ہنزہ نیوز اردو

سر زمین ہنزہ ہر ہائنس پرنس کریم آغا خان کی پہلی تشریف آوری: ترقی اور دنیا کے ہم عصر علمی و فلسفیانہ نظریات پر ان کی مظبوط گرفت۔

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

(مقالہ خصوصی)

عیاں را چہ بیان کے مصداق یہ تاریخی حقیقت روز روشن کے مانند ہے کہ ماہ اکتوبر کی بیس سے چھبیس تاریخ کا یہ ہفتہ سر زمین گلگت – بلتستان کی تاریخ میں تمام محترم و محتشم مکاتب فکر کے لوگوں کی نظر میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے ۔ اور یہ کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کے بعد سے تا این دم ترقی کے ابواب و اسباب کے سامان پیدا و مہیا کرنے کی طرف حکومت وقت کے شانہ بشانہ عملی اقدامات نے وہ جہت اختیار کر لی کہ آج تک قابل تحسین و ستائش ہے ۔ اس زکر جمیل و تزکرہ میں ہم ہز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان کی حالیہ سالوں و عشروں کی تحریرات و تقریرات کا خلاصہ مجموعی اجمالی خاکے کی شکل میں پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔

قارئین محترم و مکرم، زیر نظر مضمون میں ایک قسم کا تقابل و موازنہ پیش کیا جاتا ہے ۔ چونکہ بڑی اقوام و افراد کا شعار و وطیرہ مختصر المدتی کے ساتھ ساتھ، اور محض سطحی بصارت کی بجائے، طویل المدتی فیصلوں اور ترقی کی بصیرت پر بھی کما حقہ محیط و مبنی ہوا کرتا ہے۔ اس لئے، جس طرح ابھی تزکرہ ہوا، آئے ہز ہائی نیس کی اپنی تحریروں و تقریروں کا، جو آپ نے حالیہ چند سالوں یا عشروں میں اور خاص طور پر اپنے مادر علمی، یعنی ہارورڈ یونیورسٹی سمیت مغربی دنیا کے چند دیگر عظیم جامعات و مراکز علم و دانش میں ارض شمال کی ترقی کے لئے اپنی جاری و ساری کاوشوں و کوششوں کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اسے نہ صرف اپنے فرائض منصبی کا اہم حصہ قرار دیا بلکہ اس وقت سے تا حال دنیا میں رُونما ہونے والے اکثر حالات و واقعات کے متعلق گہرا تجزیہ بھی پیش کیا ہوا ہے ان میں ۔ اس سلسلے میں آپ کے مظبوط و غیر متزلزل نکتہ نظر اور موقف کی عکاسی و غمازی نظر آتی ہے جس میں آپ اپنی تخت نشینی سے لیکر اب تک انسانوں میں، بشمول جملہ اقوام و مزاہب عالم و جغرافیائی خطوں اور علاقوں میں بلا امتیاز رنگ و نسل اور عقیدہ خدمات انجام دینے کے حوالے سے علمی و عقلی مراکز فہم و دانش میں اپنی اکثر جاری گفتگو میں یہ بات واضح طور پر بتاتے رہے ہیں کہ بقول آپ کے کہ”یو مے بی این ایجوکیٹڈ پرسن ان دہ جوڈیو – کرسچین ورلڈ ، بٹ یو مے اسٹل بھی اگنورینٹ اباوٹ اسلام”۔ اور حالانکہ وہاں پر آپ کو بطور پہلے، یا مسلم راہنماؤں میں، جو ممکن ہے بہت ہی کم ہی ایسا ہوتا ہو کہ، مغربی دنیا کے ان مراکز میں اس طرح کھل کر اسلام کا دفاع کیا جانا ، خود ہی ایک اہم پہلو ہے۔ مثلآ خاص طور پر یہ بات براؤن یونیورسٹی ہو، یا ہارورڈ یونیورسٹی ہو، یا دیگر مقامات ہوں، جن سب کا حوالہ یہاں ایک مختصر سی تحریر میں اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے ۔

