ہنزہ نیوز اردو

شاپ ایک قدیم اور بابرکت رسم

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

یوں تو ہمارے معاشرے میں قدیم زمانے سے بہت ساری رسوم جو کہ اسلامی بھی ہیں اور غیر اسلامی بھی سب معاشرے میں اچھے اقدار کی چلی آرہی ہیں جو کہ درجنوں کے حساب سے موجود تھیں مگر زمانے کی تیزی اور جدیدیت نے کئی اہم اور بہترین رسوم کو ناپید کرکے رکھ دیاہے۔ پھر بھی چند اہم رسوم ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو کہ آج کلاندرون ملک بلکہ بین الاقوامی شہرت اختیار کر گئی ہیں جن میں ایک تو نسالو ہے اور دوسری بہترین رسم شاپ ہے۔ کسی زمانے میں گلگت اور گرد ونواح کے علاقوں میں یہ اچھی اور بابرکت رسم زمانے کے حالات نے ناپید کر دئے تھے،مگر ابھی حالات پھر مہر و وفا اور امن کی طرف لوٹ آئے ہیں اس لئے اسی رسم نے پھر سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بننا شروع کیا ہے یہ رسوم ایسے ہیں کہ جن سے انسان ایک دوسرے کے قریب آتا ہے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونے کا موقع ملتا ہے اور علاقے میں مہر و محبت اور بھائی چارگی پیدا ہوتی ہے۔
شاپ دعایہ کلمات کو کہتے ہیں اور اس میں جوان لڑکے ہر گھر کے دروازے پر جاکر جیسے نیچے درج ہیں ان دعایہ کلمات کو دہراتے ہیں اور وہاں سے حسب توفیق جو ملتا ہے اس کو جمع کرکے ان سے کہیں اجتماعی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں اور وہاں دعوت کھلا کر وطن کی خوشحالی اور امراض کی دوری کے لئے دعا کراتے ہیں۔ اب پھرکچھ عرصے سے گلگت اور گرد و نواح میں یہ رسم دوبارہ زندہ کی گئی ہے اور بڑے زوق و شوق سے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس سے محظوظ ہونے کے لئے ملک کے کونے کونے سے لوگ آتے ہیں۔
اس کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ جب یہاں اسلام کی روشنی نہیں پھیلی تھی اس زمانے میں یہاں بد مت کا دور دورہ تھا اور لوگ کھیتی باڑی کرکے اور مال مویشی پال کر اپنی زندگی گزارتے تھے اس زمانے میں دستور تھا کہ جب بھی موسم سرما کے شروع میں جنگل سے بھیڑبکریاں گاؤں کی طرف لائی جاتی تو ان کو ان کے مویشی خانے کے اندر داخل کرنے سے پہلے باقاعدہ ایک خاص رسم ادا کی جاتی جس میں گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچے ”اُشار کی تھالیاں لے کر چرواہوں کے استقبال کے لئے گاؤں کے سرے میں بنے مویشی خانے آتے اور سر شام چرواہے اپنا ریوڑ ھ لے کر پہنچ جاتے اور وہ اپنے ساتھ دودھ اور آٹا گوندھ کر موٹی اور چھوٹی چھوٹی روٹیاں ”چھپٹی“ پکا کر لاتے اور بچوں سے اشار اٹھا کر کھاتے اور ان کو ایک ایک چھپٹی تحفہ دیتے اور بچے دعا دیکر گھروں کو چلے جاتے اس طرح بھیڑ بکریوں کو مویشی خانے کے اندر چھوڑنے سے پہلے سب کے اوپر تھوڑا پانی چھڑک دیتے جسے وہ متبرک تصور کرتے تھے۔ اب ان میں سے کوئی مویشی اپنے گردن کو ہلا کر اسے نیچے گرا دیتا تو اسے مویشی خانے کے اندر جانے دیا جاتا اور ان میں ایک یادو جانور پانی کو ہل ہلا کر گرا نہیں دیتے تھے پھر ان کو الگ کیا جاتا تھا اور ان کو دیوتا کے نام پر قربان کیا جاتا اور قربان کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اس جانور کے تین حصے کئے جاتے جن میں سے ایک حصہ اسی رات پکایا جاتا جس میں اوجڑی اور سری پائے شامل ہوتے پھر محلے داروں کو بلایا جاتا اور کھلا یا جاتا ایک حصہ الگ کرکے رکھ دیا جاتا اور گاؤں میں موجود غریب اور لاچار لوگ اس کے دروازے پر آتے تو اس حصے کو ان کے حوالے کیا جاتا۔ باقی گوشت کو سٹور کرکے رکھ دیا جاتا اور اسے کم کم کرکے استعمال کیا جاتا اور وہ جو غریب لوگ تھے وہ اس طرح کا اپنا حصہ پاکر دعا دیتے ہوئے چلے جاتے۔ بعد میں جو گوشت سٹاک کیا جاتا اس کو نسالو کا نام دیا گیا اور جو غریب دروازے پر آتے اور دعا دیتے ان کو شاپ کہا جانے لگا اور کہا جا تا تھا کہ شاپ کے لوگ آئیں گے تو ان کو دینا ہے۔ اس طرح یہ دونوں رسوم کئی صدیوں سے گلگت اور گردو ونواح میں چلتے آئے۔ اور ان میں کئی تبدیلیاں بھی آئیں اور اس کا اصل حسن بگاڑ کے رکھ دیا گیا۔ آج کل مرغی زبح کرکے بھی نسالو ہوتا ہے اور بازار سے بھینس کا دس کلوگوشت الاکر بھی نسالو ہوتا ہے اس لئے سٹاک شدہ گوشت سڑھنے کی شکایا ت ہوتی ہیں اس طرح شاپ کے سارے اشعار بھول گئے ہیں صرف شنا میں ”ایک اجینوک دا ہیں اور ایک کھیرینوک دا ہیں“ یاد رہا ہے وہ کوئی دعایہ کلمات نہیں ہیں۔
اس طرح جو لوگوں کی طرف سے کچھ ملتا ہے تو اس سے کوئی اجتماعی کھانا بنا کر کھلا کر اس سے دعا کرانے کی بجائے یہاں بھی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن نے جگہ بنا لی ہے۔پھر بھی یہ رسم ہمارے ٹوٹے دلوں کو واپس جوڑنے کے لئے ایک بہترین دوائی سمجھو دلوں کو جوڑں ے کے لئے ایلفی کا کام دے رہی ہے۔ اصل شاپ کے اشعار اس کے اردو ترجمہ کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں،۔
شناء میں اشعار اردو ترجمہ
برکت شَرو شاپ ویا ہیں خزاں کے موسم میں دعایہ کلمات کہو آمین
دا امو سنیک آل ہیں مغرب کی طرف سے دریا آیا آمین
نے سین سے ژپ ولیک ہیں دریا نے دولت (سونا) لایا آمین
نے ژپ سے چئی ولیک ہیں دولت نے عورت (بہو) لایا آمین
نے چئی سے جات ولیک ہیں عورت (بہو)نے اولاد لایا آمین
نے جات سُوچیمی تھا ہیں اولاد فرمانبردار پیداہو آمین
اسو سوم دارئے تھا ہیں ہم جیسے آپ کے بھی بیٹے ہوں آمین
اسوسوم پوچے تھا ہیں ہم جیسے آپ کے بھی پوتے ہوں آمین
دارئیو کولا بیرا ہیں بیٹے کے سر پہ ہیرے کا تاج ہو آمین
پوچو لاچھا بیرا ہیں پوتے کے سر پر سونے کا تاج ہو آمین
درگئے ریلے تھا ہیں گھر کے چوکھاٹ پیتل کے ہوں آمین
نو در چیمارو تھا ہیں اور دروازہ لوہے کا ہو آمین
(یعنی دولت ہی دولت ہو آپ کے گھر میں)
منوکو گی دلی تھا ہیں مینڈک سے دَلی بناؤ آمین
کیر کلی گی گوچو تھا ہیں چھپکلی سے نالیاں بناؤ آمین
اگائی گی تاؤ دا ہیں آسمان کو توا بناؤ آمین
بیردی چمولی تھا ہیں زمین سے چولہا بناؤ آمین
گوینئلیر گو شک ہیں مویشی خانہ مویشی سے بھر جائے آمین
ہرائیر لَچ شک ہیں بکری خانہ بکریوں سے بھرجائے آمین
ہمہ ریر کلے شک ہیں گودام میں اناج بھر جائے آمین
سراؤ پالیو دا ہیں چھُری تیز کرو آمین
نو ہتھ گوٹومو تھا ہیں کنجوسی مت دکھاؤ آمین
(آخر میں یہ دونوں اشعار لڑکے اپنے مطلب کی گاتے ہیں)
امٹے گچھی کیٹے تھُر۔۔۔۔۔۔۔۔(گھر کے اندر جانے کے لئے اجازت کے الفاظ)
کہین کہیں کچھ اضافی دعائیہ اشعار بھی کہے جاتے ہیں جو کہ زیل ہیں۔
مثلاً i۔اسئی مامئی مونیر جیک بیٹو جیک بیٹو۔۔۔ سونو گُندو پوچ بیٹو پوچ بیٹو
ii۔اسئی ککائے مونیر جیک بیٹی جیک بیٹی سونی ہلال مل بیٹی مل بیٹی وغیرہ
ترجمہ ہمارے ماموں کی گود میں کیا ہو، اس کی گود میں ایک خوبصورت بیٹا ہو۔
ہمارے بھائی جان کی قسمت میں کیا ہو اس کی قسمت میں ایک خوبصورت بیوی ہو۔
شاپ کے دعایہ کلمات کہنے کے بعد اجازت لے کر گھر کے اندر آتے ہیں اور جری اور جرو کو نچاتے ہیں اور ایک شغل کرتے ہیں پھر جرو گھر کے مالک سے کچھ مانگتا ہے اور گھر سے اسے نقدی یا جنس کی صورت میں گوشت مکئی گندم یا کچھ بھی دیا جاتا ہے اور وہ دعا دیکر رخصت ہو جاتے ہیں۔ آج کل ہمارے ہاں گلگت میں بسین، ڈومیال حیدر پورہ، نپورہ نگرل بارگو شروٹ وغیرہ میں بڑی دھوم دھام سے یہ رسم اد کی جاتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری سونی وطن ان جیسے محبت بھرے رسوم کی وجہ سے ایک دفعہ پھر سوتی ماتی بن جائے اور ترقی کی دوڑ میں سب سے آگے نکلے۔ آمین۔ شپئی شودارئے زندہ باد۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