ہنزہ نیوز اردو

سیاسی گوناگونی اور نطریاتی منافقت

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

مملکتِ خداداد پاکستان میں ہر آنے والا وقت بے تکے اور غیر منتقی سیاسی و نظریاتی تجربات سے بھر پور ہے۔۔۔قیام پاکستان کے فوراً بعد روشن خیال پاکستان اور شدت پسند فکر کے حامل افکار کے مابین پہلے اسلامی ملک کے اساس پر تقسیمِ دیکھی گئی ۔۔۔اسلامی فلاحی ریاست سے ذولفقار علی بھٹو کے انقلابی سرخ نظریات یعنی دائیں بازو کے انتہائی روشن خیالی لبرل نظریات کے امتزاج کا تجربہ ہوا۔۔جس کے تحت شراب خانوں کے اجازت نامے جاری ہوئے ۔۔۔مذہبی اور عقائد کو ذاتی فعل گردانہ گیا۔۔۔۔کیمونیزم اور سوشلزم سے متاثر ہوئے ذولفقار علی بھٹو نے نشنلائزیشن پالیسی کے تحت تمام بڑے صنعتوں اور ریاست کے تمام مالیاتی اداروں کو سرکاری تحویل میں دیکر متوسط اور عام جنتا کو اس غیر منصفانہ دولت کے تقسیم کے خلاف حصہ دینے کا نام دیا گیا ۔۔۔بری طرح ناکامی پر کمیونیزم/سوشلزم کے ماڈل میں تبدیلی کر کے ایک اور ناکام معاشی ماڈل اسلامی سوشلزم کا ماڈل دیا۔۔۔ویسے آپ کی دلچسپی کے لیے اسی ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے مارشل لاء دور میں تقریباً تقریباً 8سال سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دی ۔۔۔ضیاالحق کے مارشل لاء دور میں بھٹو کے تمام سیاسی و معاشی فیصلوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیکر 1973کے آئین کو تمام غیر اسلامی شقوں کو ختم کر کے اسے مکمل اسلامی نظام کے عین مطابق بنانے اور تعلیمی نصاب تک تبدیل کر کے خود امیر المومنین کے رتبے پر فائض ہوئے ۔۔۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے فکری اور نظریاتی جھکاؤ کا اس تناظر میں موازنہ ہو تو وفاق کی بڑی سیاسی جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم سمیت درجن بھر کیمونزم/ سوشلزم کے نظریات کو اپنی پارٹی کے دستوری اساس گردانتے ہیں جسے حرف عام میں لیفٹ یا سنٹر لفٹ(دائیں بازو) کی جماعت سمجھا جاتاہے دوسری طرف پاکستان کے بڑی جماعتوں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف ،قابل ذکر ہیں سنٹر رائٹ(جزوی بائیں بازو )کی جماعت تصور کی جاتی ہے یعنی انکا جھکاؤ مذہبی رجحانات کے حامل خیالات کیطرف زیادہ ہوتا ہے جبکہ بائیں بازو رائٹ کی سیاست کے جماعتوں کا اساس مذہب ،مسلک یا مذہب کے اندر بھی اختلاف کی بنیاد پر الگ مذہبی سوچ کو روان چڑھانے اور اسی طبقہ فکر کے خیالات کو نظام حکومت کا حصہ بنانے یا پھر اپنے خیالات یا نظریات کے مخالف فکر یا قانون کے خلاف مزاحمت بھی ہوتا ہے ۔۔۔