ہنزہ نیوز اردو

سماج جہل كی ذد میں

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

خُدا کی تخلیق کردہ مخلوقات میں جِن و حیوان سمیت انسان بھی ہیں اور انہی انسانوں میں بھی درجہ بندی ہے مثلا” غریب انسان، امیر انسان، بادشاہ، غلام، صحتمند اور کمزور انسان وغیرہ۔ اللہ کی ہدایت اور رہنمائی اس مطابق واضع ہے کہ مزکورہ بالا اشخاص کو ایک دوسرے پر کسی ایک وجہ سے برتری حاصل نہیں اور یہ لوگ سوچنے کی صلاحیت میں بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ انکا معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا اور طور طریقے بھی مطابقت نہیں رکھتے۔ان لوگوں میں یکسانیت نہ ہونے کی ایک اور بڑی دلیل یہ ہے کہ ان میں جِنسی تقسیم بھی موجود ہے جنکو مرد، عورت کا شناخت حاصل ہے۔ ایک الگ پہچان ملنا فِطری عمل ہے مگر یہ کہی صادر نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو خصوصی غلبہ حاصل ہے۔ معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے وہ تمام حقوق جو ایک صحت مند اور لچکدار معاشرہ ضمانت دیتا ہے ان سب سے مرد،عورت  اِستفعادہ حاصل کر سکتے ہیں مگر فرائض کی تکمیل اور نجی زندگی جسے ہم عائلی زندگی سے بھی پہچانتے ہے کو بسر کرنے کے حوالے سے مُستند تعلیمات دین اسلام نے واضع کیے ہیں۔جیسے بتایا گیا ہے کہ انسان کے طور طریقوں میں یکسانیت  نہیں بلکہ اقدار میں فرق ہیں جس بنا پر وہ متعلقہ معاشرے کیلئے موزُوں ثابت ہوتے ہیں اور ضروری نہیں کہ وہی اقدار کہی اور بھی اپنائے جائیں لیکن اگر برادری میں دوسرے رسوم کی شمولیت کا امکان ہوجائیں تو اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کہ پہلے ادوار کے اقدار منجمد تو نہیں ہوئے جن سے معاشرے میں عدم و استحکام ممکن تھا۔ ان اقدار کی رد و بدل سے تضّادات اور لوگوں میں حوصلہ شکنی اور اضطرابی بیماریاں نمایاں ہونگے۔
بدلتے حالات اور نظریات پر جب ہم نظر ڈالتے ہے تو معاشرے میں کسی قسم کی تفریق نظر نہیں آتی لیکن ایک اسلامی انجمن کا حسن یہی ہے کہ تمام تر ترقی اور بدلاو کے باوجود خاندانی زندگی کا تصّور قائم ہے جس مضبوطی کے ساتھ یہ تصور پہلے سے قائم تھی، جہاں ایسے اقدار موجود ہے وہاں ان میں نقائص ڈھونڈنے والوں کی بھی کمی نہیں جس سے معاشرے میں بے چینی عام بات ہے مگر ساتھ ساتھ بدسلوکی اور بےڈھنگا پن لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔
خاندانی زندگی مرد عورت دونوں کو تحفظ دیتی ہے چاہے ماں باپ ہو یا  اِنکی اولاد۔ یہ زندگی ہمیں جینے کے آداب سکھاتی ہے اور پہچان بخشتی ہے، جب ہم اسی زندگی سے عدم اتفاق کریں تو  اپنی پہچان تو کھو جائیں گے ہی لیکن ساتھ ساتھ ہمارا شُمار بھی  ہمیشہ کے لیے ان میں ہوگا جو زہنی تنگ دستی کا شکار ہے اور دوسرے  نوع انسان سے گُھل مِل جانا مشکل ہوگا۔ کسی نے بجا فرمایا ہے کہ آپ جو کچھ ہوتے ہیں اسکے ہونے کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ کہتے ہے وہ کوگوں کو سنائی ہیں دیتا، لہزٰا روایات کو تھامے رکھنا پستی نہیں بلکہ ایک قابل فخر بات ہے کیونکہ آپکی پہچان آپ خود ہونے کے علاوہ آپکی رسم و رواج اور تاریخ ہے۔
 
