ہنزہ نیوز اردو

سید طفیل کی شہادت اور انصاف

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

تحریر: شمس الحق نوازش غذری
نوجوان گیند کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہا تھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی انہیں ایسے بریک لگا کہ خود انہیں سنبھلنا مشکل ہوا۔ان کے قدموں کی زمین کے ساتھ زوردار رگڑ سے مٹی کی دھول نے تھوڑی دیر کے لئے سموگ کا منظر پیش کیا، دھول چھٹتے ہی وہ مسحور کن مسکراہٹ اور ادب کے ساتھ میری طرف بڑھا اور انتہائی عجز و انکساری سے مصافحہ کے لئے دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھایا۔ میری لائف ہسٹری میں ان کے ساتھ میری یہ پہلی ملاقات تھی۔اس وقت ان کے چہرے پر ظرافت اور شرافت نمایاں تھی اور اوپر سے انتہائی شستہ اور خالص چترالی کھوار میں “کیچہ آسوس، تازہ گی شیرا”کے جملے کی مدہم مگر میٹھی آواز میں ادائیگی نے میرے وجود پر رقت طاری کر دیا۔ گفتگو اور گفتار کا انداز کچھ ایسا تھا کہ سنتے رہئے اور سر دھنتے رہئے۔”تھے جام خدایار”کے بعد دلِ با زوق کی آرزو یہی تھی
چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشین کے ساز کو
لیکن یہ ہماری پہلی مگر دلچسپ ملاقات تھی، ملاقات میں گرمجوشی کی تمام وجوہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے والد محترم پروفیسر مولانا سید عبدالجلال بیک وقت میرے اُستاد اور میرے حضرت اباجان مولانا حمایت الحقؒ کے انتہائی قریبی دوست تھے۔وہ روزمرہ کی طرح اس دن بھی غذر کے چند دوستوں کے ساتھ اپنی گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔اس وقت ایک طرف اُن کے حُسنِ صبیح اور وجیہ شخصیت تو دوسری طرف اُن کی شائستہ اور ادب العالیہ نے پہلی ملاقات میں ہی دوسری ملاقات کے لئے ترسا دیا۔لیکن اس نوجوان ملاقاتی کے ساتھ ابھی تعلقات کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا کہ حیاتِ مستعار کے اختتام کا مرحلہ بھی سر ہوا۔غالباََ ایسے ہی کسی موقع کے لئے شاعر نے کہا ہے
تھا بہت دلچسپ نیرنگ سیراب زندگی
اتنی فرصت ہی نہ پائی جو ٹھہر کے دیکھتے
پھر جب بھی میں نے اُسے کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا تو وہ فیلڈنگ میں بہت کم ہی نظر آیا۔میں نے اکثر اُسے کرکٹ کی ”کریز“ پر ڈٹا ہوا پایا۔کرکٹ کے راز و رموز سے گہری شغف رکھنے والوں کا کہنا ہے۔اچھا بیٹسمین وہ نہیں ہوتا جو زیادہ چوکے اور چھکے مارتا ہے بلکہ اچھا بلے باز وہ ہوتا ہے جو زیادہ دیر تک وکٹ پر قائم رہتا ہے اور استقامت کے ساتھ وکٹ میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔اس لئے دور اندیش کہتے ہیں دُنیا میں کامیاب لوگ وہ ہیں جو دنیا میں پیش آنے والے حادثات کو ”بلے باز“ کی طرح دیکھتے ہیں۔وہ اپنی طرف آنے والی گیندوں کو روکتے ہیں۔سید طفیل الرحمن شہید نے بھی اسلامک یونیورسٹی کے گیٹ میں کرکٹ کے کریز کی طرح ڈٹا رہا۔اور جمعیت کے کُتب میلہ پر حملہ آوروں کو لوز بال کی طرح چوکے اور چھکے مارتا رہا۔یہ کرایے کے غنڈے ایک دن پہلے بھی جمعیت کے طالبات کے پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کیے تھے لیکن یہاں جب تک طفیل کے بدل میں روح باقی تھا۔تب تک وہ مسلح غنڈوں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنا رہا۔رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد بننے کا درس صغر سنی میں انہیں اُس وقت ملا تھا جب وہ بوتل پی رہا تھا اور جومدرس انھیں شب و روز درسِ شہادت سے نواز رہا تھا۔