ہنزہ نیوز اردو

عوامی نمائندوں کو مشورہ

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

گلگت بلتستان کے عوامی نمائندے، ممبران اسمبلی، وزارء اور سیاسی قواد  کو میرا مشورہ ہوگا کہ اختیارات کی جنگ میں بیوروکریسی سے نہ الجھیں..وہ درست معنوں میں اختیارات استعمال کرنا جانتی ہے.آپ اس چیز سے عاری ہیںآپ ہی کے تمام اداروں بشمول سرکاری، پرائیوٹ اور نجی اداروں میں چیف گیسٹ  سیکریٹری، کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر بنایا جاتا.کبھی کسی محقق، علمی شخصیت اور عوامی لیڈر کی قسمت میں مہمان خصوصی بننے کی نوبت نہیں آئی.ہاں البتہ انتظامی آفیسران میسر نہ ہوں تو آپ انجوائی کرپاتے ہیں.(دینی ادارے اس سے مستشنی ہیں. وہ اپنے ہی کسی عالم کو چیف گیسٹ بناتے ہیں)  اور آپ کو صرف گیسٹ ہی بنایا جاتا، چیف گیسٹ کی کرسی آپ کو نصیب نہیں ہوتی، سوائے وزیر اعلی اور گورنر کے کے،وزیر اعلی اور گورنر کے بھی دائیں بائیں ممبران اسمبلی اور وزراء نہیں ہوتے بلکہ اداروں کے سربراہ ہی ہوتے ہیں.بیوروکریسی کے ان  چیف گیسٹوں کو آخر میں تقریر کا موقع ملتا، آپ بحیثیت وزیر، ممبر اور لیڈر پہلے تقریر فرما چکے ہوتے ہیں..وہ چیف گیسٹ آخر میں فیصلے ثبت کرتا ہے.. پھر آپ کا کہا ہوا، ہوا میں تحلیل ہوتا اور آفسر شاہی کا کہا ہوا مستند ہوکر آپ ہی کے صحافیوں کے ذریعے اور آپ ہی کے اخبارات میں سپر لیڈ کی جگہ بنالیتا ہے…یہ پروگرام آپ ہی کے ووٹر، آپ ہی کے علاقے کے بھائی/ منتظمین مرتب کرتے ہیں. وہی گیسٹ اور چیف گیسٹ کا تعین کرتے ہیں، کرسیوں پر وہی بٹھاتے ہیں، ویلکم بھی وہی کرتے ہیں.. تو ایسے میں آپ کو اپنی تضحیک کا راگ نہیں الاپنا چاہیے.. خاموشی سے سسٹم کو چلانا چاہیے.یا چلایا جانے میں رکاوٹ بن کر عوام کو ذہنی اذیت میں مبتلا کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیے. عوامی سطح پر ہم شعور سے خالی ہیں.ڈگری ہولڈر ہونے اور باشعور ہونے میں فرق واضح ہے، تو فی الحال عوام میں شعور و اگاہی پیدا کریں. پھر کھبی اپنی عزت نفس کا ڈھنڈورا پیٹیے.. فی الحال بلکل بھی نہیں. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