ایسے ایسے بائیں بازو کی جماعتوں میں جماعت اسلامی جو کہ مودودی فکر اور طرز حکومت کے قائل ہیں مگر اس میں اہل سنت کے دیوبند فکر کا غلبہ ذیادہ نظر آتا ہے اسی طرح جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان سمیت دیگر ان سے الگ دھڑے ملک میں نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی مخصوص مسلکی انداز میں رائج کرنے کے لیے سرگرم ہیں جبکہ جمعیت علماء پاکستان ،تحریک لبیک پاکستان بھی بریلوی مسلمانوں کے خیالات فکر کو لیکر نظریاتی اساس کو رائج کرنے یا دفاع کرنے پر سرگرم عمل ہے جبکہ اہل تشیع کے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جو غالباً اب پابندی کے بعد اسلامی تحریک پاکستان آئی ٹی پی کے نام سے کام کر رہی ہے علامہ ساجد نقوی کے سرپرستی میں کام کر رہی ہے ظاہر ہے نام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اہل تشیع کے اساس کو بنیاد بنا کر ملک میں س فکر کی حکمرانی کے لیے سرگرم عمل ہے جبکہ متحدہ وحدت المسلمین ایم ڈبلیو ایم بھی مخصوص اہل تشیع کے پاکستان میں حقوق کے حصول کی جنگ میں مصروف یے۔۔۔جنھیں قارئین نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کے واقعات پر چوک چوراہوں پر احتجاج اور دھرنے دیتے اکثر نظر آتے ہیں یہ بائیں بازو یعنی رائٹ نظریات کے حامل جماعتیں دیگر اور بھی مذہبی جماعتیں پاکستان میں فعال سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہیں ۔۔۔جنہیں لفٹ یعنی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد شدت پسند ،قدامت پسند سمیت ریڈیکل خیالات کے حامل سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو روشن خیال ،اصلاح پسند سمیت کئی القابات سے نوازتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایک طبقہ قوم پرستی کے نام پر ریاستی استحصال کے خلاف ریاست سے علیحدگی اور خصوصی معاشرتی و ثقافتی وابستگی کو بنیاد بنا کر جدو جہد اور کبھی یہ لوگ مسلح جدو جہد سے بھی باز نہیں آتے جنھیں ریاست علیحدگی پسند تنظیم کے طور پر ڈیل کرتی ہے۔۔۔۔پاکستان میں سیاسی اتحاد کو لیکر میں نے اپنے فیس پہ ایک پوسٹ کیا کہ “پاکستان تحریک کے بیک وقت دو شوہر ہیں یعنی وفاق اور پنجاب میں ایم ڈبلیو ایم اور کے پی کے میں جماعت اسلامی ” اس پر کچھ دوستوں کی رائے پر سوچا کچھ لکھ لوں ۔۔پاکستان سمیت دنیا کے جمہوری ملکوں میں ہم خیال سیاسی جماعتوں سے انتخابی اتحاد یا پھر حکومت سازی کے اتحاد ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے بلکہ ہمارے ملک میں ہم خیال تو چھوڑیں مخالف نظریات کے حامل جماعتیں بھی حکومت مخالف تحریکوں ،ا نتخابی اور حکومت سازی کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے اتحاد ایک معمول کی بات ہے مگر آج کے انتخابی دنگل میں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کے انتخاب اور خواتین اور اقلیتوں کے خصوصی نشست کے حصول نے تحریک انصاف کو ایک بڑے مخمصے سے دوچار کیا اور اسی کشمش میں پی ٹی آئی نے ایک انتہائی غیر منطقی اور اپنے نظریاتی اساس اور جمہوری روایت کے برخلاف اپنے پنجاب کے تقریبآ 119 صوبائی اسمبلی کے ممبران اور قومی اسمبلی کے تقریباً 92 ممبران کو حلف نامے کے ساتھ متحدہ وحدتِ المسلمین میں باقاعدہ شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے اپنے آزاد اراکین کو جماعت اسلامی میں شمولیت کرانے کے درپے ہیں جسکا بنیادی مقصد صرف اور صرف خواتین اور اقلیت کے مخصوص نشستوں کا حصول ہے۔۔۔۔۔