صِنفی شناخت کے بنا لوگوں میں لگاو ہونا قدرتی دستور ہے جس سے کوئی انسان خالی نہیں لیکن جب افراد تربیت اور معاشرہ جس میں وہ رہ رہیں ہے وہاں کے طور طریقوں کو پس پشت ڈالیں  تو یہ قدرتی لگاو نہ صرف ناپسند بلکہ بے حیائی اور معاشرہ برہنگی کا شکار ہوگا۔ ہر فرد کو تعین کردہ حدود میں رہ کر زندگی گزارنا چاہیے،جہاں عورت کو عزت و آبرو کا خیال رکھنا چاہئیے وہاں کے مردوں پر بھی لازم ہے کہ معاشرے کی تقدس کا خیال رکھتے ہوئے تِتربِتر خیالات کو قابو میں رکھتے ہوئے دوسروں کا عزتِ نفس مجروع ہونے سے بچائیں۔
وقت جہالت میں عزت اور محبت دونوں کو بلند مقام حاصل تھا مگر بدقسمتی سے آج کے زمانے میں یہی دونوں چیزوں کو شمع محفل بنا کر لوگ تماشائی بنے ہوئے ہیں جو اپنے ہی عزت کے نوٹ نچھاور کرتے ہوئے بے شرمی کو آگ لگا رہیں جسے شاعر یوں بیاں کرتے ہے کہ
   “بڑے سکون سے ہر شخص،
     اک عزاب میں ہے۔”
 
انہی معاشرتی بےضابطگیوں میں محُو خیال تھا کہ پاس ایک خوبصورت پھول جو دوسرے پھولوں کے مقابلے منفرد اور حسین تھا جو تازہ خوراک، ہوا اور برابر روشنی ملنے کی وجہ سے  اردگرد کے پھولوں کے لیے ایک مثالی پھول تھا، اس پھول میں خاص بات یہ تھی کہ کانٹے اس پر نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے وہ دور دور پھیل کر خوبصورتی کو مزید چارچاند لگا رہے تھے۔ دوسرے پھول جو قدرے بدصورت نظر آرہے تھے ان پر کانٹے یکے بعد دیگرے لگے تھے، مجال ہے کہ ساتھ پھولوں پر جو کانٹوں سے بھرے پڑے تھے کوئی ایک مکّھی بھی جا سکیں اور ڈنگ مارے تا کہ مائع حاصل ہو جو عموما” مکھیاں خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ میری نظر اس پھول پر سے ہٹتی نہیں تھی مگر دکھ کی بات یہ تھی کہ کوئی بھب مکھی اُڑ آتی اور پتے نوچ کر چلی جاتی تھی، یوں مکھیوں کا آنا جانا تیز ہوتا گیا اور خوبصورت پھول ایک عام پھول کی منظر پیش کرنے لگی۔ پاس بیٹھے دوسرے پھول جو کانٹوں کی وجہ سے پسند نہیں کیا کرتے تھے حسین لگنے لگے اور مکھیاں لاکھ تگ و دو کے باوجود دیکھتے رہ گئے اور کچھ مایوس چلے گئے جس سے ثابت ہوا کہ کانٹے بظاہر حفاظت پر مامور تھے۔ تب مجھے خیال آیا کہ ہم جیسے ترقی پزیر ممالک اور معاشرہ جس میں عدم تحفظ ہو وہاں مرد مکھی اور عورت زات پھول بن جاتی ہے۔
اوپر کے تمام بیان کردہ باتیں میری سوچ کی نشاندہی کرتی ہے جس سے آپکو اختلاف ہو، اور ہونا بھی چاہیے مگر آپ کیا سوچتے ہیں؟ تمام حقائق جاننے کے بعد میں اس بات سے پیچھے نہیں ہٹتا کہ معاشرہ چاہے جیسا بھی ہو پھول کو ہمیشہ چاہیے کہ اپنے ساتھ کانٹوں کو برابر خوراک دیتے رہے ورنہ کم عقل اور بے صبر مکھی کا کیا بھروسہ کہ کب کس پھول سے رس لے آئیں۔ جس معاشرے میں باپ سگی بیٹی کو 500 روپے کے عوض دوست کو بیچ دے، جہاں 50 سالہ شخص کی ۱۱ سالہ بچی سے شادی کی کوشش ہو، جہاں پسند کی شادی نہ کرنے پر باپ بیٹی کی چمچ سے آنکھیں نکال دیں، جہاں ایک سال میں جنسی تشدد کے 545 کیسز آئے اور ناجائز تعلق کی وجہ سے پیدا ہوئے ننے بچوں کو دو دو منزلہ عمارتوں سے گرائے جائے، جہاں 6 سالہ بچی کی عصمت دری ممکن ہو, جہاں بچوں كے سامنے ماں كو بیچ سڑك میں رسوا كریں  وہاں اگر پھول اپنے ساتھ کانٹے نہ رکھے تو بیوقوفی ہوگی۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