میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اسے ریاست کا چوتھا ستون ہونے کا اعزاز حاصل ہے یعنی کسی بھی ریاست کو چلانے کیلئے جہاں دوسرے ادارے اہم ہوتے ہیں بلکل اسی طرح میڈیا کے بغیر ریاستی نظام کی تشکیل مکمل نہیں ہوتا۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں میڈیا ہمیشہ سے حکومت وقت کے زیر عتاب رہا ہے بلکہ اس ملک میں صحافتی ذمہ داریوں کو صحافتی اصول قواعد اور ضوابط کے ساتھ نبھانا ایک چیلنج سے کم نہیں کیونکہ جہاں ریاستی میڈیا سے مرضی کی خبر چاہتے ہیں تو دوسری طرف دہشت گرد عناصر بھی میڈیا کو اپنی مرضی سے چلانا چاہتا ہے۔
اگر ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں چوتھے ستون کی اہمیت اور حیثیت کے حوالے سے میڈیا کا ذکر کریں تو نہایت ہی تکلیف دہ صورتحال ہے کہ ہمارے ہاں جہاں نظام زندگی کے دیگر معاملات شخصیات کے گرد گھومتی ہے بلکل اسی طرح محدود پرنٹ میڈیا کو بھی وہ مقام حاصل نہیں جو ریاست کے چھوتے ستون کی حیثیت سے ملنا چاہیے تھا۔ یہاں اس بات سمجھنے کے لئے کہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی مجھے میرے زمانہ طالب علمی کا زمانہ یاد ہے جب پورے خطے کی سطح پر صرف دو ہفت روزہ اخبارات شائع ہوتے تھے اور ان دونوں ہفت روزہ اخبارات نے محدود وسائل کے باوجود صحافتی امور کو قومی ذمہ داری سمجھ کرعلاقے کے سلگتے مسائل کوشہہ سرخی بنا کر دھرتی ماں سرزمین بے آئین سے عہدو فا کو مشن بنایا ہوا ہوتا تھا لیکن وفاق پاکستان کو سچ کی پرچار ناگوار گزرا اور ان اخبارات پر قدعن لگانا شروع کیا تو مالکان نے مشن سے ہٹ جانے کا فیصلہ کرتے ہوئے بدلتی ہوئی سیاسی تبدیلیوں کے پیش نظراپنا جھکاو وفاقی آشیرباد حاصل کرنے اوریو ایس ایڈ وغیرہ کی طرف کرتے ہوئے خبر سے ذیادہ بیان چھاپنے پر توجہ دینا شروع کیا ۔آج صورت حال یہ ہے کہ صرف اشتہارات کی حصول کیلئے سرکار کی مرضی کے علاوہ باقی تمام معاملات کو ایک کنارے لگا کر سب سے پہلے مال دولت کے فارمولے پر گامزن ہیں۔
ایسے میں میڈیا پیسوں کے عوض نصب العین اور ذمہ داریوں کو فروخت کرنے کیلئے تیار ہوجائے تو حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام پرنٹ میڈیا انکے زرخرید اخبارات کے نقش قدم پر چلیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں اشتہارات کا بند کرنا مختلف حیلوں بہانوں سے مالکان کو ذدکوب کرنا مختلف قسم کے الزامات لگا سرکولیشن بند کرنا معمول کی بات ہے جس کی ایک حالیہ مثال روزنامہ بانگ سحر ہے جن پر الزام ہے کہ یہ اخبار بیرونی امداد لیتے ہیں لیکن کوئی ثبوت موجود نہیں جبکہ علاقے کے کچھ ن نام نہاد معروف اخبارات کو بیرونی امداد ملنے کی دستاویزات کئی سال پہلے منظر عام پر آچکی ہے لیکن ان اخبارات پر دست شفقت رکھا ہوا ہے اور بانگ سحر کے چیف ایڈیٹر کو شیڈول فور میں شامل کیا ہوا ہے۔ اسی طرح روزنامہ سلام بھی چونکہ بیان سے ذیادہ خبر دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس اخبار کے مالکان کو بھی اسی طرح کے ملتے جلتے مسائل کا سامنا ہے لیکن گلگت بلتستان کی صحافتی تنظیموں کا اس حوالے سے کردار نہ صرف قابل افسوس ہے بلکہ قابل مذمت ہے کیونکہ صحافتی تنظیموں کا خطے میں بہتر صحافتی ترجمانی اور قومی مسائل کی نشاندہی کے حوالے سے کردار زیرو سے بھی نیچے کی سطح پر ہے۔