میری کم علمی میں یہ تجربہ یا سیاسی فیصلہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور پارٹی میں انظمام کے لیے دو مذہبی رجحانات کے حامل جماعتوں کا انتخاب کسی اچھنبے سے کم نہیں ۔۔۔۔پھر بے شمار قانونی پیچیدگیاں جنم لینگے پارٹی کے پارلیمانی کمیٹی کے برخلاف ووٹ دینے یا نہ دینے کے بعد کے صورتحال ۔۔۔۔دوبارہ اپنی آزاد حیثیت میں بحالی کے لیے اجتماعی استعفوں کے بعد استعفوں کی منظوری۔۔۔۔قانون سازی میں پارٹی کے قیادت کے یک طرفہ فیصلوں کے بعد کے صورتحال نے تحریک انصاف کے قیادت کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔۔۔۔سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد کا بننا اور ٹوٹنا ایک فطری اور جمہوری عمل ہے مگر اپنے آزاد اراکین کو ایک مزہبی/مسلکی جماعت میں شامل کر کے انکے تنظیم کے نظریات اور منشور سمیت پارٹی کے دستور پر بعیت لینا انتہائی غیر سیاسی ہی نہیں بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے لہٰذا مناسب ہوگا کہ تحریک انصاف ویسے بھی کڑے امتحان سے گزر رہا ہے تو محض چند خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص نشستوں کے لیے اس طرح کے شرمناک حرکت سے اجتناب کریں اور گناہ بے لذت کےلئے تیار میزبان جماعتوں کو بھی کچھ لحاظ رکھنا ہوگا ورنہ سیاست میں ناجائز تعلقات استوار رکھنے اور اس گناہ بے لذت کے سیاسی عذاب سے مستقبل میں کوئی نہیں بچے گا ۔۔۔

مملکتِ خداداد پاکستان میں ہر آنے والا وقت بے تکے اور غیر منتقی سیاسی و نظریاتی تجربات سے بھر پور ہے۔۔۔قیام پاکستان کے فوراً بعد روشن خیال پاکستان اور شدت پسند فکر کے حامل افکار کے مابین پہلے اسلامی ملک کے اساس پر تقسیمِ دیکھی گئی ۔۔۔اسلامی فلاحی ریاست سے ذولفقار علی بھٹو کے انقلابی سرخ نظریات یعنی دائیں بازو کے انتہائی روشن خیالی لبرل نظریات کے امتزاج کا تجربہ ہوا۔۔جس کے تحت شراب خانوں کے اجازت نامے جاری ہوئے ۔۔۔مذہبی اور عقائد کو ذاتی فعل گردانہ گیا۔۔۔۔کیمونیزم اور سوشلزم سے متاثر ہوئے ذولفقار علی بھٹو نے نشنلائزیشن پالیسی کے تحت تمام بڑے صنعتوں اور ریاست کے تمام مالیاتی اداروں کو سرکاری تحویل میں دیکر متوسط اور عام جنتا کو اس غیر منصفانہ دولت کے تقسیم کے خلاف حصہ دینے کا نام دیا گیا ۔۔۔بری طرح ناکامی پر کمیونیزم/سوشلزم کے ماڈل میں تبدیلی کر کے ایک اور ناکام معاشی ماڈل اسلامی سوشلزم کا ماڈل دیا۔۔۔ویسے آپ کی دلچسپی کے لیے اسی ذولفقار علی بھٹو نے ایوب خان کے مارشل لاء دور میں تقریباً تقریباً 8سال سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی خدمات سر انجام دی ۔۔۔