[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2018/01/FB_IMG_1484733681737.jpg” ] امتیاز گلاب بگورو[/author]
ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
جس معاشرے میں عوامی مسائل بڑھ جاتے ہیں اگر اس معاشرے کے حکمران خواب و خرگوش کے مزے لے رہے ہوں تو لازم ہے کہ ہر فرد اپنے حقوق اور بقا کی جنگ کا آغاز کرے اس کی تازہ ترین مثال گزشتہ 11 دنوں سے چلنے والی عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران گلگت بلتستان کے مابین چلنے والی تحریک ہے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ منفی ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت کے باوجود جی بی کی تاریخ کا طویل ترین احتجاجی مظاہرہ ہے اور تاحال گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں جاری ہے اس تحریک میں مزید اور شدت اور تیزی اس وقت دیکھی گئ جب گلگت بلتستان کے بنکوں میں ٹیکس کی مد میں پچاس ہزار روپے پر بھی کٹوتی شروع ہوئی جبکہ اے جی پی آر ،بنکوں کی ٹرانزیکشن ، موبائل کمپنیز سمیت دیگر عوامی آمدن پر بھی اڈپٹشن ایکٹ کو آڑ بنا کر حکومت وقت نے اس مد میں فارمولہ متعارف کرانے کی منظم اور مربوط حکمت عملی تیارکر لی تھی اس حوالے سے عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لئے عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کی تنظیموں نے باقاعدہ تحریک چلاکر عوام کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کیا، اس کا مقصد عوام میں بے جا ٹیکسز کے نفاذ کے خلاف میدان میں کھڑے رہ کر آگاہی اور شعور پیدا کرنا تھا تاکہ عوام کو غیرقانونی ٹیکسزز کے نفاذ سے آگاہی دی جائے اس تحریک کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئ اور جی بی کے عوام خون جمادینے والی ٹھنڈ میں سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر آگئے ، یہ ایک پرزور عوامی تحریک ہے جس نے ایوان بالا کو ہلا کر رکھدیا تو ایسے میں حکومت وقت کی طرف سے بارہا مرتبہ پریس کانفرنسز کے زریعے عوام کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی گئ جب عوام نے حکومتی ہتھکنڈوں کو رد کرتے ہوئے ماننے سے انکار کیا اور نتیجتہ عوامی تحریک مزید شدت اختیار کرگئ تو سکردو سے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر گلگت کی طرف روانہ ہوا تاکہ اس میں شمولیت اختیار کرکے حکومت کے قبیح فعل کی مذمت کی جاسکے تب حکومت وقت کو اس تحریک کی نزاکت کا احساس ہوا اورچند اپوزیشن ممبران سمیت عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا گیا یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سخت سردی کے باوجود عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بے یارومددگا آسمان کے نیچے سراپا احتجاج تھے جیسا کہ میں پہلے ہی ذکر کر چکا ہوں کہ 18 گھنٹے طویل مذاکرات میں حقوق کی جنگ لڑنے والی عوامی تحریک کے نمائندگان نے پہلے سے ہی چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کر رکھا تھا جب اسی ایجنڈے کے تحت شام پانچ بجے کمیٹی اور حکومتی میٹنگ کا آغاز ہوا تو صحافی برادری کو پہلے سے تیار شدہ پلان کے مطابق مذاکراتی کمیٹی دور رکھنے کی کوشش کی گئ جبکہ اس اہم ترین میٹنگ کااختتام اگلی صبح چار بجے ہوا جو کہ بے نتیجہ ثابت ہونے پر مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا کیونکہ میٹنگ کے دوران عوامی نمائندوں اور حکومتی اراکین جن باتوں پر متفق ہو کر مذاکراتی شفارشات کو کمپیوٹر میں کمپوزنگ کے لئے بجھواتےتو شفارشات میں ردوبدل ہوکر کچھ اور ہی کمیٹی کے سامنے آجاتا تھا اور یہ سلسلہ چار تا پانچ مرتبہ دہرایا گیا، بالآخر ہم نےاس ہیر پھیر کے اسباب پتہ چلانے کی کوشش کی تو معلوم ہواکہ ایک طرف گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ لڑنے والے ہیرو تو دوسری جانب عوامی فیصلوں کی تردید کرتی چومکھی کھیلنے والی والی بیوروکریسی تھی، جس کے دوہرے کردار کو عوام صدیوں تک فراموش نہیں کر پائیں گے، اس ساری صورتحال کو دیکھنے کے بعدچئیرمین کمیٹی اکبر تابان کا غصہ بھی بے جانہ تھا اسلئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بار ہیر پھیر نہیں ہونے دیں گے سوانہوں نے شفارشات اپنے سامنے کمپوز کروائیں جبکہ اس دوران وزیر قانون وزیراعلی کو فون پر مسلسل رپورٹ کرتے رہے کہ سکردو سے آنے والے افراد نےہماری حکومت کے لئےمشکلات مزید بڑھادی ہیں بلکہ ان افراد کو تحریک میں شمولیت سے روکنے کے حربوں سے بھی وزیراعلی کو آگاہی دیتے رہے، بعد ازاں حکومتی اہکاروں کو اپنے ہی پھیلائے جال میں جکڑے جانے پر اس کوتاہی کا احساس ہوا مگر دیر ہوچکی تھی عوامی سمندر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کاعمل شروع ہوتے ہی مذاکرات کامیابی کے آخری مراحل میں تھے تو عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کے رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر کے معاملے پر وزیر قانون بنا ذمہ داری لئے میٹنگ برخاست کر کے بھاگ نکلے اس بات پر عوام مزید طیش میں آگئے معاملات ٹھیک ہونے کی بجائے مزید پیچیدگی اختیار کرگئے تو عوامی ایکشن تحریک نے عوام سے مطالبہ کیا کہ جب تک گلگت بلتستان کو آئینی ترمیم کے زریعے آئین پاکستان میں شامل نہ کیاگیا ہر طرح کے ٹیکسز کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں لہذا ان کانفاذ کسی بھی صورت قابل قبول نہ ہوگا اس دوران حکومت کی جانب سے عوام کو تقسیم کرنے کے لئے مقامی اور غیر مقامی کا شوشہ چھوڑا گیا تاکہ عوامی تحریک میں پھوٹ پڑنے سے اسے ناکامی سے ہمکنار کیا جاسکےلیکن شومئ قسمت کہ یہ حکمت عملی بھی ناکامی سے ہمکنار ہوئ تو وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی اور انجمن تاجران کے نمائندوں کو “را” کا ایجنٹ قرار دیا گیا مگر عوامی نمائندوں نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مسائل کو حل کروانے میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے دھرتی ماں پاکستان کی لاج رکھ لی، اگلے دن جب سکردو سے عوام گلگت کی جانب رواں دواں تھے تو مذاکراتی کمیٹی کی بیٹھک پھر ترتیب دی گئ جس میں حکومتی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین میں یہ بات طے ہوئی کہ دونوں طرف سے وفد اسلام آباد روانہ کیا جائے گا جہاں بے جا ٹیکسز کے نفاذ کے حوالے سے وزیراعظم سے ملاقات کی جائےگی، قارئین کرام اس مرتبہ بھی شفارشات تیار ہوئیں جس میں آڈپٹشن ایکٹ 2012 کا خاتمہ اور معدنیات پالیسی کے حوالے سے نکات تھے اسلام آباد سے معاملات کے حل اور نوٹیفکیشن تک سکردو سے آنے والے عوامی سمندر کو واپس کرنے کے ساتھ تمام اضلاع میں احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد آج کی تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ آڈپٹشن ایکٹ 2012 کو تو ختم کر دیا گیا لیکن معدنیات پالیسی کے حوالے سے تحفظات ابھی تک باقی ہیں آخر میں دیکھنا یہ ہے کہ عوامی منتخب نمائندے ہی مختلف حیلے بہانوں سے مسائل کو بڑھاوا دیتے ہوئے حالات کو نہ جانے کس سمت لے جانا چاہتے ہیں، خدا ان کو عقل سلیم عطا فرمائے اور یہ عوام کے حقوق کاتحفظ کر نے والے بنیں ناکہ ڈاکہ ڈالنے والے، اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین