ہنزہ نیوز اردو

سانحہ علی آباد 11اگست

اس پوسٹ کو شیئر کریں۔

میں کسی رشتہ دار کی تدفین میں شرکت کے لئے علی آباد کے قبرستان میں گیا کتبے پڑھتے پڑھتے مجھے شیر اللہ اور ان کے پہلو میں دفن ان کے ہی جون سال بیٹے شیر افضل کا کتبہ کیا نظر آیا کہ 9سال پہلے کا واقعہ ایک فلم کی صورت میں میرے سامنے آیا اور میںنے ان بے گناہ باپ بیٹے کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے ساتھ اس بات پر افسوس کے سواءکچھ نہیں کر سکا کہ بے گناہ باپ بیٹے کو انصاف دینے کی بجائے ان کی لاشوں کو کندھادینے والوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے کسی بھی بدترین معاشرے میں ایسے سلوک کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔
میں اس واقعے کا چشم دید گواہ ہوں میں اس واقعے کو من و عن بیان کرنا مجھ پر قرض ہے اور اس تحریر کے ذریعے میں اس قرض کو اتارنے کی کوشش کرتا ہوں گو کہ اس سانحے اور واقعے پر پہلے بھی کئی مرتبہ قلم گھسائی کر چکا ہوں اور ایک بار پھر اس جب قبرستا ن میں یہ زخم ہرے ہو چکے ہیں تو اس واقعے کو بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔
یہ 11اگست2011کا واقعہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی ہنزہ اور نگر کو ضلع سے الگ کرکے دونوں سابق ریاستوں پر مشتمل ایک ضلع بنایا گیا تھا اور ضلعی ہیڈ کوارٹر کا معاملہسنگین صوترتحال اختیار کرنے سے قبل ہی ہنزہ سے منتخب اس وقت کےسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی سپیکر وزیر بیگ نے فراغدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ساس ویلی کو ضلع ہنزہ نگر کا ضلعی ہیڈ کوارٹر بنانے کی تجویز کو قبول کیا تھا اور اس بد قسمت دن کو ہی ضلعی ہیڈ کوارٹر کا فیصلہ ہونا تھا اور سایئٹ وزٹ کے لئے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کی قیادت میں صوبائی وزراء،چیف سیکریٹری سمیت کئی محکموں کے سیکریٹریز پر مشتمل قافلہ ساس ویلی کا وزٹ مکمل کرکے ہنزہ کی طرف روانہ تھا۔دریں اثنا ہنزہ میں عطاءآباد جھیل کے متاثرین کو کے سی بی ایل میں امدادی رقوم کے چیک تقسیم ہو رہے تھے اور وہ متاثرین جن کو چیکس نہیں ملے تھے اس امید پر کہ شائد وزیر اعلیٰ اور ان کی ٹیم ان کی مدد کریں اس امید پر وہ سڑک پر نکلے تھے پر امن تھے۔میں اور ہنزہ سے سماءکے اس وقت کے رپورٹر اجلال حسین ساس ویلی میں وزیر اعلیٰ اور اس کی ٹیم کے دورے کی کوریج مکمل کرکے علی آباد پہنچے ہی تھے کہ علی آباد موڈ میں تعینات پولیس اہلکار نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ آگے احتجاج ہو رہا ہے اس لئے فیصلہ ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا قافلہ متبادل روٹ سے کریم آباد جائے گا اس سلسلے میں مجھے یہ حکم ملا ہے اور مجھے یہاں تعینات کر دیا ہے ۔ہم آگے بڑھے علی آباد سونیری بینک کے پاس پہنچے ہی تھے کہفائرنگ کی تھرتھراہٹ شروع ہو گئی اور میری نظر اس نوجوان پر پڑی جو فائرنگ کے ساتھ ہی دور جا کر گرا میں فوراً سے نوجوان کے پاس پہنچا نوجوان نے اٹھنے کی کوشش کی اور جہاں گولی لگی تھی ایک ہاتھ وہاں رکھ لیا ایک ہاتھ زمین سے لگا کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ تڑپ کر دوبارہ گر گیاگولیوں نے اس کا سینہ چیر دیا تھا یہ جواں سالہ نوجوان شیر افضل تھا ہوائی فائرنگ میں تیزی آگئی پلک جھپکتے ہی لوگ اکھٹا ہونا شروع ہو گئے تیز بارش ہو رہی تھی بارش میں شیر افضل کے جسم سے نکلنے والا خون سڑک پر بہنے لگاتب نوجوانوں نے شیر افضل کو اٹھایا ہسپتال منتقل کر دیا۔ شیر افضل کو خون میں لت پت دیکھ کر لوگ مشتعل ہو گئے باپ پر تو جیسے بجلی گری ہو بیٹے کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور نا انصافی پر والد شیر اللہ بیگ آپے سے باہر ہو گئے اور بدلہ لینے کی کوشش میں ڈی ایس پی حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو موقع نہیں دیاگیا اس کو بھی گولی مار دی گئی اور وہی پر ڈھیر ہو گئے ۔