[author image=”http://urdu.hunzanews.net/wp-content/uploads/2017/08/14993314_10153940498191975_3815507819967313223_n.jpg” ]نور پامیری [/author]
بعض دفعہ انجانے میں اخبار نویس ایسے جملے استعمال کرتے ہیں جن کے اثرات بہت منفی اور دور رس ہو سکتے ہیں۔ سرخیاں ملاحظہ کیجئے، ”یقینی شکست دیکھ کر مخالفین ذہنی مریض بن گئے ہیں”، ”موبائل سروس کی بار بار بندش سے فلان ضلع کے عوام ذہنی مریض بن گئے ہیں”، ”بجلی کی آنکھ مچولی نے فلان شہر کے باسیوں کو ذہنی مریض بنادیا ہے”، ”محکمہ برقیات نے عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے”، ”حکومت کی شہرت دیکھ کر مخالفین ذہنی مریض بن گئے ہیں”، ”فلان شخص(سیاسی مخالف) ذہنی مرض میں مبتلا ہے، فلان کا دماغ خراب ہوگیا ہے”۔
ان تمام سرخیوں میں ذہنی مرض کوانتہائی منفی اور تحقیر آمیز انداز میں پیش کیا گیا ہے، اور ذہنی مرض یا امراض میں مبتلا شخص کو بُرے، کمزور، ناسمجھ، طعنہ اور طنز کے قابل، یا کم عقل شخص کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ آسان الفاظ میں، ان بیانات میں ذہنی مرض کو گالی کے طور پر بطور تحقیر استعمال کیا گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مدیر حضرات (خواتین کم ہی ہیں) یہ الفاظ انجانے میں استعمال کرتے ہیں، کیونکہ ان الفاظ کا استعمال ہمارے معاشرے میں معمول بن چُکا ہے۔
ذہنی امراض سے متعلق اس طرح کے سیاسی اور اخباری بیانات دینے والے افراد عموماً سیاسی اور سماجی سطح پر ممتاز شخصیات ہوتی ہیں، اور ان کے حلقہ احباب یا حلقہ انتخاب میں ان کے بیانات کو بغور پڑھا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شہ سُرخی بننے والے بیانات دینے والے معاشرے میں اوپینین میکرز (یعنی خیال ساز) ہوتے ہیں، تو مبالغہ نہ ہوگا۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ ایسے بیانات دینے والے افراد اپنے الفاظ کے اثرات سے نابلد ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے مخالفین کی تحقیر کے لئے ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں، لیکن ان کے اثرات مجموعی فکر پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔
یہ بھی یاد رہے کہ ذہنی امراض کی طرف یہ منفی اور تخریبی رجحان اخبارات اور اخباری بیانات تک محدود نہیں ہے۔ہمارے معاشروں میں عمومی طور پر اپنے مخالفین کو پاگل، نفسیاتی مریض، نفسیاتی، یا ذہنی مریض، یا پھر وہمی، سائیکو، کہہ کر ان کو کمتر دکھانا، اور ان کی تضحیک کرنا، بدقسمتی سے معمول کی بات ہے۔ کسی ذہنی مرض میں مبتلا شخص کی ”مزاحیہ تصویریں” فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر کے ان کا مذاق اڑانے میں بھی ہم میں سے بہت سارے افراد، عموماً ڈگری یافتہ، پیش پیش ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا سے باہر بھی ذہنی امراض میں مبتلا افراد، جو سڑکوں پر مارے مارے پھرتے ہیں، کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ میں نے ایسے بہت سارے واقعات بچشم خود دیکھے ہیں جب ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو چھیڑ کر غصہ دلایا جاتا ہے اور پھر ان کا مذاق اُڑا یا جاتا ہے۔
کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ گھروں میں بچوں کو ڈرانے کیلئے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کا نام لیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ فلان شخص ”پاگل” ہے، اگر تم کھانا نہیں کھاوگے تو ہم اُسے ابھی بلائیں گے اور وہ تمہیں مارے گا۔ بچے کو مزید ”آمادہ کرنے کے لئے” دروازی یا پھر چھت میں لگے روشن دان کی طرف منہ کر کے اُس ذہنی مرض میں مبتلا فرد کا نام بھی پکارا جاتاہے۔ اور کبھی کبھار، گھر میں موجود کوئی فرد بچے کو خوفزدہ کرنے کے لئے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کی حرکات و سکنات کی نقل بھی کرتا ہے۔ ایسی حرکتوں سے نادانستہ طور پر بچوں کے دلوں میں اور ان کے دماغ میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد کے خلاف تعصب ڈال دی جاتی ہے۔
