ہنزہ نیوز اردو

سوشل میڈیا اور سماجی اقدار

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

                                اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مسلمانوں کی شاندار سماجی اقدار ہیں۔ یہ ایسی اقدار ہیں جو پوری انسانیت کے لیے ماڈل اور نمونہ ہیں۔انسانی سماج میں ارتقاء کا عمل جاری ہے۔اس سماجی نظام میں ہر صبح کوئی نہ کوئی تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔اور یہ تبدیلی کسی نئے پیغام  اور حقیقت کا مژدہ سنا دیتی ہے۔کائنات میں ہر طرح کی تبدیلیوں کی طرح ذرائع ابلاغ میں بھی  تبدیلیاں اور ترقیاں جاری ہیں۔بلکہ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ ذرائع ابلاغ کے میدان میں شعبہ ہائے زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی زیادہ ہوئی ہے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ مسلمانان عالم   میڈیائی ترقی کے ان مراحل میں رہنماء بننے کی بجائے  مسلسل پسماندگی کا شکار ہیں۔ذرائع ابلاغ کے تمام بڑے نیٹ ورک غیروں کے قبضے میں ہیں جہاں مسلمانوں کی کوئی شنوائی نہیں۔ذاتی اور ریاستی دونوں سطح پر مسلم دنیا تنزلی کا شکار ہے۔

سوشل میڈیا اور سماجی اقدار کے درمیان قریبی اور گہر اتعلق ہے۔ جدید دور میں، سوشل میڈیا نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب لا کر روابط کو آسان بنا دیا ہے۔درست معنوں میں دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ ہم پلک جھپکنے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں اور لاکھوں میل دور لوگوں سے آسانی سے رابطہ اور علمی و سماجی موضوعات پر مکالمہ کرسکتے ہیں۔اس کے ساتھ  ہی  سوشل میڈیا نے سماجی اقدار کو متاثر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، اور یہ اثرات مثبت اور منفی دونوں ہوسکتے ہیں۔

سوشل میڈیا کے  ہتھیار سے ہمارے ملی، دینی، اورقومی مفادات ، تہذیبی اقدار  اور دینی افکار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔سوشل میڈیا ایک بہتا دریا ہے۔اس کے صارفین اس میں جواہر اور موتی بھی ڈال سکتے ہیں  اور زہر بھی انڈیل سکتے ہیں۔اگر آج کے مسلم نوجوان کی سماجی رابطوں پر ترجیحات کا جائزہ لیا جائے تو وہ اس فورم میں گند اور کچرا ہی ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا جتنا اخلاقی، تبلیغی اور تعلیمی نقطہ نظر سے مفید تر ہے  اسی لیول میں ہی  انسانی اقدار و اخلاق کو تباہ و برباد کرنے میں بھی موثر ہے۔

سماجی اقدار وہ اصول اور اخلاقی معیارات ہیں جو معاشرتی رویے اور اجتماعی زندگی کے معیارات کو طے کرتے ہیں۔ یہ اقدار معاشرتی رویوں، قوانین، اور اخلاقیات کو تشکیل دیتی ہیں، اور وہی اقدار ثقافت یا مذہب کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔ علوم دینیہ کے مفکرین کو اس باب میں غور و خوض کی ضرورت ہے۔سماجی مشکلات کا حل دینا اور سماجی اقدار کو علوم دینیہ کی روشنی میں حل دینا آج کے مسلم سماجی مفکرین کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے مگر وہ صدیوں پرانے فروعی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔

عمومی سماجی اقدار میں  دوسرے کے حقوق،  خیالات و افکار کا احترام، ایمانداری، انصاف اور غیر جانبدارانہ سلوک،شفقت و رحمدلی، محبت و مودت اور تعاون اور بالخصوص مختلف الفکر  والعقائد لوگوں اور ان کی سماجی و ثقافتی اقدار  کے ساتھ برداشت و قبولیت  کے ساتھ رہناشامل ہیں۔اسلام کی خاصیت یہ ہے کہ ان سب کو سموتے ہوئے کئی ایک مزید اقدار کی بات کرتا ہے۔ جن میں تقویٰ، عدل ، مواخات، حیا، احسان، شکرگزاری، صبر، عزت و احترام اور صدقہ و خیرات اور مواخاۃ قابل ذکر ہیں۔فحشاء و رزائل، ظلم و ستم  اور نفرت و تعصب سے اجتناب  اور  پرہیز اسلام کی امتیازی  قدریں ہیں۔ان اعلی شان قدروں کو جدید خطوط میں مرتب کرنا اور بیان کرنا علماء اسلام کا کام ہے۔کیا وہ اپنی اس ذمہ داری کو نبھا رہے ہیں؟۔

