صبر ! اب آزمایا جا رہا ہے
کیوں آپس میں لڑایا جا رہا ہے
سیاسی چپقلش دھرتی میں ہر سوں
دلوں کو بھی ُدکھا یا جا رہا ہے
ہے دھرتی یہ شہیدوں غازیوں کی
صد افسوس! اب بُھلا یا جا رہا ہے
کبھی قاتل کبھی مقتل کے قصّے!
شریفوں کو رلایا جا رہا ہے
یہاں وہ کس نے بویا غدر کے بیج؟
عجب دیوان پڑھا یا جا رہا ہے
سیاسی شخصیت ہو یا عوامی
یوں نظر وں سے گرایا جا رہا ہے
یہ گلگت ! دیس ہے شہ رگ وطن کی
ممالک کو لُبھایا جا رہا ہے
ہو لاکھوں بار کی کوشش بے سود !
تماشا ہی دکھایا جا رہا ہے
کہاں گمنام ہے وہ قومی غیرت؟
وطن کو اب گنوا یا جا رہا ہے
بس اب اِک التجا ! ہر مرد ِ مومن
لو ! غفلت سے جگایا جا رہا ہے
اٹھو دھرتی کی لاج اے جانبازو !
کفن تجھ میں سمایا جا رہا ہے
عبث ہیں لاکھ اندھیرے ! جہاں میں
اُمید ِ نّو دکھا یا جا رہا ہے
ہے دُختر امن کی خواہاں وطن میں
مجھے بھی کیوں ستایا جا رہا ہے
میں نوشی! مر مٹوں دھرتی پہ ہر دم
شہادت سے ڈرایا جا رہا ہے