اگلے عام انتخابات تک (2023) دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کی تعمیر کا چالیس فیصد کام مکمل کر لیا جاتا ہے تو پاکستان کے عوام وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے اگلے پچھلے تمام گناہ، غلطیاں اور کمی کوتاہیاں ایک طرف رکھ کر اگلے پانچ سال کیلئے ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ دینے میں کسی بھی قسم کی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرینگے اور دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اعلانات صرف اعلانات کی حد تک محدود ہوکر رہ جائیں تو پھر نتائج توقعات کے بر عکس سامنے آسکتے ہیں اور ظاہر ایک سیاسی پارٹی کی توقعات کا لیول ہی یہی ہوتا ہے کہ پانچ سالہ کارکردگی کی بنیاد پر عوام کی ہمدردیاں سمیٹتے ہوئے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ ووٹ سمیٹے جائیں، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا اعلان سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا تھا اور 2006میں سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بصری کے قریب تعمیراتی کام کا تصوراتی طور پر آغاز کیا تھا،تصوراتی آغاز اس لئے کہ سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کے بعد تعمیراتی کام کے حوالے سے کسی بھی قسم کی سرگرمیاں نظر نہیں آئیں پیپلز پارٹی دور حکومت میں راجہ پرویز اشرف کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیراتی کام کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعزاز حاصل ہوا، راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی دور میں وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی کے عہدے پر فائز رہے جبکہ یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے اور دوسری مرتبہ سنگ بنیاد رکھنے کے باوجود بھی اس اہم منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو سکا، 2013میں پاکستان مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت لیکر اقتدار میں آئی اور سنگ بنیاد رکھنے کی نوبت نہیں آئی لیکن اس حد تک ڈویلپمنٹ سامنے آئی کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر اور پانی کی زد میں آنے والی زمینوں کے معاوضے ادا کرنے کا عمل شروع ہو گیا اور اربوں روپے اس حوالے سے مقامی لوگوں میں تقسیم ہوئے اور یہ عمل (معاوضوں کی تقسیم) اب بھی جاری ہے، موجودہ حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال 9ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور دیامر بھاشاڈیم کی تعمیر کے حوالے سے دیر آید درست آید کے مصداق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے فوری کام کے آغاز کی منظوری دے دی گئی ہیا ور اس اعلان کے بعد امید پیدا ہو چکی ہے کہ اس اہم منصوبے پر اگلے چند ماہ کے دوران کام کا باقاعدہ آغاز ہوجائیگا، پانی ذخیرہ کرنیا ور ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والے اس منصوبے کی بر وقت تعمیر سے پاکستان کی معیشت (زراعت اور کم قیمت پر بجلی کی فراہمی) پر مثبت اثرات مرتب ہونگے، اس ڈیم کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے روزنامہ اوصاف کا اداریہ قائین کی معلومات میں اضافے کیلئے پیش خدمت ہے۔۔۔۔
وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیدیا ہے،پانی کے قومی تحفظ کی پالیسی اور ڈیموں کی تعمیر سے متعلق اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا کہ کہ دیامر بھاشا ڈیم کا تعمیراتی کام فوری شروع کیا جائے اورتعمیراتی کام میں مقامی سامان اور افرادی قوت کو ترجیح دی جائے،اجلاس میں داسوڈیم نولانگ ڈیم مہمندڈیم اورسندھ بیراج پر تعمیراتی کام کی پیشرفت کاجائزہ لیاگیا۔ وز یر اعظم کو بتایا گیا کہ بھاشاڈیم کی تعمیر سے متعلق آباد کاری، مالیاتی وسائل کی فراہمی کے لئے تفصیلی روڈ میپ سمیت تمام مسائل حل کرلئے گئے ہیں اور یہ منصوبہ اب عملی کام کے آغاز کے لئے تیار ہے۔ جس پر انہوں نے ڈیم کی تعمیر کا حکم جاری کردیا۔ڈیم کی تعمیر سے روزگار کے 16 ہزار 500 مواقع پیدا ہوں گے۔اس منصوبے کا بڑا مقصد پانی ذخیرہ کرنا اور 4500 میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنا ہے۔ 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی ڈیم کی گنجائش سے ملک میں پانی کی موجودہ قلت 12 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر 6.1 ملین ایکڑ فٹ رہ جائے گی۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی زندگی میں 35 سال کا اضافہ ہوگا اور 12 لاکھ 20 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ دیامر بھاشا ڈیم کے منصوبے کے حصے کے طور پر علاقے کی سماجی ترقی پر 78 ارب 50 کروڑ روپے خرچ کئے جائیں گے۔ یہ ڈیم سیلاب کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور ہر سال سیلاب سے ہونے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچائے گا۔وزیراعظم نے حال ہی میں شروع ہونے والے مہمند ڈیم کے کام کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کیا۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ داسو جیسے اہم منصوبے پر کام جلد شروع کیا جائے۔ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں نولانگ ڈیم کے لئے فنڈز کا انتظام ہو گیا ہے اور اس ڈیم پر کام اگلے سال شروع ہو جائے گا۔ معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات لیفٹیننٹ جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ نے کہا کہ یہ پاکستان کی تمام نسلوں کیلئے ایک تاریخی خبر ہے اور ساتھ ہی یہ ہماری معیشت کیلئے بھی ایک مثبت محرک ثابت ہوگا۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ کہ ہم تربیلا اور منگلا کے بعد کوئی بڑا ڈیم تعمیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے،ایسا نہیں کہ ہمارے پاس مواقع نہیں تھے، یا فنڈنگ کا مسئلہ تھا، کالا باغ ڈیم ایک بہترین جگہ اور شاندار منصوبہ تھا لیکن اسے سیاست کی نذر کردیا گیا، نام نہاد قوم پرست عناصر جن کی ڈوریاں باہر سے ہلتی تھیں وہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے اور ملکی ترقی کا ایک منصوبہ جس پر بھاری سرمایہ خرچ ہو چکا تھا وہ ہمارے دشمنوں کی خواہشات کی نظر ہوگیا جبکہ ہمارے اسی دشمن بھارت نے اس عرصہ میں بے شمار ڈیمز بنائے اور ہمارا پانی چوری کرکے اپنی بنجر زمینیں سیراب کرلیں۔کالا باغ ڈیم کے خلاف بھارتی سرمایہ کاری اب کوئی راز نہیں رہی، چند برس قبل قومی اسمبلی میں پوری تفصیلات بیان کی جاچکی ہیں، بھارت ایک جانب اندرون پاکستان قوم پرستوں کو استعمال کرکے ڈیم کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور پھر ہمارے ڈیم نہ بنانے کو جواز بنا کر عالمی فورم پر مسئلہ اٹھاتا ہے کہ پاکستان اپنا پانی سمندر میں ضائع کر رہا ہے اس پر ہمیں استعمال کا حق دیا جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان نہ صرف ملکی ترقی، روزگار، معیشت، زراعت، اور بجلی کے حوالہ سے تاریخی اقدام ہے،بلکہ یہ ملکی سلامتی اور خودمختاری کے حوالہ سے بھی ایک بہت اہم فیصلہ ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے حوالہ سے بھارت نے سوقیانہ مہم شروع کر رکھی ہے، دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز اس مہم کا مناسب اور مسکت جواب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں بڑے ڈیمز بننا وقت کی ضرورت ہے۔اس وقت تربیلا ڈیم ہائڈل پاور کے حوالہ سے سب سے بڑا پراجیکٹ ہے، جو زیادہ سے زیادہ 6ہزار 298میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے، بھاشا دیامر اس کے بعددوسرے نمبر پر سب سے بڑا ہو گا جو ساڑھے چار پزار میگا واٹ بجلی دے گا جو کہ مجوزہ کالا باغ ڈیم کی متوقع انسٹالڈ پیدا واری صلاحیت36سو میگاواٹ سے بھی زیادہ ہے ۔یہ فیصلہ ملکی ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ جب تک ہم ہائڈل پاور کی جانب پیش قدمی نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارا انرجی کا بحران ختم نہیں ہوسکتا، تھرمل اور پیٹرو پاور تو گھر جلا کر تماشہ دیکھنے والی بات ہے، برآمدی بل کا بڑا حصہ اسی مدمیں خرچ ہو جاتا ہے، دوسری جانب عوام بھی مہنگی بجلی سے تنگ اور شکائت کناں دکھائی دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے یہ ایک بڑا فیصلہ کیا ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے دیگر اعلانات کی طرح یہ صرف اعلان ہی نہ رہے، اس کی تعمیر جلد سے جلد شروع ہو جانی چاہئے،تاکہ کام ہوتا ہوا نظر آئے۔ دوسری جانب اس امر کا خطرہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع ہونے کے ساتھ ہی سٹپٹایا ہوا دشمن اپنی سرشت کے مطابق دہشت گردی میں اضافہ بھی کرسکتا ہے۔ حکومت نے جو اچھا فیصلہ کیا ہے اسے ہر حال میں آگے بڑھانا چاہئے، ملکی سلامتی کے اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ دشمن قوتون پر نظر رکھیں تاکہ کوئی ایجنٹ ملکی ترقی کی راہ میں روڑے نہ اٹکا سکے۔
مضامین
اساتذہ کے لیے پارٹ ٹائم بزنس
یہ 2011 کی بات ہے جب تعلیم سے فارغ ہو کر میں نے بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ کالج گلگت اور بطور مدرس و میگزین ایڈیٹر جامعہ