تو برسبیل تذکرہ کے علاؤہ یہ بات ہورہی تھی کہ ترقی کی دنیا میں جہاں مزہب بیزاری کا اور مادیت کا ایک نظریہ اکثر اوقات یہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ مغرب و دیگر ترقی یافتہ اقوام و ممالک نے اس سلسلے میں بہت پہلے سے ہی اس سلسلے میں چھوڑ کر ترقی کرلی ہے تو اب ہم چونکہ بہت پیچھے ہیں ترقی میں تو ہم اب سے ہی کیونکر اس چیز سے بعجلت و تیزی ہی چھٹکارا کیونکر حاصل نہ کریں۔ تو اس سلسلے میں بھی آپ اکثر انہی اقوام و ممالک کو یہ بات روز روشن کی طرح اور واشگاف علمی اور عقلی دلیل کے ساتھ اپنے نرم اور عقلی لب و لہجے میں موثر اور مفید طریقے سے گوش گوار کراتے ہیں کہ چونکہ، چلیں، مثال کے طور پر، عیسائی و مسیحی دنیا کے حوالے سے یورپ میں اگر ایسا ہو بھی ہے ، یعنی کلیسا اور ریاست کی علحیدگی (سٹیٹ-چرچ ڈائکو ٹومی کے حوالے سے) تو کیا، یعنی کچھ مخصوص تاریخی عوامل و وجوہات بشمول اقتدار و اختیار کی جنگ کے پس منظر میں اگر ایسا ہوا بھی ہے تاریخ میں تو کیا، آپ نے جیسا کہ توتزنگ ایوانجیکل ایوارڈ کے ادارے سے گفتگو میں فرمایا کہ، کیا انجیل مقدس میں پیرابل آف دی گوڈ سماریتن کے متعلق آپ لوگوں کو بہتر پتہ ہے۔ تو پھر ایسا نہیں ہے نا! تو ساری کی ساری قدیم تعلیمات میں اچھائ کی تلقین موجود ہے۔

تو اسی طرح خوف و ہراس کے ایک منظر نامے کے متعلق بھی، یعنی دنیاوی ترقی کے پس منظر میں، آپ نے مزید فرمایا کہ ترقی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہ کیا ہمیشہ ایک روحانی طریق کار بھی کار فرما نہیں ہوسکتا کیا! اور یہ بات ، دنیاوی نجات و خلاصی(ایمین سپیشن) کے حوالے سے بھی بالکل ہی کی جاتی ہے علمی و عقلی حلقوں میں کہ اس سلسلے میں بھی روحانی طریقے اور نظریات و وسائل بالکل ہی موجود ہیں۔ اور کیا انبیاء کرام اور ائمہ اور دیگر مقدس ہستیوں نے تاریخ میں اس طرح کے وسائل اور ذرائع کا بہتر استعمال نہیں کیا ہے!

اب آتے ہیں کیا آج کل چند اہم ہم عصر فلسفیانہ و علمی نکات، اور خاص طور پر تنقیدی نظریات کی طرف کہ کیا ان کے سارے کے سارے مکاتب فکر ایک دوسرے سے یک دم متفق و متحد ہیں۔ نہیں نا! کیا یونانی بائیں بازو کے دانشور یانس ویرا فواکس دیکر کے ساتھ مثلاً بعد جدیدیت اور لبرل دانشوروں سے متفق ہیں؟ وہ تو نہیں۔ اور کیا امریکی فلسفی پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن ہیکس اور جرمن سیاسیات کے ڈاکٹر کرسچین ولیزیل ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ نہیں نا! موخر الذکر تو ترقی کے حوالے سے نفسیات دانوں کے ایک بڑے مجمع میں سیاسیات کے پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے درمیان میں یہ مثال بھی دیتے ہیں کہ بیشک سیاست اور جمہوریت ہی اہم ہے لیکن اس کے علاؤہ تاریخی ایک پس منظر کا ہونا زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں، اور وہ اس سلسلے میں کچھ ملکوں اور خاص طور پر روس، رومانیہ اور ہنگری وغیرہ کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں ہر دنیاوی نجات و خلاصی (ایمینیپیشن) کے حوالے سے گراف کے ایک افق پر بہت ہی ترقی دیکھی گئی ، لیکن کوالٹی پوائنٹس اور دیگر پہلوؤں کے حساب سے اب ان ممالک کی واپسی کی طرف گامزن کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح ہز ہائی نیس جنوبی امریکہ کے کسی ترقیاتی سروے کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس میں تو یہ دیکھا گیا کہ اکثریت یہ چاہتی ہے کہ جمہوری طرز سے بھی اگر ترقی کی بجائے اس کے مسائل نظر آتے ہیں تو مظبوط اٹوکریسی اس کا نمبر لینے کےلئے تیار نظر آتی ہے ۔