ضیاالحق کے مارشل لاء دور میں بھٹو کے تمام سیاسی و معاشی فیصلوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیکر 1973کے آئین کو تمام غیر اسلامی شقوں کو ختم کر کے اسے مکمل اسلامی نظام کے عین مطابق بنانے اور تعلیمی نصاب تک تبدیل کر کے خود امیر المومنین کے رتبے پر فائض ہوئے ۔۔۔پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے فکری اور نظریاتی جھکاؤ کا اس تناظر میں موازنہ ہو تو وفاق کی بڑی سیاسی جماعتوں میں عوامی نیشنل پارٹی ،پاکستان پیپلز پارٹی ،ایم کیو ایم سمیت درجن بھر کیمونزم/ سوشلزم کے نظریات کو اپنی پارٹی کے دستوری اساس گردانتے ہیں جسے حرف عام میں لیفٹ یا سنٹر لفٹ
(دائیں بازو) کی جماعت سمجھا جاتاہے دوسری طرف پاکستان کے بڑی جماعتوں جن میں پاکستان مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف ،قابل ذکر ہیں سنٹر رائٹ(جزوی بائیں بازو )کی جماعت تصور کی جاتی ہے یعنی انکا جھکاؤ مذہبی رجحانات کے حامل خیالات کیطرف زیادہ ہوتا ہے جبکہ بائیں بازو رائٹ کی سیاست کے جماعتوں کا اساس مذہب ،مسلک یا مذہب کے اندر بھی اختلاف کی بنیاد پر الگ مذہبی سوچ کو روان چڑھانے اور اسی طبقہ فکر کے خیالات کو نظام حکومت کا حصہ بنانے یا پھر اپنے خیالات یا نظریات کے مخالف فکر یا قانون کے خلاف مزاحمت بھی ہوتا ہے ۔

یسے بائیں بازو کی جماعتوں میں جماعت اسلامی جو کہ مودودی فکر اور طرز حکومت کے قائل ہیں مگر اس میں اہل سنت کے دیوبند فکر کا غلبہ ذیادہ نظر آتا ہے اسی طرح جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمان سمیت دیگر ان سے الگ دھڑے ملک میں نظام شریعت کے نفاذ کو اپنی مخصوص مسلکی انداز میں رائج کرنے کے لیے سرگرم ہیں جبکہ جمعیت علماء پاکستان ،تحریک لبیک پاکستان بھی بریلوی مسلمانوں کے خیالات فکر کو لیکر نظریاتی اساس کو رائج کرنے یا دفاع کرنے پر سرگرم عمل ہے جبکہ اہل تشیع کے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ جو غالباً اب پابندی کے بعد اسلامی تحریک پاکستان آئی ٹی پی کے نام سے کام کر رہی ہے علامہ ساجد نقوی کے سرپرستی میں کام کر رہی ہے ظاہر ہے نام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے اہل تشیع کے اساس کو بنیاد بنا کر ملک میں س فکر کی حکمرانی کے لیے سرگرم عمل ہے جبکہ متحدہ وحدت المسلمین ایم ڈبلیو ایمبھی مخصوص اہل تشیع کے پاکستان میں حقوق کے حصول کی جنگ میں مصروف یے۔۔۔جنھیں قارئین نے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کے واقعات پر چوک چوراہوں پر احتجاج اور دھرنے دیتے اکثر نظر آتے ہیں یہ بائیں بازو یعنی رائٹ نظریات کے حامل جماعتیں دیگر اور بھی مذہبی جماعتیں پاکستان میں فعال سیاسی منظر نامے پر نمایاں ہیں ۔۔۔جنہیں لفٹ یعنی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد شدت پسند ،قدامت پسند سمیت ریڈیکل خیالات کے حامل سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو روشن خیال ،اصلاح پسند سمیت کئی القابات سے نوازتے ہیں جبکہ پاکستان میں ایک طبقہ قوم پرستی کے نام پر ریاستی استحصال کے خلاف ریاست سے علیحدگی اور خصوصی معاشرتی و ثقافتی وابستگی کو بنیاد بنا کر جدو جہد اور کبھی یہ لوگ مسلح جدو جہد سے بھی باز نہیں آتے جنھیں ریاست علیحدگی پسند تنظیم کے طور پر ڈیل کرتی ہے۔۔۔۔