ازقلم۔ ندیم خان
انگریز سامراج کے جنگ عظیم دوئم کے دوران جرمنی کی طرف سے شدیدلابطش حملوں کا دفاع اور اپنی عسکری امور کی موثر نظم و نسق کو بحال کرنے کے باعث حمیتی طور پرمعاشی زبوں حالی کا شکار تھا دوسری طرف مہاتما گاندھی کی موثر مزاحمتی تحریک “ھندوستان چھوڈ دو ” اور قومی اتحاد نے انگریزوں کو برصغیر سے انخلا کرنے پر مجبور کیا اور امریکہ جو صنعتی انقلاب میں معنی خیز منازل طے کررہا تھا پوری دنیا میں سرمایا درانہ نظام نافذ کرنا چاہتا تھا اس تمام تناظر میں دو بڑی اور اُبھرتی طاقتیں ١۔چین ثقافتی انقلاب کے بانی سوشلسٹ ماؤ زی تونگ (چین) اور ٢۔ سوشلسٹ جوزف سٹائلن ( روس) امریکا کےلئےمستقبل بعید میں بڑی رکاوٹیں ثابت ھونے کے واضح امکانات پیش کررھے تھے ۔
سرمایادارانہ نظام میں حائل رکاوٹوں میں سوشلزم کے نظریات نمایاں تھے جنکے اثرات برصغیر میں بھی مراتب ہو رہے تھے لہٰذا امریکہ کے ایماء پر انگریز سامراج نے ” تقسیم اور راج کرو” جیسے انتہائی موثر حکمت عملی چلائی جسکے نتیجے میں نہایت غیر منصفانہ انداز میں برصغیر پاک وھند کا بٹوارہ ھوگیا۔
اس تمام پس منظر میں نوابوں ,جاگیرداروں، سرداروں کی اختراع کی ھوئی سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے ہندو مسلمان کے مزھبی عقائد کو نشانہ بناتے ھوئے دو قومی نظرئیے کو بتعاون انگریز سمراج کی کامیاب تشہیری مہم چلائی مسلم قیادت بظاھر انگریزوں کے خلاف شعلہ مستعجل اور نفرت آمیز تقاریر تو کرتے تھے مگر حقیقتً خود اُنکے سفارتی ایجنٹ تھےجنھیں پاکستان میں وزارتیں اور آعلیٰ عہدے چاہئیے تھےتنتیجاً برصغیر دو لخت ہوگیا لاکھوں نہتے اور معصوم لوگ اس فرسودہ تحریک کے نزر ہوگئے ۔
انگریز سمراج کے بنائے سرغنوں کے ریشہ دوانیوں کے بدولت برصغیر پاک و ھند فرسودہ نظریے کے تحت بھارت اور پاکستان کے نام سے دو لخت ھوگیا۔
(بعدازاں میں بنگلہ دیش کی شکل میں تین لخت ہوگیا) ۔
اس وقت کے شیخ الاسلام مولانا ابوالکلام آزاد جیسے دور اندیش، مذہبی اسکالر نے پاکستان کے بارے میں جو پشین گوئیاں کی تھیں وقت نے اُسے بھی ثابت کیا ۔
دونوں ریاستوں پاکستان اور ہندوستان میں بسنے والے مسلمان آج بھی اِسی مذہبی انتہا پسندی کی آگ میں جل رہے ھیں ،ستم ظریفی دیکھئے پاکستان اور ہندوستان کی روایتی دشمنی سے دنیا کی طاقتیں خوب فائدہ اٹھا رہی ھیں۔ کھربوں ڈالرز کئی دھائیوں سے اب تک ہتھیاروں کی خرید و فروخت کی دوڈ میں خرچ ہورہے ھیں اور دوسری طرف غریب عوام بنیادی حقوق , بھوک افلاس بے روزگاری مزھبی جنونیت انتہا پسندی اندھا قانون غیر منصفانہ عدالتی نظام سماجی ابتریاں اور کئی انسان سوز معاشرے میں جی رھے ھیں۔
تقسیم کے بعد بھی مہاتما گاندھی دونوں ملکوں کے مابین اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے مگر ۔ افسوس مزھبی جنونیت کے پروان چڑھے۔
ساتھ ہی پاکستان کے بانی جناح کی پراسرار موت ناصرف ایک معمہ ھے بلکہ فاطمہ جناح کو غدار ٹھہرانا بھی اس بات کی عکاسی کرتا ھے کہ مقتدر حلقوں نے اس ملک کو لوٹ کھسوٹ کے بیرون ملک آباد ہونے اور مزید برآں اس ملک کے غریب عوام کیلئے زمین تنگ اور دائمی غلام بنانے کا ارادہ پہلے سے ہی طے کیا ہوا تھا ۔
[/dropcap]