راقم الحروف اکثر و بیشتر سرد جنگ میں ہز ہائی نیس کے تاریخی ثالثی و مفاہمتی کردار کی بھی مثال دیتا ہے جو آپ کے زریعے اور رہائش گاہ پر سن اسی کی دہائی کے وسط میں سوویت روس اور امریکہ کے مابین انتہائی اہم، مگر خطرناک، موڈ پر مذاکرات ہوئے تھے اور جس میں صدر ریگن اور میخائل گورباچوف نے ماسوائے روحانی تجدید کے اور کسی اور ذریعے سے اس کا حل نہیں دیکھ پانے پر آپ سے رابط کیا تھا (بحوالہ: بی بی سی و مکاؤ ڈیلی ٹائمز) اور جس کے متعلق صدر ریگن کی ایوانجیکل خطاب اپنے ملک میں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ اس کے علاؤہ نظریات کی زبان میں اگر بات کی جائے تو کیا دیکر عظیم پیش گوئیوں یا
بیانات میں سے اگر دو ہی کا نتیجہ کیا نکلا الٹا ہی نا! مثلآ یہ کہ جنگ عظیم میں سارے سرمایہ دارانہ نظام کے ممالک ایک دوسرے کو ختم کرنے کے بعد صورتحال اشتراکی نظریات کا حامل ہوں گے، جو کہ انیس سو اکیانوے کے بعد کچھ اور ہی ثابت ہوا ۔ اور ریاست کے خاتمے کی پیش گوئی بھی الٹی ثابت ہوئی ۔ تو اب محض ایڈیشنل کوور ہر حملے کرنا ہی جو باقی رہ گیا ہے تو وہ تو جاتی ہے۔ پہلے بھی تاریخ میں ایسا ہوا ہے اور یہ قضیہ و ضد قضیہ یعنی تھیسز- اینٹی (اینٹائ) تھیسسز کی جدلیاتی عمل کا حصہ ہے ۔

تو حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے کے انقلابی نظریے اور اب تنقیدی نظریات، جن کا احاطہ ایک طرف جہاں زاں زاکس روسو سے مشل فوکو اور دوسری طرف رینے ڈیکارڈ سے لیوتارڈ تک اور تیسری طرف بعد کے اوائل میں میکس ہورکہائمر اور تھیوڈور اڈاوورنو سے والٹر بینجمن وغیرہ تک ہر طرف اور ہر طرح کے اعتراض اور تنقیدی نظریات میں یہ امر بھی شروع میں شامل بحث و مباحثہ رہا ہے کہ تصوف و روحانیت کی جملہ اشکال بھی فرسودہ نظام کے پیداوار ہیں تو رومی کی شاعری و تعلیمات کی بڑہتے رجحان اور اہمیت نے اس کا بھی خاطر خواہ جواب دے دیا۔ اور سویت یونین کے انہدام کے چار سال ہی بعد ہزہائی نیس شہزادہ کریم آغا خان ماسکو بھی تشریف لے گئے اور تاجکستان بھی۔ تو سویت روس کے دور میں عوام الناس و خواص کی زہنی تربیت کے متضاد ان کے استقبال کیا گیا اور عقلی دلیل اور انسانی عقل کے کردار کے حوالے سے آپ نے فرمایا ۔ اس کے علاؤہ ہزہائ نیس کے دادا جان کی خدمات کے علاؤہ ان کے دور کے سائنسدان دان لارڈ کیلون کے ساتھ قبل از جہاز کے اڑنے کی امکان ،جسے اس موصوف سائنسدان نے نے خلاف امکان قرار دیا تھا۔ امام الوقت کی پیش گوئی بلکہ سچ ثابت ہوئی ۔ اور جوڑئیک کریشن کے نظریے کے بر خلاف ایمینسشن کا آپ کا نظریہ بھی ان کی آب بیتی میں مذکور ہے ۔
اس کے علاؤہ ہز ہائ نیس اور دیگر متعبر فلسفیوں اور دانشوروں،بشمول پروفیسر ڈاکٹر سٹیفن ہیکس، کے مطابق اب تک کے اس سیر حاصل کی حد تک کے کلام یا مباحث، ڈسکورس میں سوشل کنسٹرکٹیویزم، اور کوئیر تھیوریز یا کریٹیکل تھیوریز میں دیگر فلسفیوں نے بس سکے نظریات کو مطلق اور ابسولیائز زیادہ کیا ہوا ہے جیسے یہ کوئ متبادل آسمانی صحائف یا سیلیسٹیل ٹریٹائزز ہوں۔ انہوں نے۔

تو اس بحث کا مقصد امام الوقت کی پیش بینی اور بصیرت کے حوالے سے تھا جو تحقیق کی بناء پر پیش کیا گیا ۔ قارئین کی خدمت میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اختلاف کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

مصنف ایک قلمکار ہے۔ ایم اے انگریزی ، ایم اے سیاسیات کے ساتھ ایم ایس بین الاقوامی تعلقات (فیلو/سکالر)

مزید دریافت کریں۔

مضامین

اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس

یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