مغل بادشاہ بھی بڑے رنگیلے ہوتے تھے۔۔۔۔کچھ تو محمد شاہ رنگیلا سے بھی زیادہ رنگیلے۔۔۔۔۔ کیوں نہ ہوتے بھئی۔۔۔۔ پورا ہندوستان ان کا تھا۔۔۔ سارے ہندوستان کے وسائل ان کے تھے۔۔۔۔ سو جو جی میں آتا کر گزرتے۔۔۔ وہ دینِ اکبری ہو یا مردہ شہزادے شہزادیوں کے منقش مزار و مقابر ۔۔۔۔۔۔ کسی کو چوں چراں کا چارہ تھا نہ یارہ۔۔۔۔۔ ایسے ہی رنگیلے بادشاہ جہانگیر کے پاس جب کوئی فریادی انصاف کا طالب ہوتا تو شاہِ عالم فرماتے کہ ہم نے تو اپنی بادشاہت ایک پیالہ شراب اور دو سیخ کے عوض نورجہان کو دے دی ہے۔۔۔ سو معاملات نمٹانے اُدھر جاٶ ۔۔۔۔ صاحبو! ہمارے بھی ویسے ہی حالات ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے یکم نومبر 1947 کو جسے صدر بنایا ، اس نے سول سپلائی کی نوکری کے عوض زمام اقتدار ایک نائب تحصیلدار کو سونپ دی۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔۔۔۔۔ اس بار ہم نے جس کو وزیراعلیٰ بنایا۔۔۔۔۔۔ جس کو ووٹ دے کے منتخب کیا۔۔۔۔ گلگت بلتستان کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل سمجھا۔۔۔۔۔اقتدار و حکومت بخش دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ گلگت بلتستان کو تیاگ کر، سی ایم ہاٶس کے گیٹ پر جشنِ آمدِ رسول کا پینا فلیکس آویزاں چھوڑ کر ، کسی خان صاحب کی چوکیداری کو ترجیح دے بیٹھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بنی گالہ سے زمان پارک تک کے ہو کر رہ گیا ۔۔۔۔۔۔ اور گلگت بلتستان کی حکومت دس پندرہ گاڑیوں کے پٹرول ڈیزل، اسمبلی ممبران و اراکین کابینہ کی تنخواہ و مراعات اور خان صاحب کی چوکیداری کے لئیے چند وردی پوش غلاموں کے عوض محی الدین وانی نامی ایک اور رنگیلے کے سُپرد کر گیا ہے۔۔۔۔ جس کو خواتین کے لئیے پِنک بسیں، گرلزسکولوں پر پِنک رنگ و روغن، طالبات کے لئیے پِنک کرسیوں اور خواتین کے لئیے پِنک فسٹیولز کے اچھوتے خیال سے آگے کچھ سُوجھتا ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔جیسے کہ گلگت بلتستان میں اور کوئی بڑا مسئلہ ہے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بے روزگاری ہم کب کا ختم کر چکے ہیں ،بجلی چوبیس گھنٹہ ہے ، آٹے اور گندم کی فراوانی ہے، پینے کا صاف پانی گھر گھر پہنچا دیا گیا ہے، ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور ادویات کی بھر مار ہے ۔۔۔۔۔ مریض ندارد، سڑکیں چمک رہی ہیں ۔۔۔۔۔ کرنے کو اب اور کوئی کام بچا ہی نہیں ہے تو کیوں نہ ساٹھ ستر بچے بچیوں سمیت چالیس پچاس استاد اور استانیوں کو لے کر ہفتہ دو ہفتہ کی اسلام آباد یاترا کی جائے۔۔۔۔ ویسے بھی وسائل ایدھی والوں نے دینے ہیں۔۔۔۔۔ آخر باقی پاکستان کو بھی تو خبر ہو جانی چاہیئے نا کہ ایک چیف سیکرٹری نے محض چند ماہ میں تعلیمی میدان میں کیسا انقلاب برپا کر دیا ہے۔۔۔۔ پچھلے برس قاعدہ پہلی جماعت میں داخل کردہ بچے بچیاں ان کی عنایات والتفات کی طفیل راتوں رات کیسے کیسے ارسطو اور افلاطون
بن چکے ہیں۔۔۔۔۔ ان سے پہلے والے بڑے چغد تھے۔۔۔۔ یہ راز پا ہی نہ سکے۔۔۔۔۔۔ سمجھ ہی نہیں پائے اور ADP کے فضول منصوبوں اور PSDP کے فنڈز کی رائیگاں جنگ میں جُتے رہے، اپنا وقت برباد کیا۔۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی کرنے کے کام ہیں۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اب ADP کے منصوبوں پر بھی پابندی لگا دو۔۔۔۔۔ بھائی صرف پندرہ ارب کی ADP ہے۔۔۔ اس پر بھی پابندی لگ گئی تو علاقہ کہاں جائے گا۔۔۔۔ عوام کیا کرے گی۔۔۔۔ اس صوبے سے زیادہ وسائل اور development funds تو باقی صوبوں میں شہری بلدیات کے پاس ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ترقیاتی عمل روکنے کی بجائے وسائل لائیے۔۔۔۔۔ بچے بچیوں کی سیر کا انتظام پھر کبھی کر لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر بہت ضروری ہوا تو کوئی فالتُو سیکرٹری، کوئی Director یا DD بھی یہ اہم فریضہ سرانجام دے دیگا۔۔۔۔۔۔قائدِاعظم کے پاکستان پر ابھی اتنا بُرا وقت نہیں آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ فی الحال اسلام آباد سے ترقیاتی فنڈز negotiate کیجیئے۔۔۔۔۔۔ کیا 7 ہزار ارب روپے کے بجٹ والے پاکستان کے لئیے گلگت بلتستان کے محروم و مظلوم خطے کے پندرہ ارب اتنا بڑا بوجھ بن گئے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ چیف منسٹر اور چیف سیکرٹری دونوں کو اپنا نام، اپنا آرام اور اپنا اپنا کام عزیز ہے جس میں عوام کی بھلائی اور عوامی فلاح و بہبود جیسے فضول و بیکار کاموں کے لئیے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ چیف منسٹر نے عمران خان کی وفاداری میں سرفہرست نام لکھوانا ہے تا کہ ہمیشہ اقتدار میں رہ سکیں اور چیف سیکرٹری نے UN کو باور کرانا ہے کہ gender discrimination کو ختم کرنے اور ایجوکیشن کو عام کرنے میں ان سے بہتر کوئی چمپئین نہیں۔۔۔۔۔۔ تو لہٰذا انہیں UNICEF اور UNESCO میں کوئی تگڑی نوکری مِل جائے۔ اور دونوں صاحبان اپنا اپنا کام اپنے اپنے نام کی خاطر آرام سے کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عوام ؟۔۔۔۔۔ عوام گئی تیل لینے۔۔۔۔۔۔ بجلی، آٹا، علاج، سڑکیں ، پینے کا صاف پانی۔۔۔۔ یہ غریبوں کے مسائل ہیں۔۔۔۔۔ ہمیشہ سے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ہمیشہ رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اُن کے لئیے کون اپنا خون جلائے۔۔۔۔ کوئی کیوں اپنا وقت برباد کرے۔۔۔۔۔ سو ، ہمارے وبال سلامت اور حضور کا اقبال سلامت۔