ہمارے ہاں جہاں دیسی لبرل کی بہتاب ہے وہاں بےعمل دینداروں کی بھی کوئی کمی نھیں ہے
امام خمینی نے اسلام ناب محمدی کے بالمقابل اسلام امریکائی و اسلام آبائی کے نام سے اسلام کی دو منحرف اقسام کا بھی زکر کیا ہے آج ہمارے معاشرے میں اس تقسیم کی چھاپ واضح نظر آتی ہے اگرچہ کلمہ گو ہے اور پکہ مسلمان بھی لیکن ان کے افکار, اعمال , ترجیحات , مسائل اور وسائل سبھی باطل قوتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں امام خمینی کے بقول ایسے افراد کا اسلام ناب محمدی سے کوئی تعلق نھیں یہ لوگ اسلام امریکائی کے پیروکار ہے ہم اپنی مقامی اصطلاح میں ان کو دیسی لبرلز کے نام سے یاد کرتے ہیں کیونکہ حقیقی لبرلزم سے بھی انکا کوئی تعلق نھیں ہوتا۔
دیسی لبرلزم در حقیقت اسلام ہراسی کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے اسلام کی غلط تشریح اور حاملان اسلام کی ظاہری کرتوت کی وجہ سے مایوس افراد جب خود کو تلاش حقیقت کی راہ پہ ڈالنے کے بجائے بغاوت کی راہ لیتے ہیں تو ایک سچا مسلمان دیسی لبرل میں تبدیل ہوجاتا ہے
دیسی لبرلز کے چند علامتوں کا زکر کرنا چاہونگا تاکہ ہماری نئی نسل گمراہی سے بچ جائے معیار میں بتاتا ہوں مصداق آپ خود تلاش کریں۔
دیسی لبرلز مذھب سے نالاں, مغرب سے مرعوب اور احساس کمتری کا شکار طبقہ ہے ان کے بقول دین ,مذھب اور شرعی احکامات نے ہمیں پسماندہ اور ترقی کے دوڑ میں پیچھے رکھا ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی آفاقی اور کامل نظام حیات کو صرف چند عبادات تک محدود سمجھنے اور ہماری بے عملی نے ہمیں پیچھے رکھا ہوا ہے اس میں مذھب کا کوئی قصور نہیں
ایک انتہائی دلچسپ سوال ہے کہ دیسی لبرلز ان ساری چیزوں سے بے گانہ ہوکر بھی ترقی کیوں نھیں کر پا رہا؟؟
کیا جدوجہد کے بغیر صرف داڑھی مونڈ کر روشن خیال , لونڈے کا پینٹ پہن کر ماڈرن اور دین کا مزاق اڑا کر اپنے آپ کو لبرل شو کرنے سے معاشرہ ترقی کرے گا؟
ان کے نزدیک ترقی کی راز مغرب پرستی میں مضمر ہے امریکہ کی ایجادات , سائنس , ٹکنالوجی , تہذیب , تمدن , تیز ترین پیشرفت اور ناقابل تسخیر قوت ہونے کا گن گاتے رہتے ہیں جبکہ خود ایسے ممی ڈیڈی مزاج کے ہوتے ہے کہ محنت ,مشقت اور جفاکشی ان کی سرشت میں ہی نھیں ہوتی اور نرم گداز صوفوں اور ایرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر انہی ناقابل تسخیر سمجھنے والی استعماری اور استحصالی طاقتوں سے نبرد آزما مجاہدین اور مقاومتی بلاک کے بارے میں بے سروپا تجزئے کرتے رہتے ہیں۔
جب بھی ان کے سامنے اپنی تحقیق , جستجو , ایجادات اور ادب کی بات کریں تو ان کی شکل دیکھنے والی ہوتی ہے کھینچ کھونچ کے سٹیفن ہاکنک , جان ڈیوی ,کانٹ ,نٹشے اور شکسپیر کا زکر چھیڑ کر سمجھتے ہیں کہ اپنی زمہ داری ادا ہوگئی ہے ایجادات کو صرف مغرب کی میراث سمجھ کے آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں اور پھر علمائے کرام پہ الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ ترقی میں رکاوٹ ہے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کی رٹ بھت بہت لگاتے لیکن جب بھی موقع ملتے ہیں فوراً ہالی ود و بالی وڈ کے ساز پہ خسروں کی طرح ناچنا شروع کر دیتے ہیں اپنی اسلاف سے بے خبر ہی نھیں بلکہ بھت چڑ بھی ہے لباس , رہن سہن اور بودباش سے مغرب کی اوباشی چھلک رہی ہوتی ہے بات بلتی ثقافت کی کرتے ہیں مگر بلتی میں دو جملے ڈھنگ سے بول نھیں سکتے غالب کو ترپا دینے والی اردو میں دوچار انگلش کے الفاظ زبردستی شامل کرکے دوسروں پر فوقیت جتانے اور اپنی احساس کمتری کے علاج کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اگر کوئی ان کو ثقافت کے نام پہ اچھل کود اور نیچ حرکتوں سے روکے تو فوراً دقیانوسی اور قدامت پرست ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
بات انسانیت کی کرتے ہیں اور دنیا بھر میں بہتے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کے لہو سے ان کے کان میں جونک تک نھیں رینکتی ہاں اگر خدانخواستہ مغرب میں کہیں ٹانگہ بھی الٹ جائے تو موم بتی لیکر کر چوراہوں پہ نکل پڑتے ہیں مغرب کی ظلم استبداد اور انتہا پسندانہ پالیسیوں پر ساکت و جامد کچھوے کی طرح سر ڈھانپ کے بیٹھ جاتے ہیں اور جب کسی مسلمان یا اسلامی ریاست سے معمولی خطا بھی غلطی سے سرزد ہوجائے تو گردن سیدھی کرکے بلوں سے نکل آتے ہیں اور زہر اگلنا شروع کر دیتے ہیں.
