ہنزہ نیوز اردو

شناکی ہنزہ میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی غیر قانونی شکار عروج پر ،محکمہ وائلڈ لائف خاموش تماشائی

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

ہنزہ 23 دسمبر ہنزہ نیوز ( بیوررپورٹ) شناکی ہنزہ میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی غیر قانونی شکار عروج پر ،محکمہ وائلڈ لائف خاموش تماشائی بن گیا ،اس سے جانوروں کی نسل کشی کا خطرہ ۔ ٹرافی ہنٹنگ کے لئے اہم اور موضوں علاقہ جہاں سارا سال ٹرافی ہنٹنگ کی جاسکتے ہیں اور جس سے کروڑوں روپے ٹرافی ہنٹنگ کی مدمیں حکومت اور وہاں کے عوام کو مل سکتے ہیں جس سے اس علاقے کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے نہ کہ صرف ایک ہی فائدہ ہو ۔تفصیلات کے مطابق ہنزہ کے ’’لاور کے علاقے ‘‘یعنی ہنزہ شناکی کے گاؤں خضر آباد ،حسین آباد،مایون ،خانہ آباداور ناصر آباد میں غیر قانونی طور پر جنگلی جانوروں اور پرندوں کی شکار عروج پر ہے اور لوگ غیر قانونی طور پر نائب جانوروں کی شکار کررہے جس سے ان کی نسل کشی کا خطرہ لاحق ہے ۔ان نائب جانوروں میں گلگت بلتستان میں پایا جانے والا مارخور ،چکور ، اور دیگر جانور شامل میں جن کی نسل کشی کا خطرہ ہے ۔خنجراب نیشنل پارک ،قراقرم نیشنل پارک اور دیگر علاقوں سے خوراک کی تلاش میں آنے والے ان جانوروں کو بڑی پیمانے پر شکار کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان پارک میں تحفظ دی گئی جانوروں کی نسل کشی کا بھی شدید خطرہ ہے ۔اگر اس طرح سے غیر قانونی طور پر شکار کرنے سے روکا نہیں گیا تو ایک توجانوروں اورپرندوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے اور دوسری جانب دیگر علاقوں سے آنے والے جانوروں اور پرندوں کی شکار سے ان علاقے یعنی جہاں یہ جانور اور پرندے خوراک کی تلاش میں آتے ہیں ان پارک میں تحفظ دینا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا کیوں کہ ان علاقوں سے آنے والے ہر جانور اور پرندوں کا ہنزہ شناکی کے علاقوں میں غیر قانونی طور پر شکار کیا جاتاہے ۔خیال رہے ہنزہ گوجال کے علاقے میں ان جانوروں اور پرندوں کی غیر ملکی سیاحوں اور ملکی سیاحوں کی ہنٹنگ کے ذریعے کروڑوں رقم حاصل کیا جاتا ہے جس سے اس علاقے کی فلاح و بہبود یعنی تعلیم اورصحت پر خرچ کیا جاتاہے ۔اگر اس طر ح ہنزہ شناکی میں بھی محکمہ وائلڈ لائف اور WWFکے تعاون سے اس غیر قانونی طور پر شکار کو روکا گیا تو ٹرافی ہنٹنگ کے مدمیں کروڑوں روپے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