت کا اظہار اور نمائندگی اپنی زبان و آواز میں کریں نہ کہ مردوں کی پدرشاہی نفسیات میں ڈھل کر نکلی ہوئی شاعرانہ پیکر سے!