پاکستان میں سیاسی اتحاد کو لیکر میں نے اپنے فیس پہ ایک پوسٹ کیا کہ “پاکستان تحریک کے بیک وقت دو شوہر ہیں یعنی وفاق اور پنجاب میں ایم ڈبلیو ایم اور کے پی کے میں جماعت اسلامی ” اس پر کچھ دوستوں کی رائے پر سوچا کچھ لکھ لوں ۔۔۔پاکستان سمیت دنیا کے جمہوری ملکوں میں ہم خیال سیاسی جماعتوں سے انتخابی اتحاد یا پھر حکومت سازی کے اتحاد ایک سیاسی عمل کا حصہ ہے بلکہ ہمارے ملک میں ہم خیال تو چھوڑیں مخالف نظریات کے حامل جماعتیں بھی حکومت مخالف تحریکوں ،ا نتخابی اور حکومت سازی کے لیے مشترکہ کوششوں کے لیے اتحاد ایک معمول کی بات ہے مگر آج کے انتخابی دنگل میں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین کے انتخاب اور خواتین اور اقلیتوں کے خصوصی نشست کے حصول نے تحریک انصاف کو ایک بڑے مخمصے سے دوچار کیا اور اسی کشمش میں پی ٹی آئی نے ایک انتہائی غیر منطقی اور اپنے نظریاتی اساس اور جمہوری روایت کے برخلاف اپنے پنجاب کے تقریبآ 119 صوبائی اسمبلی کے ممبران اور قومی اسمبلی کے تقریباً 92 ممبران کو حلف نامے کے ساتھ متحدہ وحدتِ المسلمین میں باقاعدہ شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے اپنے آزاد اراکین کو جماعت اسلامی میں شمولیت کرانے کے درپے ہیں جسکا بنیادی مقصد صرف اور صرف خواتین اور اقلیت کے مخصوص نشستوں کا حصول ہے۔۔۔۔۔میری کم علمی میں یہ تجربہ یا سیاسی فیصلہ اپنی نوعیت کا انوکھا اور پارٹی میں انظمام کے لیے دو مذہبی رجحانات کے حامل جماعتوں کا انتخاب کسی اچھنبے سے کم نہیں ۔۔۔۔پھر بے شمار قانونی پیچیدگیاں جنم لینگے پارٹی کے پارلیمانی کمیٹی کے برخلاف ووٹ دینے یا نہ دینے کے بعد کے صورتحال ۔۔۔۔دوبارہ اپنی آزاد حیثیت میں بحالی کے لیے اجتماعی استعفوں کے بعد استعفوں کی منظوری۔۔۔۔قانون سازی میں پارٹی کے قیادت کے یک طرفہ فیصلوں کے بعد کے صورتحال نے تحریک انصاف کے قیادت کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے ۔۔۔۔سیاسی جماعتوں کے مابین اتحاد کا بننا اور ٹوٹنا ایک فطری اور جمہوری عمل ہے مگر اپنے آزاد اراکین کو ایک مزہبی/مسلکی جماعت میں شامل کر کے انکے تنظیم کے نظریات اور منشور سمیت پارٹی کے دستور پر بعیت لینا انتہائی غیر سیاسی ہی نہیں بلکہ غیر اخلاقی بھی ہے لہٰذا مناسب ہوگا کہ تحریک انصاف ویسے بھی کڑے امتحان سے گزر رہا ہے تو محض چند خواتین اور اقلیتوں کے مخصوص نشستوں کے لیے اس طرح کے شرمناک حرکت سے اجتناب کریں اور گناہ بے لذت کےلئے تیار میزبانث جماعتوں کو بھی کچھ لحاظ رکھنا ہوگا ورنہ سیاست میں ناجائز تعلقات استوار رکھنے اور اس گناہ بے لذت کے سیاسی عذاب سے مستقبل میں کوئی نہیں بچے گا ۔۔۔۔۔۔۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