سوشل میڈیا آج کل ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔جدید انسان کا اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ لوگ مختلف پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹویٹر(ایکس)، انسٹاگرام،ٹک ٹاک،یوٹیوب،ٹیلی گرام،لنکڈ  ان، اسنیپ چیٹ،ریڈڈیٹ،پنٹیرٹ،ڈسکارڈ اور واٹس ایپ کے ذریعے اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرتے ہیں۔یہ پلیٹ فارمز مختلف مقاصدمثلا جغرافیائی، علاقائی،مذہبی ،سماجی اور مخصوص دلچسپیوں کے لیے استعمال ہوتی ہیں اورمعلومات کی رسائی کا  اہم،تیز ترین اور سستا ترین ذریعہ بھی بن گئے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے، خاص طور پر مقدسات اسلامی کی توہین کے حوالے سے اس پلیٹ فارم کو انتہائی بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے ۔

اسلام کے مقدسات میں قرآن کریم، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام،اہل بیت عظام،ائمہ اطہار،دینی شعائر، حرمین شریفن اور دیگر انبیاء کرام اور اسمانی کتب شامل ہیں۔ جب سوشل میڈیا پر مقدسات اسلامی کی توہین کی جاتی ہے، تو یہ عمل، نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرتا ہے، بلکہ سماجی اقدار اور بین المذاہب ہم آہنگی کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ سوشل میڈیا نے اسلامی اقدار و شعائر کے ساتھ دیگر سماجی اقدار کا بھی جنازہ نکل کر رکھ دیا ہے۔

سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلائی جارہی ہیں۔بہتان تراشی اور تہمت اندازی کا وسیلہ بنایا گیا ہے۔اس کو نفرت کی آگ لگانے اور فرقہ پرستی کے لیے بھی  کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح دہشت گرد گروہ بھی اس کو خوب استعمال کرتے ہیں۔اور مختلف مذاہب کے خود ساختہ خدائی فوجدار بھی عام مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے سوشل میڈیا کے جملہ ٹولز  اور پلیٹ فارمز کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔اسی طرح ہماری سماجی اقدار کی بربادی کے لیے  فحشاء کی اشاعت  اور بے حیائی کی خوب تبلیغ کی جاتی ہیں۔سنجیدہ  معاشروں میں جو چیزیں خلوت اور میاں بیوی کے درمیان معیوب سمجھی جاتی ہیں  ان کا استعمال و اظہار بھی سوشل میڈیا میں ڈھٹائی کے ساتھ بلکہ فخریہ کیا  جاتا ہے۔یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے دھوم مچا کر رکھ دیا ہے۔یہ وہ چیزیں ہیں جن سے ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہیں ۔ یہی چیزیں اخلاقی اقدار کے لیے تباہ کن اورزہر ہلاہل سے کسی طور کم نہیں۔بندہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کچھ دیکھنے اور سننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔حد یہ ہے کہ کوئی چارہ گر نہیں۔

سوشل میڈیا میں رسول اللہ ﷺ ، اصحاب رسول ﷺ، اہل بیت عظام، قرآن کریم اور دیگر مقدس مقامات و شخصیات کے متعلق غلیظ پروپیگنڈ کیا جاتا ہے۔ اس میں غیروں کے ساتھ اپنے نادان دوست بھی شامل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے سماج میں برے اثرات مرتب ہوتے اور اور مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔اس سب کے باوجود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صبر کے ساتھ متانت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ قانون ہاتھ میں بالکل نہ لیں۔نفرت سے خود کو بھی بچائیں اور اپنے معاشرے کے دیگر لوگوں کو بھی بچائیں بالخصوص غیر مسلموں بھائیوں کی تضحیک و توہین اور ان کے مذہبی شعائر و مقاسات کی قطعا بے حرمتی نہ کریں۔ اور ایسا کرنے والوں کے خلاف ملکی قوانین کی روشنی میں کاروائی عمل میں لائیں۔

یہاں یہ بات ضروری ہے کہ ہم سب مل کر سوشل میڈیا کے صحیح استعمال کو فروغ دیں اور غلط استعمال کے خلاف آواز اٹھائیں۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سوشل میڈیا پر مقدسات اسلامی کی توہین کے خلاف سخت قوانین بنائیں اور ان قوانین کا سختی سے اطلاق کریں۔ اسی طرح، سوشل میڈیا کمپنیوں کو بھی اپنی پالیسیوں میں مقدسات کی توہین کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے چاہیے۔تاکہ ہمارا سماج مزید بربادی سے بچ سکے اور ہماری اقدار کا جنازہ نہ نکلے۔

آخر میں، ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو ایک مثبت اور احترام پر مبنی پلیٹ فارم بنائیں۔ ہمیں اپنے الفاظ اور اعمال میں احتیاط برتنا چاہیے اور مقدسات اسلامی کی توہین کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہونا چاہیے۔ یہ صرف ایک مذہب یا کمیونٹی کی بات نہیں ہے؛ یہ انسانیت اور سماجی اقدار کا سوال ہے۔

نوٹ: یہ تحریر ریڈیوپاکستان کے 2024کی ”خصوصی آگہی مہم بابت سوشل میڈیا پر توہین مقدسات کی روک تھام”  لکھ کریکارڈ کروائی گئی ہے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