زندگی کیا ہے بقول علامہ اقبال
زندگی ایک سفر ہے
دھوپ میں نکلو گٹھاوں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
ندا فاضلی
زندگی کی حقیقت کو کیسے سمجھا جائے؟
زندگی کیا ہے زندگی کی حقیقت کیا ہے اس دور میں زندگی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس زندگی کی حقیقت کو نہیں سمجھتے یا جان بوجھ کے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم زندگی کی حقیقت کو جانتے تو ہیں لیکن دانستہ حقیقت سے نظریں چرا لیتے ہیں-
اگر زندگی کی حقیقت کو جانے تو پھر ہر قسم کے حقائق کا بڑی بہادری اورجرات مندی سے سامنا کر سکتے ہیں بجائے یہ کہ حقیقت کو سامنے پا کر ہراں ساں ہو کر حیرا ن اور پریشانی کا مظاہرہ کرنے لگیں۔زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا ہی زندگی نہیں زندگی میں نشیب و فراز آتے ہی رہتے ہیں کیونکہ زندگی تبدیلی یا تغیر کا دوسرا نام ہے۔آئیں زندگی کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زندگی کے فیصلے۔
بعض دفعہ زندگی کے جذباتی فیصلے انسان کو اندر سے کھو کھلا کر دیتے ہیں اور انسان اپنا صبر کھو دیتا ہے اور اس لمحے صحیح اور غلط کی پہچان نہیں رہتی۔اسے زندگی کی خوبصورتی بھی دھندلی نظر آتی ہے اور خدا کی دی ہوئی یہ نعمت جسے زندگی کہا گیا ہے اس غلط فیصلے کی وجہ سے تباہ ہوجاتی ہے۔کبھی کبھار پتہ نہیں چلتا کہ اس غلط فیصلے نے انسان کو اپنوں سے یا تو بہت دور کر کے رکھ دیا ہے یا بہت قریب کر کے۔ہمیں اپنوں کے ساتھ رہنا ہے رشتوں کی خوبصورتی اپنوں کے ساتھ رہنے میں ہے ان ہی کے ساتھ دکھ سکھ بانٹنا ہے۔کیونکہ رشتے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہم ان کے مطابق چلیں۔جذباتی فیصلے ہمیں چکنا چور کر دیتے ہیں دو دن کی خوشی کے لئے ہم اپنی پوری زندگی کو داؤ پہ لگا دیتے ہیں جب ہم ہوش میں آتے ہیں تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔کچھ لمحوں کی خوشی کے لئے ہم بھول جاتے ہیں کہ زندگی کیا ہے
معاشرہ اور زندگی۔
کبھی کبھار ہمیں اس معاشرے کے مطابق چلنا ضروری ہے کیونکہ یہی معاشرہ ہے جہاں انسان سے یا تو زندگی چھین لیتا ہے یا زندگی کو ایک نیا رنگ دیتا ہے۔
جو بھی باغی ہوا ہے وہ خود کشی کی نظر ہوا ہے اس معاشرے نے کبھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ آپ جو چاہیں وہ حاصل کریں سو جب بھی فیصلہ اس معاشرے کے خلاف لیا گیا ہے زندگی سے ہاتھ دھونا پڑاہے۔
قسمت کے فیصلے قدرت کے مطابق ہوتے ہیں اس پر ہمیں کامل یقین ہے اور قدرت کیخلاف جو بھی چلا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوا ہے۔
میری ناقص رائے یہی کہتی ہے کہ کبھی کبھار خواہشات کی قربانی دینا بھی ضروری ہے تا کہ اس معاشرے سے جڑے لوگ خوش رہ سکیں۔ماں کی تر بیت بھی یہی ہے ہر بیٹی کو کہ زندگی کے کچھ فیصلے لینے میں سمجھ داری سے کام لینا چاہیے کیونکہ زندگی کے کچھ غلط فیصلے بعد میں پچتھاوے کا سبب بنتے ہیں اس لئے فیصلوں کا تعلق جہاں دل سے ہو وہاں دماغ سے کام لینا چاہےئے تاکہ دل بھی محفوظ رہے اور خوشی بھی نصیب کا حصہ بنے۔گویا ماں بھی معاشرے کے عین مطابق چلنا سکھاتی ہے۔
وراثت سے چلا آرہا ہے کہ بیٹا کبھی بھی کسی کو دکھ نہ دینا اور کبھی بھی کسی کی خوشی نہیں چھیننا کیونکہ جودلوں کا چین چھینتے ہیں دکھ اور تکالیف ان کا مقدر بن جاتی ہے۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وراشت سے الگ ہونا بھی اس زندگی کی لئے چیلینج ہے ۔
کبھی کبھار یہ بھی دل و دماغ پہ چھا جاتا ہے کہ ہمیں حق نہیں کہ ہم کسی سے اس کی خوشی چھین سکیں نہ ہی اس زندگی سے جڑی خوشی کو حاصل کر سکے یہاں جینا دوسروں کے لئے ہے اپنے لئے نہیں۔
ہماری زندگی گھر کے دوسرے افراد سے جڑی ہے کبھی کبھار درخت اپنی شاخوں ،اور ٹہنیوں کے ساتھ خوبصورت لگتے ہیں، خالی ٹہنی یا خالی شاخ کوئی معنی نہیں رکھتے گویا قدرت بھی اپنوں کے ساتھ رہنے کی تر غیب دے رہی ہے۔
ان ملے جلے الفاظ کو جب پڑھتی ہوں تو کہیں مجھے تسلسل نظر نہیںآتا سو یہی زندگی ہے اتار چڑھا کا و پتہ نہیں چلتا کہ کب کیا ہو۔
آخر میں اس نتیجے پر پہنچی ہو ں کہ سوسائٹی میں لوگ کیوں خودکشی کرتے ہیں شاید اس لئے کے ان کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں ، در حقتقت زندگی بہت ساری مشکلات اور چیلینجز کا نام ہے۔