اپنے آباء و اجداد کے قبور کی جن کو شناخت نھیں ہوتی ایسے افراد فقد ڈانس کی جواز کے خاطر بلتستان میں اسلام کی آٹھ سو سالہ عہد زرین کو پاؤں تلے روند کر بدھ مت کی ثقافت کے دبارہ احیاء کی بات کرتے ہیں یہ جو سینکڑوں سالوں سے اسلامی تہذیب و ثقافت بلتستان میں رائج ہے پتہ نھیں اس میں کس چیز کی کمی ہے یہ ثقافت سے دلچسپی نھیں اسلام سے دشمنی ہے
اپنی نانی , دادی ,ماں, بہن اور بیوی سے تو بھت نالاں رہتے ہیں لیکن آزادی نسواں کی درد ان کو چین سے بیٹھنے نھیں دیتی اور نت نئے پروگراموں اور ایونٹس کے زریعے خواتین سے پردہ ,عفت اور حیاء کو چھینے کے درپے رہتے ہیں تاکہ اپنی آقاؤں سے داد سمیٹ سکے اگر ان کی شہوت رانی کے راہ میں کوئی رکاوٹ بنے تو ان کو انتہا پسند اور ملا ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
ان میں سے اکثر کلمہ گو مسلمان ,نمازی اور ماتمی ہونے کے باوجود اغیار کی نگاہوں میں منظور نظر بنے کے لئے یا پھر اپنی کاروبار , اخبار , تنظیم اور شخصیت کو یکساں مقبول اور متفق الیہ بنانے کی چکر میں اپنی ہی مسلک , مذھب اور وطن کا مزاق اڑا کر بےتکی اعتراضات اور شبہات پیدا کرکے دوغلا پنی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
بلآخر دیسی لبرلز کی دوغلاپنی اور اعتراضات کے تیر و تبر کا شکار بھی وہی انقلابی طبقہ بنتے ہیں جو بغیر کسی مصلحت پسندی کے اپنا دوٹوک موقف رکھتے ہیں اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہم سچے مسلمان , حقیقی ولائی اور عصر حاضر میں ولایت فقیہ کے سچے فدائی ہے اسی وجہ سے انقلابی ہمیشہ ظالم حکومت , دیسی لبرلز اور دین آبائی کے پیروکاروں کے نشانے پہ رہتے ہیں ۔
بحث لمبی ہوگئی مقصد صرف یہ ہے کہ آپ دیسی لبرلز ہو یا پھر مصلحت پسند دیندار اگر آپ کو حقیقی اسلام ناب کی سمجھ نھیں ہے تو جستجو اور سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر آپ کو اسلامی اقدار اور حدود قیود پسند نھیں ہے تو پھر تھوڑی جرات کا مظاہرہ کرکے اپنی لادینیت کا کھل کر اعلان کریں اور آزاد فضا میں تحقیق شروع کریں
پھر یقین جانئے اپنی آزاد تحقیقات اور جستجو سے آپ کو جس چیز کی سمجھ آئے بھلے وہ اسلام کے مخالف ہی کیوں نہ ہو وہ اس اسلام سے کئی درجہ افضل ہے جسے آپ نے شک و شکوک اور بددلی کے ساتھ ابھی تک اختیار کیا ہوا ہے۔
انسانی سماج کا مسئلہ یہ نھیں کہ آپ حتماً مسلمان ہو نہ ہی اسلام ایسا چاہتا ہے لا اکراہ فی الدین اور عقائد میں تقلید کی حرمت کا راز یہی ہے کہ انسان دوغلا پن کا شکار نہ رہے یہی دوغلا پنی ہے جو انسانی سماج کو دیمک کی طرح چاٹ دیتی ہے اگر آپ مسلمان ہے تو قرآن و سنت کے پابند ہے اپنا فلسفہ جھاڑنے کی ضرورت نھیں اگر لبرل ہے تو پھر آپ آزاد ہے چاھے تو قرآن و سنت پہ عمل کریں یا پھر آدھہ تیتر آدھا بٹیر کی زندگی گزاردیں
والسلام
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