واقعے کی خبر جنگل کے آگ کی طرح پورے ہنزہ میں پھیل گئی اور نوجوان مشتعل ہو گئے سرکاری املاک پر حملہ کر دیا اور پولیس سٹیشن علی آباد سمیت کئی سرکاری دفاتر اور سرکاری گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا شیر اللہ موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے جبکہ شیر افضل کو شدید زخمی حالت میں گلگت منتقل کر دیا گیا تھا لیکن وہ زخمی کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے اس واقعے میں کئی لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ بے گناہ باپ بیٹے کی لاشیں کیا گریں کہ ہنزہ میں سوگ طاری ہو گیا پولیس اپنی وردی اور ہتھیار پھینک کر بھاگ گئی اور سننے میں آیا کہ بعض پولیس اہلکاروں نے خواتین کے کپڑے پہن کر بھاگنے کی کوشش بھی کی۔باپ بیٹے کی شہادت کے بعد اس دن ہنزہ میں رات بھر سرکاری دفاتر سے دھواں اٹھتا رہا سرکار آگ بجھانے نہیں آئی کوئی آگ بجھانے نہیں آیا لوگوں کے جذبات میں چنگاریاں اٹھ رہی تھیں نوجوان آپے سے باہر ہو ہرے تھے لہکن نہتے تھے کسی کے ہاتھ میں کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔واقعے کی خبر ملنے کے بعد ناصر آباد میں بابا جان کی قیادت میں احتجاج ہوا وہاں پر امن احتجاج تھا مظاہرین نے شاہراہ قراقرم کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا حالات دیکھ کر وزیر اعلیٰ اور اس کی ٹیم نے دورہ منسوخ کر دیا اور گلگت کی طرف روانہ ہو گئے ناصرا ٓباد میں احتجاج اور کسی بھی غیر معمولی صورتحال سے بچنے کے لئے وزیر اعلیٰ کا قافلہ میاچھر سے گزرتا ہوا مناپن پہنچ گیا چونکہ میاچھر کا روڑ انتہائی تنگ اور خطرناک ہے اس راستے گزرتے ہوئے وی وی آئی پیز کو پہلی بار عام انسانوں کے مسائل کا علم بھی ہوا تا ہم اس پر خطر راستے پر سفر کرنے پر مجبور کرنے کا بدلہ لیا گیا۔
رات گئے تک ہنزہ میں کار سرکار کا نام و نشان تک نہیں تھا عوام نے باپ بیٹے کےجنازے سڑک پر رکھ کر کالج روڑ چوک پر احتجاج کیا تو اس وقت کے صوبائی وزیر قانون وزیر شکیل،سپیکر وزیر بیگ،رکن ، اسمبلی رضی الدین رضوی (مرحوم) ، حاجی جانباز (مرحوم)سمیت بڑی تعداد میں اراکین اسمبلی احتجاج میں شریک ہوئے مظاہرین نے انصاف ملنے تک لاشوں کو سڑک پر رکھ کر دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا 5ہزار سے زائد لوگ جمع تھے دو جنازے تھے اور تقریریں ہو رہی تھیں ۔ہنزہ کے عوم ایک مرتبہ بھی جھانسے میں آگئے اس وقت کے صوبائی وزیر قانون وزیر شکیل سمیت تمام وزراءاور ارکین اسمبلی نے عوام بالخصوص متاثرہ خاندان اور متاثرین عطاءٓباد جھیل کے ساتھ اظہاریکجہتی و ہمدردی کیا اور واقعے میں حکومتی و سرکاری غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ وعدہ کیا جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دی جائے گی دھرنا ختم کریں کسی ایک بھی فرد پر کوئی مقدمہ نہیں ہوگا عوام جھانسے میں آگئے اور دھرنا ختم کیا جسٹس عالم کی سربراہی میں جوڈیشل انکوائری کرائی گئی لیکن جوڈیشل انکوائری رپورٹ 9سال گزرنے کے باﺅجود سامنے نہیں آسکی رپورٹ سرکار کے کسی دفتر کے مرتبان میں ہوگی نہ ہی جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو سامنے لایا گیا اور نہ ہی اس کے تحت کسی قسم کی کارروائی کی گئی ۔مبینہ ملوث ڈی یس پی کو ایس پی کے عہدے پر ترقی دیکر رخصت کیا گیا جبکہ جے آئی ٹی کے نام پر ہنزہ کے 4سو سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کرکے ہراساں کیا گیا اور 12افراد آج بھی جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں ان کی فیملیز نہ جی سکتی ہیں اور نہ مر سکتی ہیں کیوں کہ یہ نوجوان اور ان کی فیملیز عادی مجرم نہیں اور نہ ہی کوٹ کچہری سے کبھی واسطہ پڑا ہے سانحہ علی آباد کے الزام میں گرفتار نوجوان انصاف کے منتظر ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ان کو انصاف ملتا ہے۔

مزید دریافت کریں۔

مضامین

کیا عورت کم عقل ہوتی ہے؟

ایک حدیث میں بیان ہوا ہے کہ عورت کم عقل اور کم دین ہے، جیسا کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مذکور ہے۔ یہ