اگر ہم اخبارات کو عدم ادائیگی کے سبب حالیہ احتجاج کی بات کریں تو میری ذاتی رائے اخبارات کی اشاعت بند کرنا ایک غلط فیصلہ تھا کیونکہ احتجاج کے اور بھی طریقے اختیار کرسکتے تھے لیکن اخبارات کی اشاعت کو ہی بند کر دینا نہ صرف اپنی انتہائی مجبوری کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ حکومت کے سامنے گٹھنے ٹیک دینے کے مترادف ہیں. حکومت کے ساتھ معاملات اپنی جگہ لیکن عوام کو بروقت معلومات کی فراہمی بھی اخبارات کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں لیکن یہاں عوامی حقوق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔اخبار مالکان اور حکومت کا آپس میں جاری بلی چوہے کے کھیل میں عوام کو معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کرنا کسی بھی طرح سے درست اقدام نہیں تھا۔ دوسری طرف اس طرح کے غیر سنجیدہ فیصلوں سے حکومت کو اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا خوب موقع ملتا ہے کیونکہ آزادی صحافت کو دبانے یا حکومتوں کا میڈیا کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے یہ حربے کوئی نئی بات نہیں۔ اب اگر ہم مالکان اور صحافیوں کے درمیان پائی جانے والی چپقلش کے حوالے سے بات کریں تو چند ایک اخبار کے علاوہ کئی اخبارات ایسے ہیں جہاں لوگ صرف صحافتی نام کی خاطر خدمات انجام دیتے ہیں ایک ہی آدمی کئی اخبارات کو خبر فراہم کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں اُس خبر اور صحافی کی کیا اہمیت ہوگی کچھ کہنے کی ضرورت نہیں،یہ صورت حال نہ صرف مقامی اخبارات کی رپورٹنگ کے حوالے سیہے بلکہ پاکستان بھر کے الیکٹرانک میڈیا کیلئے صرف نام اور امید کی خاطر جان فشانی کرنے والوں کی لمبی فہرست ہیں جنہیں شوق صحافت نے یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے ایسے میں ان افراد سے عوام بہتر صحافتی کارکردگی کی کیا امید لگاسکتے ہیں جو جس طرح محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں امیدوار بھرتی کیا جاتا تھا بلکل اسی طرح کی امیداواری نوکری کرتا ہو۔ یہ بات بھی ہمیں ماننا پڑے گا کہ گلگت بلتستان کے اخبارات کے پاس وسائل کی بہت کمی ہے ،مارکیٹینگ کیلئے سکوپ نہیں اور نہ ہی کسی نے اس طرف توجہ دینے کی کوشش کی لہذا کوئی این جی اوز کے ٹکروں پر تو کوئی سرکاری اشتہارات کی بنیاد پر امور صحافت کو انجام دیتے ہیں ایسے میں سرکار کی کوشش ہوتی ہے کہ اشتہار انکو دیا جائے جو سرکار کو یس باس کہتیہوئے اخبارات کے معاملات کو چلائیں ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان اخبارات پر خطے کی مزاج کے مطابق کوئی بھی الزام لگ سکتا ہے ۔اس صورت حال میں کئی اخبارات ایسے ہیں جو ان رویوں کی وجہ نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ کئی بار کرپشن کہانیوں کو چھاپنے اور اس طرح کے مسائل اور اہم قومی ایشوز اور آئینی حقوق کے حوالے سے لکھنے والوں کی مضامین چھاپنے کیلئے ہزار بار سوچتے ہیں۔ ایسے میں کوئی بتائے کہ ہمارے ہاں صحافت ہے کدھر؟
یہاں تو جس طرح بیس لاکھ عوام بغیر شناخت کے قید ی ہیں بلکل اسی طرح صحافت بھی حکومتی شکنجے میں پھنسی ہوئی ایک پنچھی کی طرح ہے، یوں عوامی مسائل کی نشاندہی حکومتی کارکردگی پر نظر رکھنے کی باتیں ایک خواب سے کم نہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے چوتھے ستون کی اہمیت اور حیثیت کو منوائیں صحافی کہلانے والے اگر حقوق چاہتے ہیں تو سب پہلے حکومت کا گریبان پکڑیں اور اخبارات کے ساتھ انصاف کو یقینی بنانے کیلئے صحافتی طاقت کو استعمال کریں اور جو لوگ اخبارات کے نام پر کاروبار کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ صحافت کے مقدس پیشے کو نہ دھندا نہ بنائیں اور صحافتی طاقت کو عوامی مسائل کی نشاندہی خطے کی قانونی حیثیت اور اہمیت اور پاکستان کی طرف سے گلگت بلتستان کے عوام سے مسلسل دھوکے دہی سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنے اور وفاق، مقامی حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہوئے صحافت کو مجبوری نہیں بلکہ ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے منوانیکیلئے عملی جدوجہد کریں ورنہ صحافت کے نام پر اس کھیل تماشے کا کوئی فائدہ نہیں۔