اسی طرح، ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو عموماً خطرناک، ناقابلِ اعتبار اور نالائق سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایسے افراد کو سماج سے علیحدہ کرکے ان کے ساتھ متعصبانہ رویہ برتا جاتا ہے۔ بعض ذہنی امراض ایسے ہوتے ہیں جن میں مریضوں کو ان کی اپنی اور دوسروں کی حفاظت کی خاطر علیحدہ رکھا جاتا ہے، لیکن ذہنی مرض میں مبتلا ہر فرد خطرناک بھی نہیں ہوتا، نااہل بھی نہیں ہوتا، اور ناقابلِ اعتبار بھی نہیں ہوتا۔
ذہنی امراض میں مبتلا افراد اپنے اندر مختلف صلاحیتیں مخفی رکھتے ہیں، اور اگر انہیں موقع دیا جائے تو وہ ان صلاحیتوں کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سپیشل اولمپکس میں شرکت کرنے والے گلگت بلتستان کے متعدد کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کا عالمی سطح پر اظہار کیا ہے۔ پرویز احمد، تہمینہ اور ہمیز الدین کے ایوارڈز اور اعزازات اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔
ان روشن حقائق کو دیکھنے اور سننے کے باوجود بھی بدقسمتی سے ذہنی امراض کیمعاملے میں ہماری عمومی سوچ نہیں بدلی ہے۔
ان تخریبی سماجی رجحانات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ذہنی امراض اور پیچیدگیوں میں مبتلا افراد کو معاشرے میں عمومی طور پر منفی اور تحقیر آمیز انداز میں دیکھا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی دباو کے پیشِ نظر، ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا افراد تضحیک اور تحقیر سے بچنے کے لئے اپنے مسائل کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتیہیں، اور نہ ان کے علاج کے لئے طبیبوں سے مشاورت کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قابلِ علاج اور معمولی نوعیت کے مسائل بھی وقت گزرنے کے ساتھ پیچیدہ ہوجاتے ہیں، اور صحت اور مال کی بربادی، یا خاندانوں کی تباہی پر منتج ہوجاتے ہیں۔
ہمیں یہ یاد رکھنی چاہیے کہ اس تخریبی سماجی رُجحان کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا افرا د کو دوہری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف وہ ذہنی مرض کی وجہ سے مشکلات میں گھرے رہتے ہیں، جبکہ دوسری طرف سماجی بے رُخی اور ظالمانہ روش ان کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہے۔
میڈیکل سائنس کی نظروں میں ذہنی امراض، مثلاً ڈپریشن، اینگزائٹی، وغیرہ دیگر طبّی بیماریوں سے مختلف نہیں ہیں۔ ان امراض کے مختلف محرکات ہوتے ہیں، جن پر قابو پاکر مشاورت،یا پھر دوائیوں کے استعمال کے ذریعے ان کے اثرات کو یکسر ختم،یا پھر بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
سماجی شعور کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ذہنی امراض کے حوالے سے اپنے رویوں پر ایک ناقدانہ نظر ڈالیں اور ایسے تخریبی سماجی رجحانا ت کی بیخ کُنی کے لئے کمر بستہ ہوجائیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر دوسروں کے لئے کرب اور مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔
باشعور اور باضمیر شہریوں کی حیثیت سے ہمیں باہمی خیال داری اور ہمدردی پر مبنی ایک ایسا انسانی سماج بنانے کی کوشش کرنی چاہیے جہاں ہم ایک دوسرے کے لئے راحت اور آسانی کا باعث بن سکیں، ایک دوسرے کی حتی الامکان مدد کرسکیں، اور مشکلات میں مبتلا افراد کی مدد کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے سماج کی تشکیل ممکن ہے، بلکہ گلگت بلتستان میں ایسا سماج بہت جلد تشکیل دیا جاسکتا ہے، کیونکہ خیال داری اور ہمدردی ہماری روایات کا حصہ ہے۔ ایسے سماجی کی تشکیل کا آغاز ہم کمزوروں اور مشکلات میں گھرے افراد کی طرف اپنے رویوں پر نظرِ ثانی سے کر سکتے ہیں۔