ااس مدرس کو بھی اللہ تعالیٰ نے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحیم چترالی اور مولانا عبدالحق قادری جیسے آساطین علم اور آفتاب زمانہ سے بھرپور استفادہ کی سعادت سے نوازا تھا۔۔۔۔جی ہاں! وہی مولانا عبدالرحیم چترالی جو آج سے تقریباََ کوئی22سال پہلے شندور میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے سپاسنامہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔چترال کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے سپاسنامہ پیش کرنا اُن کا آئنی اور قانونی حق تھا۔لیکن اُس وقت کے صوبہ سرحد اور اِس وقت کے خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ مولانا مرحوم کو اس جُرم میں سپاسنامہ پیش کرنے سے روکنا چاہ رہے تھے کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور ردِ عمل میں مولانا چترالی آفتاب احمد شیر پاؤ کے ریشمی بالوں کو کھینچ کر اُن کے چہرے پر زوردار تھپڑ اس لئے ریسد کر رہے تھے کہ اُن سے اُن کا یہ قانونی اور آئینی حق دُنیا کی کوئی طاقت چھین نہیں سکتی۔ اور آج بھی کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں سے اُسی تھپڑ کے آواز کی صدائے باز گشت اس لئے سنائی دے رہی ہے کہ ظالم کے سامنے کلمہئ حق کہنا جہاد ہے تو ظالم پروار کرنا جہادِ اکبر ہے
سید طفیل الرحمن پر بزدلوں نے گیٹ کے عقب سے چُھپ کر اینٹ سے وار کردیا۔دراصل یہ اینٹ، اینٹ نہیں اور یہ دہشت گردوں کا ہتھیار بھی نہیں بلکہ یہ سید طفیل کا وہ آرزو اور وہ خواہش تھی جس کے حصول کے لئے وہ شعور کی سرحد پر قدم رکھتے ہی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے کیونکہ انھیں آنکھ کھولتے ہی شہادت سے سرفرازی کا درس ملا تھا اُن کا پہلا اور آخری آرزو بھی یہی تھا۔انھوں نے دُنیاوی تمام تقاضوں کو ضرورت اور شہادت کو مقصد کا درجہ دے رکھا تھا۔یہ اُن کی اصل منزل تھی اس منزل کا انہیں بچپن سے تلاش تھی۔12دسمبر کی سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی اُن کو اُن کی آخری منزل مل چکی تھی۔دُنیا والوں کا خیال ہے وہ اب زندہ نہیں لیکن رب العالمین کا اعلان ہے”بَل احیاء“ وہ زندہ ہے لیکن اہلِ دُنیا کو اس کا شعور نہیں۔
دُنیا میں ایسے بچے خوش نصیبی اور خوش قسمتی کا ہار گلے میں ڈال کر جنم پاتے ہیں جو بہنوں اور بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہوتے ہیں۔پاکستان کے شمالی سماج میں والدین اور تمام بہن بھائیوں کی محبتوں اور شفقتوں کا مرکز عموماََ چھوٹا بھائی یا چھوٹی بہن ہوتی ہے یہاں خوش طالع اور اچھی تقدیر والے تمام بہن بھائیوں میں سب سے آخر میں جنم پاتے ہیں اور سید طفیل الرحمن کا نام بھی اُن خوش نصیبوں کی فہرست میں شامل تھا۔جن کی سب سے آخر میں آفرینش ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے طفیل دُنیا میں آنکھ کھولتے ہی سب کی محبتوں کا آمین اور سب کی شفقتوں کا مرکز ٹھہرا، بچپن میں اُن کی معصوم اداؤں اور اُن کے حُسن و دلکشی کے سبب گھر میں انھیں نیوکلس کا درجہ حاصل تھا۔
وہ زندگی کے حسین ترین رنگوں سے بھرپور تھا بلکہ وہ شرافت و شائستگی اور خدمت سے بھی لبریز تھا۔اُن کی جہانِ فانی سے اُٹھ جانے کے بعد میں فیس بُک میں جب اُن کی تصاویر دیکھتا رہا تو وہ ہر تصویر میں مسکرا رہا تھا۔اِن تصویروں کو دیکھ کر ہر انسانی آنکھ سے آنسوؤں کا چھلکنا فطری تھا یوں میرے پورے بدل سے آنسو برستے رہے۔اس انجہانی کیفیت میں، میں نے اُن کی تصویر سے کہا تم واپس آجاؤ۔ انہی تصویروں سے آواز اائی۔اس شاہراہ پرجب بھی کسی نے قدم رکھا ہے وہ کبھی واپس آیا ہے اور نہ کبھی واپس آئے گا۔میں تو شہادت کا پیراہن اوڑھ کر جنت کی طرف عازمِ سفر ہوں، جہاں حوروں کا ہجوم میری پیشوائی کے لئے بیتاب ہے۔
سید طفیل الرحمن کا وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام سے سوال ہے۔میرا جُرم کیا تھا ور مجھ سے کس جُرم کی پاداش میں جینے کا حق چھینا گیا۔دُنیا میں کیمیائی، بارودی اور ایٹمی ہتھیاروں کی د وڑ میں کتابوں کی نمائش کیا اتنا سنگین جُرم ہے۔کیا علاقائیت اور لسانیت کے مقابلے میں پاکستانیت کا نعرہ لگانے والے پاکستان کے دارالحکومت میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟ اس وقت لسانیت کے نام پر جو لوگ پاکستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اُن کے مذموم عزائم سے میرزہ غالب آج سے کئی سو سال پہلے واقف تھے۔کہنے والے کہتے ہیں ”غالب انگریزوں کی سازش بھانپنے والا پہلا شخص تھا وہ کہتا تھا انگریز برصغیر کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرے گا۔وہ مسلمانوں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو اردو اور ہندؤں کی بولی کو ہندی کہے گا۔غالب کہتا تھا مجھے سمجھ نہیں آتی زبان ہندو یا مسلمان کیسے ہوسکتی ہے۔زبان تو صرف زبان ہوتی ہے۔یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے مسلمانوں کی بھینس مسلمان اور ہندؤں کی ہندو، آج انگریز تو موجود نہیں لیکن اُن کے حواری لسانیت اور علاقائیت کے بتوں کی تعمیرمیں انگریزوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔لسانیت کے نام پر عصبیت کے بتوں کی معماران کے کرتوتوں سے زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے سرگرداں دانشور اور ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ زبانوں کی ترقی کے عمل کے نتیجے میں اگر ”ٹکراؤ“ مقدر ہے تو پھر زبانیں لاکھ معدوم ہوجائیں لیکن انسانوں کا انسانوں کے ساتھ زبان اور لسانیت کے نام پر بغض و عداوت نہ ہو۔
یہاں انتہائی جنیوئین سوال کا اصل پہلو یہ ہے کہ شہید طفیل الرحمن کے والدین کو اس بات کا دُکھ اور ملال نہیں کہ اُن کی مفارقت ابدی ہے بلکہ یہ رنج وغم اُن کے صدمے اور غم کو غم فزا بناتا جا رہا ہے کہ جس طرح سید طفیل کے سفاک قاتلوں نے عقب میں روپوش ہوکر اُن کا خون کردیا کہیں یہ خونخوار قانون کی نظروں سے بھی اپنی کمین گاہوں کے عقب میں چُھپ کر روپوش تو نہیں ہونگے۔طفیل کے خون سے رنگین درندہ صفت ہاتھوں میں کہیں معصومیت کے دستانے تو نہیں چڑھیں گے۔طفیل کے قاتل کہیں مہذب طالب علم کا ماسک اپنے منحوس چہرے میں چڑھا کر اسلامک یونیورسٹی میں دھندناتے تو نہیں پھریں گے۔
انصاف یہ نہیں۔۔۔کہ اس جانکاہ حادثے کی صرف مذمت کی جائے۔انصاف یہ نہیں کہ روایتی احتجاج کے بعد یہ حادثہ قصہ پارینہ بن جائے انصاف یہ نہیں کہ حکمران صرف اور صرف دُکھ اور افسوس کا اظہار کریں انصاف یہ ہے کہ شفی القلب قاتلوں کو ایک نہ ایک دن سرِ شام مقفل زندان کے سلاخوں کے پیچھے سے اُن کی ورثاء سے آخری ملاقات ہو۔انصاف تو یہ ہے ایک نہ ایک دن اُن کے قدموں تلے پھانسی کا تختہ گلے میں پھانسی کا پھندا اور سامنے کوئی جلاد مسیح کھڑا ہو۔
آخر میں کھوار کے ممتاز شاعر حسن بصری کے ان اشعار سے اجازت

تہ حَسن دست بہ دُعا نصیب لوٹ مقام تتے بائے
حساب کتابار پروشٹی جنتو پیغام تتے بائے
گیانی حوران تتے پروشٹ وا ہیتان سلام تتے بائے
تو بیکو سف روئے رینیان وفو ای کردار راہی ہوئے
نو نسائے ھردی پھتی مہ ھردیو یار راہی ہوئے

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